تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-09-2024

ایک بڑے آدمی سے ملاقات

لکھنا تو خیر سے ایک مشکل کام ہے اور ہم جیسے لوگ تاعمر قلم سیدھا کرتے رہتے ہیں لیکن بہت کم خوش قسمت ہوتے ہیں جو اس میں کسی معراج پر پہنچتے ہیں‘ ہم بہرحال ان خوش نصیب لوگوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم نے نسبتاً کم تر مشکل کام میں اپنا من مارا‘ یہ کم مشکل کام پڑھنا تھا۔ جیسا کہ میں کئی بار لکھ چکا ہوں ابا جی ایمرسن کالج میں لائبریرین تھے اور گھر میں بھی کتابوں کی رونق لگی رہتی تھی۔ ماں جی کا کتابوں کا ذوق مختلف تھا اور ابا جی کا مختلف۔ ابا جی زیادہ تر تاریخی‘ ادبی اور مذہبی کتابیں پڑھتے تھے جبکہ ماں جی رضیہ بٹ‘ اے آر خاتون‘ سلمیٰ کنول‘ زبیدہ خاتون اور اسی طرح کی دیگر خواتین لکھاریوں کی کتابوں کی شائق تھیں۔ تاہم میری حروف سے شناسائی بچوں کی دنیا‘ تعلیم و تربیت اور نونہال کی وساطت سے ہوئی۔
اس کے بعد جادو پریوں والی کہانیاں شروع کیں۔ مجھے اب یاد نہیں کہ ان کو چھاپنے والا کون تھا اور مصنف کون تھے تاہم یہ اونچائی‘ لمبائی میں کم اور چوڑائی میں دو گنا باتصویر کہانیوں والی اخباری کاغذ پر چھپنے والی کتابیں تھیں جو آنہ لائبریری میں دستیاب تھیں۔ پھر ان سے نکل کر ابنِ صفی تک پہنچے اور پھر ہمیں سب رنگ مل گیا جس میں سارے رنگ تھے۔ تاریخی کہانیوں سے لے کر دنیا بھر کے ادب سے چنیدہ کہانیاں اور شوکت صدیقی کے جانگلوس سے لے کر بابر زمان والے بازی گر تک‘ کیا کچھ نہیں تھا جو اس چھوٹی سی ماہانہ زنبیل میں نہیں ہوتا تھا۔ یہ شکیل عادل زادہ کا نگار خانہ تھا جس کا ہم ہر ماہ انتظار کیا کرتے تھے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ جاسوسی کہانیوں سے ادب کی طرف لے جانے کا سارا سہرا سب رنگ‘ جو شکیل عادل زادہ کا ہی Brand Name تھا‘ کے سر ہے۔ مجھے پڑھنے کی اصل لت دراصل اسی رسالے نے لگائی۔
اسی دور میں جب دوسرے ماہانہ رسالے وقت گزارنے والی الٹی سیدھی تحریریں چھاپ رہے تھے سب رنگ نے ہمیں موپساں‘ سمرسٹ ماہم‘ اوہنری‘ چیخوف اور لیو ٹالسٹائی کے علاوہ لاتعداد عالمی شہرت کے حامل ادیبوں کی کہانیوں کے تراجم کے ذریعے عالمی ادب سے روشناس کرایا۔ ٹاٹوں والے سکول میں پڑھنے والا بچہ‘ جس نے ABC جا کر چھٹی جماعت میں پڑھی‘ بھلا ان ادیبوں سے کیسے آگاہ ہوتا اگر اسے یہ تراجم نہ ملتے؟ سمندر پار سے آنے والے ادب میں صرف انگریزی ادب ہی شامل نہ تھا۔ چینی‘ جاپانی‘ فرانسیسی‘ ولندیزی اور ہسپانوی ادب سے تعارف پر ہی کیا موقوف‘ ہم تو برصغیر کی دیگر زبانوں کے ادب سے بھی اتنے ہی ناآشنا تھے۔ سب رنگ کی جادو نگری میں اور بھی بہت کچھ تھا‘ بنگالی کہانیاں‘ تامل کہانیاں‘ گجراتی ادب سے انتخاب‘ ملیالم کے پھولوں سے کشید کردہ عطر اور مراٹھی ادب کے چنیدہ موتی۔ غرض اوائلِ عمری میں جس کثرت سے ادب کی رنگین قوس قزح سے سب رنگ نے متعارف کرایا ‘بھلا وہ اور کس ذریعے سے ممکن تھی۔ اور سب رنگ کیا تھا‘ یہ شکیل عادل زادہ کا دوسرا نام تھا۔ اس کے سرورق سے لے کر صفحہ آخر تک شکیل عادل زادہ کا رنگ ہر جگہ موجود تھا۔ شکیل عادل زادہ ان لوگوں کی فہرست میں شامل تھے جن سے ملنا میری زندگی کی ترجیحی خواہشات میں سے ایک ہے۔
برادر عزیز رستم لغاری سے وعدہ تھا کہ اگر اب کراچی آیا تو کم از کم دو دن ادھر رہوں گا‘ بھلے کچھ اور کروں یا نہ کروں‘ شکیل عادل زادہ سے ہر حال میں ملوں گا۔ گزشتہ ہفتے جب کراچی جانے لگا تو روانگی سے قبل شکیل عادل زادہ سے فون پر ملنے کی درخواست کی جو انہوں نے بکمال مہربانی قبول کر لی۔ لیکن کراچی جانا کون سا آسان مرحلہ تھا‘ ملتان سے کراچی قومی ایئر لائن کی پروازوں کا شیڈول تو مجھے یاد نہیں تاہم اتنا معلوم ہے کہ ملتان سے کراچی جمعہ اور اتوار کو کوئی فلائٹ نہیں ہوتی۔ یہ محض اتفاق ہے کہ مجھے عموماً ہفتے والے دن ہی کراچی میں کوئی مصروفیت ہوتی ہے۔ نہ جمعہ کو کراچی جا سکتا ہوں اور نہ اتوار کو واپس آ سکتا ہوں۔ گزشتہ ماہ بھی ایسا ہی ہوا کہ کراچی جانے کیلئے پہلے ملتان سے لاہور گیا اور پھر واپس ملتان بھی براستہ لاہور آیا۔
کیا زمانہ تھا کہ ملتان سے کراچی کیلئے روزانہ دو پروازیں ہوا کرتی تھیں۔ اسی طرح ملتان سے روزانہ دو پروازیں لاہور اور اسلام آباد کیلئے ہوا کرتی تھیں۔ ملتان سے اسلام آباد کیلئے شام والی پرواز براستہ لاہور ہوتی تھی۔ تاہم ہفتے میں چار روز ملتان سے اسلام آباد کیلئے فوکر کی ایک اور پرواز بھی ہوا کرتی تھی جو ملتان سے ژوب‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور کے راستے تین صوبے گھماتی ہوئی اسلام آباد لے جاتی تھی۔ ملتان سے جہاز میں جگہ نہ ملی تو ڈیرہ غازی خان سے فلائٹ پکڑ لیتے تھے۔ کبھی بہاولپور کا ایئرپورٹ کام آ جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ایک بار رحیم یار خان ایئرپورٹ پر بھی اترنا پڑا۔ اب یہ حال ہے کہ ڈیرہ غازی خان‘ بہاولپور اور رحیم یار خان ایئر پورٹس مکمل طور پر بند پڑے ہیں۔ عرصہ دو سال سے ملتان لاہور فلائٹ آپریشن مکمل بند ہے۔ اسلام آباد کیلئے بھی غالباً ہفتے میں دو پروازیں ہیں اور کراچی کا حال لکھ چکا ہوں۔ بربادی کا یہ عالم ہے کہ اس ایئر لائن کو بیچنا بھی ایک مصیبت بن چکا ہے۔ دوسری بار اخبار میں فروخت کا اشتہار دیا ہے مگر ڈھنگ کا ایک بھی خریدار میسر نہیں۔ خیر بات کہیں اور چلی گئی۔
میں نے مجبوراً جمعرات کی ملتان سے کراچی کیلئے اپنی سیٹ بک کروا لی مگر ایئر پورٹ جا کر معلوم ہوا کہ فلائٹ نہ صرف کینسل ہو گئی ہے بلکہ اگلے چار روز کیلئے کراچی ملتان کا فلائٹ آپریشن بھی معطل ہے۔ اگلے روز کراچی جانے کیلئے ملتان سے لاہور روانہ ہو گیا۔ کراچی میں دو دن کی مصروفیات کو گھسیٹ کر ڈیڑھ دن پر لانا پڑا تاہم شکیل عادل زادہ سے ملاقات کے سلسلے میں کسی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اگلی صبح سب سے پہلا کام ہی شکیل صاحب سے ملاقات تھا۔
سب رنگ پہلے ہر ماہ باقاعدگی سے شائع ہوتا تھا‘ پھر اس میں وقفہ آنا شروع ہو گیا۔ دو ماہ‘ تین ماہ‘ چھ ماہ اور پھر یہ وقفہ بڑھتا بڑھتا سالوں پر محیط ہو گیا مگر آشفتگانِ سب رنگ آج بھی اس کے اگلے شمارے کے منتظر رہتے ہیں۔ برمنگھم میں مقیم حسن رضا گوندل‘ جو فنا فی السب رنگ ہیں‘ نے ہم جیسے عاشقانِ سب رنگ کیلئے سب رنگ کہانیوں کا سلسلہ شروع کیا‘ جسے بک کارنر جہلم نے کتابی صورت میں ہم تک پہنچایا۔ شکیل صاحب نے اس کی پہلی تین جلدوں پر اپنے دستخط فرما کر اس عاجز کو بھجوا دیں۔ اب میرے پاس باقی چار حصے تھے جو ان سے دستخط کروانے تھے۔ شکیل عادل زادہ لکھنا بھی جانتے ہیں اور بات کہنے کے فن سے بھی مالا مال ہیں۔ وہ بولتے رہے اور یہ طالب علم یکسوئی سے سنتا رہا۔ پھر سب رنگ کہانیوں کی جلد نمبر چار تا سات ان کے سامنے رکھیں اور انہیں دستخط کرنے کی درخواست کی جو انہوں نے بخوشی قبول کی۔ سفید شلوار کُرتے میں ملبوس پان چباتے ہوئے شکیل عادل زادہ جب گفتگو کر رہے تھے تو کبھی ان کا سراپا عشروں پیچھے جا کر بابر زمان میں بدل جاتا تھا اور کبھی وہ استاد بٹھل کی صورت اختیار کر جاتا تھا۔ میں تو صرف سامع تھا۔
گفتگو کے دوران وہ رکے تو میں نے پوچھا کہ وہ بازی گر کب مکمل کر رہے ہیں؟ ایک لمحے کے توقف کے بعد کہنے لگے: اس کی 125 سلپیں لکھ چکا ہوں‘ کوشش کروں گا کہ اسے جلد مکمل کر لوں۔ میں نے کہا: شاید آپ کو بازی گر کے مکمل ہونے کے منتظروں کے اشتیاق کا علم نہیں۔ وہ مسکرا پڑے۔ وقت گزرنے کا تو اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا لیکن میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے اجازت لی۔ وہ مجھے اور رستم لغاری کو دروازے تک چھوڑنے آئے۔ راستے میں مَیں سوچ رہا تھا کہ اب اس ملک میں کتنے لوگ رہ گئے ہیں جنہوں نے ایک پوری نسل کو اپنے کام سے متاثر کیا اور حرف و قلم سے جوڑا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم خوش قسمت لوگ ہیں جنہیں بڑے لوگ نصیب ہوئے اور شکیل عادل زادہ انہی میں سے ایک ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved