سیاست اور سیاسی دھارے کو محدود دائروں میں دیکھنے کے بجائے وسیع عالمی اور گہرے تاریخی زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں ہم آج کھڑے‘ رکے اور اگر آپ کچھ زیادہ رعایت دیں تو‘ رینگتے ہوئے بے سمت سفر کررہے ہیں‘ ہمارے اربابِ حل و عقد‘ قائدین‘ عظیم رہنما اور اکثر سیاسی مسافر کئی بار ہمیں اس دشتِ بے آب وگیاہ میں دھکیل چکے ہیں۔ اس کی وجوہات تنگ نظری‘ کوتاہ اندیشی‘ شخصیت پرستی‘ نرگسیت اور ذاتی مفادات کا قومی سیاست کی راہیں متعین کرنے کا غلبہ ہیں۔ اگر آپ ان سیاسی اور غیرسیاسی رویوں کو آج کے دور کی خطرناک ترین نشہ آور خرافات میں شامل کر لیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اس کی وجہ بہت ہی آسان ہے کہ اگر یہ لت پڑ جائے تو پھر علاج اتنا آسان نہیں رہتا۔ صرف ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ کوئی زبردست گھڑ سوار چابک لہراتے ہوئے کہیں وارد ہو اور نشے کے عادی سب افراد کو پکڑ کر معاشرے سے الگ کرکے مخصوص شفاخانوں میں علاج معالجہ کرے‘ اور جن کا نہ ہو سکے انہیں وہیں رہنے دیا جائے۔ آپ میں سے کچھ کی نظریں اڈیالا کی طرف اُٹھیں گی‘ مسئلہ ایک جماعت‘ ایک رہنما‘ بانی یا قیدی کا نہیں‘ سب سیاستدانوں کا ہے۔ اچھی‘ عوامی اور فلاحی سیاست قومی اتفاق سے نمو پاتی ہے جبکہ ایسی زمین کے بغیر یہ بیج اپنی فطری آنکھ ہی نہیں کھول پاتا‘ گردوغبار کی تاریکی میں گُھٹ کر خاک کا رزق بن جاتا ہے۔
زندگی کی کئی حقیقتیں ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ان کے بارے میں آپ کا ذاتی مؤقف کچھ بھی ہو اور آپ کچھ بھی کر لیں‘ وہ اپنی جگہ پر قائم رہتی ہیں۔ ان میں خاص سماجی تربیت‘ اونچ نیچ‘ غریب اور امیر‘ اشرافیہ اور حکمران طبقات اور ہم جیسے عام لوگ آپ کو معاشرے میں ملیں گے۔ سماجی علوم میں ہمیشہ سے ایک دلچسپ سوال رہا ہے کہ ہمارے عمومی رویوں‘ تہذیبی رنگوں‘ غالب افکار اور ترجیحات‘ انفرادی ہوں یا اجتماعی‘ کا تعین کون سے طاقتیں کرتی ہیں؟ اس سوال کا جواب مختلف نظریات اور فلسفوں کے حوالے سے دینے کی کوشش کریں تو ایک دفتر کھل جائے گا۔ ایسے مقالوں کے لیے اور جگہ‘ اور وقت درکار ہے۔ اگر آج کل کے قومی اور عالمی حالات‘ جو نہایت ہی دلخراش اور مایوس کن دکھائی دیتے ہیں‘ پر کچھ نظر ڈالیں تو حکمران اشرافیہ کی چھاپ واضح دکھائی دیتی ہے۔ ان کے نظریات‘ سوچ اور ان کی اخلاقیات یا بداخلاقی ہر خطے اور ریاست میں رویوں پر اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایک کامیاب اور ناکام سیاست میں ایک بہت بڑا فرق بنیادی اور ساختی نوعیت کا آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ایک عام مغالطہ‘ جو ہمارے ٹیلی ویژن سیکرینوں کے دانشوروں نے پھیلا رکھا ہے‘ اس کی تصحیح اور رد ضروری خیال کرتا ہوں۔ کامیاب سیاست ذاتی نہیں ہوتی کہ کسی نے اقتدار میں رہ کر کتنا کچھ ناجائز ذرائع سے بنایا‘ باہر لے گیا اور اس کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں تواتر سے پذیرائی ہوتی رہی۔ ایسی شخصی کامیابیوں کو دنیا‘ وہ دنیا جس کی تہذیب کی آبیاری قانون‘ انصاف اور عوامی اخلاقیات کرتے ہیں‘ کچھ اور طرح سے دیکھتی ہے۔ ان کے ادارے اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ ایسے شخص کو پکڑ کر عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں اور کڑا احتساب ہوتا ہے۔ سیاست کے میدان میں کامیابی اجتماعی ہوتی ہے‘ اور اگر صرف اشرافیہ ہی قانون‘ انصاف اور ریاستی اداروں کو یرغمال بنا کر فیض یاب ہوتی رہے تو آپ اسے کیسے کامیاب سیاست کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے بھی کیا رویے ہیں کہ درباری کلچر جو مغلوں کے دور میں‘ بلکہ اس سے بھی پہلے اس خطے میں پیدا ہوا‘ نسل در نسل ہمیں اپنے گھیرے میں لیتا رہا ہے۔ اس لیے آج بھی پرانے ادوار کی طرح شاہوں کے مصاحب بننے پر لوگ فخر کرتے ہیں اور لوٹ مار کی سیاست پر اِتراتے ہیں۔
کہنا یہ ہے کہ اشرافیہ اور اعلیٰ طبقات کا اخلاقی کردار‘ نظریاتی رجحان اور ترجیحات کسی ریاست کی ترقی اور زوال میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیم‘ مذہب اور قدیم تہذیبی دھارے کردار سازی میں شاید اتنے مؤثر نہیں جتنے جدید دور کی ریاست‘ اس کا قانون اور معیشت کی نوعیت کا اثر ہے۔ موجودہ ماحول میں ایسی بات کہنا شاید آپ کو ناگوار گزرے‘ مگر جو کچھ میں تاریخ کے اوراق سے اپنی محدود سوچ کے مطابق حاصل کر سکا ہوں‘ وہ یہی نکتہ ہے۔ آج کے دور کی تہذیب کو قانون اور معاشی نظریے نے ترتیب دیا ہے اور معیشت بھی قانون کے تابع ہے۔ یہ طویل بحث ہے لیکن اتنا عرض کرتا چلوں کہ جب انیسویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ نے جدیدیت کی طرف قدم بڑھانا چاہا تو قانون کو ماضی سے الگ کردیا۔ آج ہمارے ہاں قانون بنتا ہے‘ بلکہ دھڑا دھڑ قوانین بنائے جا رہے ہیں‘ صبح شام‘ اٹھتے بیٹھتے‘ مگر کیا وہ عوامی منشا کا مظہر ہیں یا اُن کے پیچھے نظریۂ ضرورت کار فرما ہے؟ آج کی ریاست کی حکمرانی قانون سے ہے‘ کوئی اس سے بالا نہیں‘ سب اس کے سامنے برابر ہیں‘ اور یہ نظری طور پر قومی اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ مغرب کی ترقی ہو یا چین اور جاپان کی‘ اس کا راز اس طور کی حکمرانی میں ہے۔ اس وجہ سے کامیاب ملکوں کا سیاسی سفر منزل بہ منزل امن‘ استحکام اور خوشحالی کی سمت ہوتا ہے۔ جاپان اپنی جدیدیت میں دوسری عالمی جنگ سے پہلے جمہوری ملک نہیں تھا اور چین کے بارے میں آپ یہ تہمت لگا سکتے ہیں مگر وہ کیا کرشمہ تھا اور وہ کیسے کرشمہ ساز تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے ملکوں کو بدل ڈالا۔ یہ کرشمہ باصلاحیت قیادت‘ قومی جذبہ اور قانون کی طاقت کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔
ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو قدرتی دولت سے تو مالا مال تھے‘ جن میں عراق‘ لیبیا‘ نائیجیریا اور وینزویلا سر فہرست ہیں‘ مگر آج ان کی حالت آپ کے سامنے ہے۔ ایک اور ملک سنگا پور ہے جو مٹی اور پانی تک درآمد کرتا ہے لیکن وہ دنیا کے خوشحال اور پُرامن معاشروں میں سے ایک ہے۔ ہم کہتے رہتے ہیں کہ اپنے ملک میں کیا کچھ نہیں‘ چار موسم‘ دریا‘ سمندر‘ پہاڑ‘ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں‘ مسحور کن صحرا‘ زرخیز زمین مگر وہ زرخیزی ہم نے اپنی اشرافیہ اور حکمران طبقات میں نہ دیکھی۔ کسی ریاست کا سیاسی سفر‘ اس کی منزلیں اور اس کے باسیوں کی اخلاقیات اور رویوں کا تعین وہ کرتے ہیں جو میرِ کاررواں ہوتے ہیں۔ اپنے ان میروں کے بارے میں ہم کچھ زیادہ نہ لکھ سکتے ہیں نہ کہہ سکتے ہیں۔ قانون پہ قانون آرہا ہے کہ بہتر ہے کہ خاموش رہو۔ اس لیے فقط ہم عروج و زوال اور کامیابی اور ناکامی کی ہلکی پھلکی بحث ہی چھیڑ سکتے ہیں۔ کوئی اگر یہ سوچے کہ ہماری قسمت ہی ایسی تھی تو ان سے درخواست ہو گی کہ قوموں اور افراد کی قسمت اجتماعی ماحول کی تشکیل سے بنتی اور بگڑتی ہے۔ یہ ماحول ہم نہیں‘ ہماری اشرافیہ یعنی حکمران طبقات کا مرتب کردہ ہے‘ جس کا دائرہ اب بہت وسیع ہے اور ان کی تعداد میں ہمارے قومی قرضوں کی مناسبت سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک ہی طبقے نے تو ترقی کی ہے اور خوشحالی پائی ہے‘ باقی اب اپنا اگلا بل بھرنے کی فکر کریں۔ بازار سے سستی اشیا تلاش کریں اور چین کی زندگی بسر کریں۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آغازِ سفر میں ہی میرِ کارواں بدلے گئے اور پھر بدلتے رہے اور بدلے جانے کی روش میں کسی کو یاد ہی نہ رہا کہ منزل کیا تھی‘ کہاں جانا تھا اور پھر ہم کہاں اور کن تاریکیوں میں کھو گئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved