تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-10-2013

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

صنم آشنا، ہم سب صنم آشنا۔ دولت کے بت، شہرت کے، عصبیت کے ، خود پسندی کے اورلیڈر؟ اسفند یار ولی خاں، خان مولانا فضل الرحمن خان! مذاکرات انہیں سونپے ہیں‘ دودھ کی رکھوالی بلّی کے سپرد۔ رہا غور وفکر تو زمانہ گزرا کہ مسلمان اس سے بے نیاز ہوئے اور اللہ ان سے بے نیاز۔ اس کاقانون سب کے لیے وہی ایک ہے ، وہی ایک! پھر وہی پامال موضوعات ، پھر وہی الجھے ہوئے خیالات۔ وہی لیڈر ، وہی ان کے کارنامے اور کرتوت۔ سیاست کے جنگل میں وہ پگڈنڈی کیسے تراشی جائے کہ قوم اپنی منزل سے آشنا ہو؟ اگر یہ معلوم نہ ہوتا کہ اللہ کس قدر مہربان ہے تو زندگی کی نبض ٹوٹنے لگتی۔ کیسا شاندار ملک، کتنے بے حساب مواقع۔ سب کے سب ضائع کر دئیے گئے اور پیہم ضائع کیے جا رہے ہیں۔ دوسروں سے ہم کہتے ہیں ، رکو، خدا کے لیے کہیں تو رکو۔ Someone should cry halt۔ پھر سوچتے ہیں کہ خو د اپنا حال کیا ہے ؟ جناب منصور آفاق سے کہا: وہ ایک پامال سا شعر ہے ۔ یوں کودا‘ ترے گھرمیں کوئی دھم سے نہ ہوگا، وہ کام کیا ہم نے جو رستم سے نہ ہوگا۔ پہلا مصرعہ لغو سا لگتاہے ، دوسرے پر گرہ لگانے کی زحمت کیجئے۔ کچھ دیرمیں فون آیا تو حیرت ہوئی کہ موزونیٔ طبع ایسی بھی ہوتی ہے۔ روند آئے ہیں جو پائوں میں دستارِ فضیلت وہ کام کیا ہم نے جو رستم سے نہ ہوگا ہارون رشید‘ آئو کہ اب جوگ ہی لے لیں کچھ کام بھی اخبار کے کالم سے نہ ہوگا جوگ ہی لے لیں ؟ شاعر پہ اخبار نویس کی قلبی کیفیت کیسے منکشف ہوئی ؟ کئی دن سے حال یہی ہے ۔ اپنے فرض سے اگر انصاف نہیں ہو سکتا تو سبکدوش ہوجانا چاہیے۔ اس کے بعد مگر کیا؟ اس کے بعد کیا؟ بہت دن ہوتے ہیں ۔ درویش نے کہا تھا: بولنے اور لکھنے والے کو ہرگز یہ حق نہیں کہ سننے اور پڑھنے والے کا وقت ضائع کرے ۔ خود اپنے بارے میں ارشاد کیا تھا: جس دن لکنت کا شکار ہوا، اسی دن خاموشی اختیار کرلوں گا۔ وہ کیوں لکنت کا شکار ہوں گے ۔ جس زبان پہ دائم اللہ کی حمد و ثنا، جس زبان سے ہمیشہ ذکرِ سرورِعالمؐ، جس مزاج میں بندگانِ خدا کے لیے دائم انس اور الفت ، جو ذہن ہمیشہ غور و فکر اور تحقیق و جستجو میں محو و مصروف ، وہ کیوں بنجر اور ویران ہونے لگا۔ افتاد تو ان پہ اترے ، جن کی تمام تر توانائی راہ ِ حق سے فرار کے لیے مختص ہے ، خود نمائی کے لیے ۔ ان کو خیر جانے ہی دیجئے ، زمین و آسمان کی سب سے بڑی سچائی ، وجودِ باری تعالیٰ سے جو نا آشنا ۔ ان کا حال کیا ہے ، جو قال اللہ اور قال الرسولؐ کی زبان میں بات کرتے ہیں ۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎ اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا اللہ سرکارؐ سے پوچھا گیا ۔ انسانوں میں سے بدترین کون ہیں یا رسول اللہؐ ؟ فرمایا : اللہ ان پر رحم کرے ۔ بارِ دگر درخواست ہوئی تو ارشاد کیا : وہ جو دنیا کے لیے دین کو بیچ دیتے ہیں ۔ ابھی ابھی ایک پیغام موبائل پر ملا ہے ۔ ’’ملک چل رہا ہے ۔صدر صاحب دبئی میں۔وزیراعظم انگلستان میں براجمان۔سپہ سالار چین میں تشریف فرما۔وزیر خزانہ برطانیہ میں۔مشیرِ امورِ خارجہ انگلینڈ میں ۔وزیراعلیٰ پنجاب ترکوں کے مہمان ۔گورنر سندھ دبئی میں ۔مگر فکر نہ کیجئے،ملک چل رہا ہے‘‘۔ چلیے، خیر کوئی جواز بھی ہوگا۔ کام ہی سے گئے ہوں گے۔ ملک کے اندر بھی موجود ہوں تو کون سی عنایت فرماتے ہیں ۔ بڑے اور کارگر لیڈر کب پیدا ہوتے ہیں ؟ ایک جواب کسی نے دیا تھا : قومیں جب درد پالتی ہیں ۔ پروردگارِ عالم سے جب فریاد کرتی ہیں۔1857ء کے بعد جب غلامی کے مارے ہندوستان کی مائیں روتی رہیں تو ایک سے ایک بڑا لیڈر اس سرزمین نے دیکھا۔ ہندوئوں نے پھر کرم چند موہن داس گاندھی کو پایا، جواہر لعل نہرو کو جنا۔ مسلمانوں کو اقبالؒ عطا ہوئے اور لیڈروں کے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناحؒ۔ کل ایک طالبِ علم نے سرکار ؐ کا فرمان دہرایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ بات کرے تو جھوٹ بولے، امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور وعدہ کرے تو توڑ ڈالے ۔ ہمارا حال یہی نہیں ؟ نصیحت کیا، خود اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ دوسروں کو ہم سنار کے ترازو میں تولتے ہیں اور خود کو ؟ ؎ کعبے کس منہ سے جائو گے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی سوال کا جواب موجود ہے۔ حتمی اور مکمل۔ انہوںنے دیا تھا، جن کے بارے میں ارشادِ ربانی یہ ہے: اپنی آرزو سے وہ کچھ نہیں کہتے ، وہی جو ان پر نازل کیا جاتاہے ۔ فرمایا: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں ۔ جیسے تم ، ویسے ہی تمہارے حاکم۔ آصف علی زرداری ، الطاف حسین ، میاں محمد نواز شریف ، شہباز شریف ، عمران خان ، پرویز خٹک اور قائم علی شاہ ۔ ڈاکٹر مالک پھر بھی غنیمت لگتے ہیں ۔ کیا واقعی غنیمت ہیں ؟ کوئی دن میں پتہ چل جائے گا۔ مبالغہ بھی کریں تو نباہنے تک ہے ۔ بات کرتے ہوئے عمران خان سچے لگتے ہیں۔ آواز میں یقین ، لہجے میں اعتماد، ماضی میں موتی سے چمکتے ہیں۔ عالمی کپ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی ۔اب مگر حال کیا؟ جانتے ہیں کہ پارٹی الیکشن میں دھاندلی ہوئی مگر تنظیمِ نو نہیں کرتے ۔ خبر ہے کہ فلاں اور فلاں پرلے درجے کا بددیانت ہے ؎ بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے مگر کلیجے سے انہیں لگا رکھا ہے ۔ قصور میں بائیسویں گریڈ کے ایک افسر کی اہلیہ تھیں ۔ ایک بڑے زمیندار کی نورِ نظر۔ چار بیٹے اللہ نے عطا کیے۔ چاروں چٹّے ان پڑھ۔ کسی کو سکول جانے نہ دیا کہ آنکھوں سے اوجھل ہونا گوارا نہیں ۔ نتیجہ ظاہر۔ عمران خاں پارٹی کو اولاد کی طرح عزیز رکھتے ہیں ۔ احتساب کے علمبردار مگر خود اپنی جماعت میں نہیں ۔ مانتے ہیں کہ پارٹی الیکشن میں وقت رائگاں کیا، جب الیکشن سر پہ تھے ۔ مانتے ہیں کہ ٹکٹ غلط بانٹے گئے ۔ تسلیم کیا کہ 80فیصد پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ ہی مقرر نہ کیے۔ کوئی ذمہ د ار بھی ہے ؟ اگر ہے تو جزاو سزا کا قانون آ پ کے لیے کیوں باطل ؟ استعفیٰ دیجئے ۔ دوسری بار بھی ظاہر ہے کہ آپ ہی چنے جائیں گے مگر بہروپیوں سے نجات کادروازہ کھل جائے گا۔ ہاں خورشید شاہ قصوروار ہیں مگر کیا شاہ محمود نہیں ؟ جی نہیں ، مجھے سمجھایا\"He is a fine politician\" وہ ایک عمدہ سیاستدان ہے ۔ ایسے ہی عمدہ سیاستدانوںنے لٹیا ڈبوئی ہے ۔ بزرگوار سینیٹر اعظم ہوتی سے کوئی پوچھے کہ پانچ برس کے بعد اسفند یار ولی خان کی مبینہ خیانت آپ کو یاد آئی؟ اخبار نویس تو کب سے چیخ رہے تھے ۔ رائے عامہ تو کب سے نالاں تھی ۔ کہا: اس نے پٹھانوں کو دھوکہ دیا۔ پارٹی کارکنوںکو ۔ ارے نہیں اللہ کے بندے ، اگر دیا تو انسانوں کو ۔ پٹھان اچھے ، بہت اچھے، مگر باقیوں سے الگ کیسے ہو گئے ، افضل کیسے ہو گئے ؟ جس پیمبرؐ کو مانتے ہو، اس کا فرمان تو یہ ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر ہرگز کوئی فضیلت نہیں مگر پاکبازی سے، درد سے، ایثار سے، کردار سے ۔ درویش سے کہا: تسبیح و مناجات سے کیا زندگی سنور جاتی ہے؟ کہا: بلکہ توجہات سے، غور و فکر سے ، خود اپنے احتساب سے۔ اقبالؔ کا فکر فلک گیر ہے ۔ بلند اور روشن ۔ ایک ارشاد ان کا تھا، فقیر نے بات مکمل کر دی ؎ یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات قوم کے لیے تکبیر وہ کہے ، جس کا تن اجلا، جس کا من اجلا وگرنہ تو وہی ؎ میں جو سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں؟ صنم آشنا، ہم سب صنم آشنا۔ دولت کے بت، شہرت کے، عصبیت کے ، خود پسندی کے اورلیڈر؟ اسفند یار ولی خاں، مولانا فضل الرحمن خان! مذاکرات انہیں سونپے ہیں‘ دودھ کی رکھوالی بلّی کے سپرد۔ رہا غور وفکر تو زمانہ گزرا کہ مسلمان اس سے بے نیاز ہوئے اور اللہ ان سے بے نیاز۔ اس کاقانون سب کے لیے وہی ایک ہے ، وہی ایک!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved