ان دنوں بانی پی ٹی آئی کی آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے کی خواہش پر عالمی میڈیا میں بات ہو رہی ہے۔ اخبارات میں کالم چھپ رہے ہیں۔ برطانوی اخبارات اس موضوع پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں دائیں اور بائیں بازو کے لکھاری کھل کر لکھ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دی گارڈین کے ایک کالم میں بھی اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی اس عہدے میں دلچسپی کے بعد یہ عہدہ پاکستانی اور برطانوی میڈیا میں زیر بحث آیا ہے‘ وگرنہ ماضی میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب بڑی خاموشی سے ہوتا رہا ہے۔
اس عہدے کو لے کر اس وقت جو تنازع کھڑا ہوا ہے‘ اس کی وجہ بانی پی ٹی آئی کے وہ خیالات ہیں جن کا اظہار وہ مختلف مواقع پر کر چکے ہیں۔ برسوں پہلے جب انہوں نے ان مسائل پر اظہارِ خیال کیا تھا تو شاید ان کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ مستقبل میں یہ خیالات ان کے لیے مسئلہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے اخبارات اور جرائد نے اُس وقت بھی خان صاحب کے خیالات پر تنقید کی تھی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس کی شدت اور بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کے حوالے سے جس لہجے میں بات کی تھی‘ اس کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑی سنجیدگی سے لیا گیا تھا۔ اس کے بعد افغانستان سے امریکی انخلا پر ان کا ردِ عمل اور طالبان کو مبارکباد دینے کے عمل کو مشرق و مغرب میں تنقیدی نظر سے دیکھا گیا تھا‘ لیکن مغربی میڈیا‘ خصوصاً برطانوی اخبارات کے لیے وہ خیالات بڑے سنجیدہ تھے‘ جن کا اظہار خان صاحب نے افغانستان کے اندر اس وقت پائی جانے والی انسانی حقوق کی صورتحال پر کیا تھا۔ اس سے پہلے دنیا میں اس بات پر یک گونہ اتفاق پایا جاتا تھا کہ مختلف ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مقامی یا اندرونی معاملہ قرار دے کر ان کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں خواتین کے بنیادی حقوق‘ تشدد اور ماروائے عدالت قتل جیسے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی صورتحال افغان خواتین کی صحت‘ تعلیم اور سماجی تحفظ کے حوالے سے بھی تھی۔ ان تمام موضوعات پر عالمی برادری کا ایک طرح کا اجتماعی مؤقف موجود تھا‘ لیکن بانی پی ٹی آئی نے جس انداز میں اس اجماع کو چیلنج کیا‘ وہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور جمہوریت پسندوں کے لیے ایک پریشان کن عمل تھا۔ صرف اسی پر ہی بس نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر خواتین کے لباس اور طرزِ زندگی کو ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے نامناسب سلوک کے ساتھ جوڑنے کی جوکوشش کی گئی وہ انسان دوست سبھی حلقوں کیلئے ناقابلِ قبول تھی۔ اس سلسلۂ عمل میں خان صاحب نے اپنا ایک الگ ہی امیج پیش کیا اور پھر چند برسوں میں سب کچھ بھول کر آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ حالانکہ بانی پی ٹی آئی اس وقت جس صورتحال کا شکار ہیں‘ اس میں اس طرح کے علامتی عہدے ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر ایک باوقار اور بڑی حد تک ایک رسمی کردار ہے۔ اکیڈیمیا اور برطانوی سماج میں اس تاریخی عہدے کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ ایک علامتی عہدہ ہونے کے باوجود چانسلر کی یونیورسٹی کے اندر کئی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں چانسلر کا عہدہ 13ویں صدی سے موجود ہے۔ اس طرح یہ دنیا کے قدیم ترین یونیورسٹی دفاتر میں سے ایک ہے۔ یہ کردار یونیورسٹی کے ایک نمائندے کی ضرورت سے تخلیق ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر چانسلر امن و امان سے متعلق معاملات سے لے کر یونیورسٹی کے مفادات کے تحفظ کا ذمہ دار تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب کا طریقہ کار بڑا سادہ ہے۔ یہ انتخاب یونیورسٹی کے کانووکیشن کے اراکین کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ چانسلر کا انتخاب اس وقت عمل میں لایا جاتا ہے جب یہ عہدہ خالی ہو جاتا ہے‘ عام طور پر ایسا پہلے چانسلر کی موت یا استعفے کے بعد ہی ہوتا تھا اور یہ عہدہ اکثر تا حیات سمجھا جاتا تھا؛ تاہم اب ایک ترمیم کر کے اس عہدے کی میعاد دس سال کر دی گئی ہے۔ کسی بھی شخص کو چانسلر کے طور پر منتخب کیا جا سکتا ہے اور امیدوار کے لیے یونیورسٹی کا سابق طالب علم یا ماہرِ تعلیم ہونے کی کوئی شرط بھی موجود نہیں ہے‘ تاہم عملی طور پر اس عہدے پر تاریخی طور پر نمایاں اثر و رسوخ رکھنے والے ممتاز افراد ہی براجمان ہوئے ہیں۔ عام طور پر برطانوی اشرافیہ اور سیاست یا قومی اہمیت کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ اس عہدے کے لیے عموماً سابق وزرائے اعظم‘ سینئر سیاستدان‘ شاہی خاندان کے افراد اور قابلِ ذکر ماہرینِ تعلیم کا انتخاب کیا جاتا رہا ہے۔ جیسے پہلے بتایا کہ چانسلر کا کردار بڑی حد تک رسمی ہے لیکن اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور کئی اہم ذمہ داریاں بھی چانسلر کو تفویض کی جاتی ہیں۔ عام طور پر چانسلر یونیورسٹی کی بڑی تقاریب کی صدارت کرتا ہے‘ ڈگریوں کی تقسیم کی تقریبات میں شریک ہوتا ہے‘ جہاں وہ فارغ التحصیل طلبہ کو ڈگریاں پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ دیگر تقریبات میں بھی شرکت کرتا ہے جیسے آکسفورڈ یونیورسٹی کی سالانہ Encaenia تقریب‘ جہاں اعزازی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔
چانسلر یونیورسٹی کے پروفائل کو بڑھاتا ہے اور دوسرے تعلیمی اداروں‘ حکومتوں اور عالمی تنظیموں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ چانسلر قومی اور بین الاقو امی سطح پر عوامی اور سرکاری تقریبات میں بھی یونیورسٹی کی نمائندگی کرتا ہے۔ چانسلر اپنے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹرٹیجک معاملات پر مشورہ دے سکتا ہے۔ یونیورسٹی کی سمت اور ترجیحات پر چانسلر کا ایک اہم اثر ہوتا ہے حالانکہ وہ عام طور پر معمول کے انتظامی کاموں میں مشغول نہیں ہوتا۔ یونیورسٹی کی روایات کے تحفظ اور اس کی دیرینہ اقدار اور رسوم و رواج کو برقرار رکھنے کو یقینی بنانے میں بھی چانسلر کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ وہ یونیورسٹی کے قوانین اور ضوابط کو برقرار رکھنے میں بھی شامل ہوتا ہے‘ بالخصوص گورننس کے معاملات میں۔ چانسلر کو اکثر یونیورسٹی کمیونٹی میں ایک اخلاقی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو بحران یا بحث کے وقت رہنمائی اور مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کی موجودگی استحکام اور تسلسل کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ بالخصوص یونیورسٹی کی انتظامیہ میں عبوری ادوار کے دوران چانسلر کی موجودگی اہم سمجھی جاتی ہے۔ ماضی میں کئی ممتاز شخصیات آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ قابلِ ذکر کی تفصیل یوں ہے:
ولیم گلیڈ سٹون (1869-1898ء): ایک سابق برطانوی وزیراعظم جو تعلیمی اصلاحات کے ایک مضبوط وکیل تھے۔ ہیرالڈ میکملن (1960-1986ء): ایک سابق برطانوی وزیراعظم‘ جنہوں نے اعلیٰ تعلیم میں نمایاں تبدیلی کے دوران بطور چانسلر خدمات انجام دیں۔ لارڈ پیٹن آف بارنس‘ ہانگ کانگ کے سابق گورنر اور ایک ممتاز برطانوی قدامت پسند سیاستدان تھے‘ جو اپنے بین الاقو امی نقطہ نظر اور یونیورسٹی کی عالمی مصروفیت کے لیے مضبوط حمایت کے لیے جانے جاتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر ایک ایسا کردار ہے جو روایات سے جڑا ہوا ہے‘ جس کی نمایاں علامتی اور رسمی اہمیت ہے۔ اس عہدے میں یونیورسٹی کے روزمرہ کا انتظام دیکھنا شامل نہیں ہے۔ چانسلر یونیورسٹی کی نمائندگی کرتے ہیں‘ اس کی روایات کے تحفظ اور اس کو اخلاقی قیادت فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب یونیورسٹی کے لیے ایک اہم واقعہ ہے جو اس وقت یونیورسٹی کی اقدار اور ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved