یہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔
سرکاری محکمے ختم ہوتے ہیں تو بے روزگاری بڑھتی ہے۔ باقی رہتے ہیں تو حکومت کو اپنی سکت سے زیادہ بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ پہلی صورت میں سماج مضطرب ہو گا۔ دوسری صورت میں ریاست ڈیفالٹ کر جائے گی۔
یوٹیلیٹی سٹورز‘ پی ڈبلیو ڈی اور بعض دوسرے محکموں کے ملازمین احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔ ان کی تشویش کو سمجھا جا سکتا ہے اور ان اثرات کو بھی‘ جو بیروزگاری کے بڑھنے سے سماج پر مرتب ہوں گے۔ بے روزگاری جس اضطراب کا دروازہ کھولتی ہے اس سے جرم اور امراض بھی ساتھ ہی داخل ہو جاتے ہیں۔ بے روزگار کو جب کھانے کو نہیں ملے گا تو چوری کرے گا۔ جو اس کی ہمت نہیں رکھتا وہ نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر خود کشی کر لے گا یا پھر بچوں کو کسی نہر میں پھینک دے گا۔
اب دوسرا منظر بھی دیکھ لیجیے۔ سیاسی حکومتوں سے عوام توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے لیے روزگار کا اہتمام کریں گی۔ حکومتوں کا بس سرکاری اداروں پر چلتا ہے۔ وہ ان اداروں میں ضرورت سے زیادہ افراد بھرتی کر لیتی ہیں۔ ادارے اس غیر ضروری بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ خسارہ ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ حکومتیں پہلے مرحلے میں سبسڈی سے انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں جس کا بوجھ سرکاری خزانہ اٹھاتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ ریاست اگر ان کے بوجھ سے نجات نہ پائے تو اس کے ڈوبنے کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے پر ایک راستہ یہ ہوتا ہے کہ ادارے بند کر دیے جائیں۔ دوسرا راستہ ہے ملازمین کا بوجھ کم کر دیا جائے۔ دونوں کا نتیجہ بے روزگاری ہے۔
سرکاری اداروں میں بھرتی کا رجحان پیپلز پارٹی نے متعارف کرایا۔ اس کی ایک نظریاتی اساس ہے۔ پیپلز پارٹی بائیں بازو کی سیاست کرتی تھی۔ اشتراکیت میں نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یہ ریاست ہے جو واحد کفیل ہے۔ لہٰذا اسی کو روزگار کا بندوبست کرنا ہے اور معاشی امور چلانے ہیں۔ اسی اصول کے تحت بھٹو صاحب نے نجی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا۔ ان اداروں کے ملازمین سرکاری ملازم ہو گئے۔ جب یہ ادارے سرکاری تحویل میں آئے تو نوکر شاہی نے انہیں برباد کر ڈالا۔ ان کی کارکردگی خراب ہونے لگی اور نتیجتاً وہ ریاست پر بوجھ بن گئے۔
اشتراکی نظام دنیا بھر میں ناکام ہو گیا۔ یہاں بھی اسے ناکام ہی ہونا تھا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دور تک یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی تھی۔ انسانی تجربے نے یہی بتایا کہ اس وقت جو واحد قابلِ عمل معاشی ماڈل ہے‘ وہ کھلی منڈی کی تجارت ہے۔ اہلِ اسلام نے جو کام کیا وہ کتابی اور علمی تھا۔ ایران وغیرہ میں جہاں مسلمان سنجیدہ بھی تھے‘ کوئی متبادل ماڈل پیش نہ کر سکے۔ بے نظیر صاحبہ نے بھی پارٹی کی نظریاتی اساس کو تبدیل کرتے ہوئے اسی نظام کو اپنایا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
(ن) لیگ تاجر اور روایتی مذہبی طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس نے ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کو سامنے رکھا جس میں کھلی منڈی کی تجارت کو بنیادی اصول کی حیثیت ہے۔ اس نے نجی شعبے کو مضبوط بنایا۔ اس کے ساتھ سرکاری اداروں کی نجکاری کی پالیسی بھی اپنائی۔ ووٹر کو مطمئن رکھنا بھی اس کے لیے لازم تھا‘ اس لیے (ن) لیگ نے سرکاری اداروں میں بھرتی کا سلسلہ منقطع نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے نجکاری کی مخالفت کی۔ اس سے یہ کام سست روی کا شکار ہوا اور سرکاری ادارے معاشی بوجھ تلے دبتے چلے گئے۔
جب نجی شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی تو سرکاری اداروں کے مدمقابل ادارے وجود میں آگئے۔ پی ٹی وی‘ پوسٹ آفس‘ بینک‘ پی ٹی سی ایل‘ ان کے مقابلے میں نجی شعبے نے بہتر خدمات فراہم کرنا شروع کر دیں اور یوں صارف نے ان کی طرف رخ کر لیا۔ سرکاری اداروں کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور یہ کارکردگی میں نجی شعبے کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ میں میڈیا کے معاملات سے براہِ راست واقف ہوں۔ پی ٹی وی کے مقابلے میں ایک نجی ٹی وی چینل کے انسانی اور مادی وسائل دس فیصد ہوں گے مگر اس کی کارکردگی اور سماج پر اثرات سرکاری ٹی وی سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ یہی معاملہ دیگر اداروں کا ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت نجی ادارے‘ پی ٹی سی ایل سے بہتر فراہم کر رہے ہیں۔ اس ناقص کارکردگی کے ذمہ دار اِن اداروں کے افسر اور کارکن ہیں۔
پاکستان سٹیل مل اور پی آئی اے جیسے ادارے انہی وجوہات کی بنا پر ریاست پر بوجھ بن گئے۔ اب ان کے ملازمین کو جو تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں‘ وہ ان اداروں کی کمائی سے نہیں سرکاری خزانے سے ملتی ہیں جو عوام کے ٹیکس سے بھرتا ہے۔ گویا ایک عام پاکستانی بغیر کسی وجہ سے ان اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کررہا ہے۔ نجی ادارہ جب چاہے ملازمین کو نکال دیتا ہے۔ سرکاری ادارے یہ نہیں کر سکتے۔ حکومت احتجاج کے خوف سے چپ رہتی ہے اور اداروں کے ساتھ معیشت بھی ڈوبتی جاتی ہے۔
سرمایہ دار ممالک میں نجی شعبے کو پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ روزگار کے متبادل مواقع وافر ہوتے ہیں۔ یوں سماج میں اضطراب پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں نجی شعبہ ترقی نہیں کر سکا۔ اسباب کے بیان کا یہ موقع نہیں۔ دوسری طرف سرکاری ادارے اب ملازمین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ حکومت ملازمین نکال سکتی ہے یا ان اداروں کو بند کر سکتی ہے لیکن انہیں متبادل روزگار نہیں دے سکتی۔ اسی وجہ سے احتجاج ہوتے ہیں۔ ایک اور بات بھی سامنے رہنی چاہیے۔ آئی ایم ایف بھی یہی کہتا ہے کہ جو ادارے نفع بخش نہیں‘ ریاست ان کا بوجھ کیوں اٹھا رہی ہے‘ انہیں نجی شعبے کے حوالے کرے۔
حل یہ ہے کہ معیشت میں وسعت آئے اور نجی شعبے میں روزگار کے مواقع ارزاں ہوں۔ سرمایہ کاری وہیں ممکن ہے جہاں امید اور امن ہو۔ جہاں مسلسل اضطراب ہو وہاں سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔ آئے دن کا احتجاج بھی سرمایہ کاری میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر یہ کہ سرمایہ کاری کے لیے سہولتوں کی فراہمی لازم ہے۔ ہمارا انتظامی ڈھانچہ اس معاملے میں بھی ناکام ثابت ہوا ہے۔ ہم نے وَن ونڈو کی بات تو سنی مگر اس کو عملی صورت میں ڈھلتے کہیں نہیں دیکھا۔
اس وقت سرکاری اداروں کے خاتمے پر احتجاج نتیجہ خیز نہیں ہو گا۔ یہ تاریخ کا عمل ہے جو پیچھے نہیں جا سکتا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ لوگ بے روزگار نہ ہوں۔ ان لوگوں کو فی الحال دوسرے محکموں میں بھیجا جا رہا ہے‘ اس لیے ان کے لیے فوری مسئلہ تو نہیں ہو گا‘ تاہم مستقبل میں ہو سکتا ہے۔ اس کا ابھی سے اہتمام کرنا چاہیے کہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی مستقل حل نکل سکے۔ یہی نہیں‘ ان نوجوانوں کے لیے بھی سوچنا ہوگا جو ہر سال تعلیمی اداروں سے فارغ ہوتے ہیں اور انہیں روزگار کی تلاش ہوتی ہے۔
معاشی مسائل جو صورت اختیار کر چکے ہیں وہ ایک بڑی سماجی تبدیلی کو لازم کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرتی ماڈل یہ ہے کہ ایک گھر میں ایک کمانے والا اور باقی سب کھانے والے ہوتے ہیں۔ اب یہ ماڈل قابلِ عمل نہیں رہا۔ آج ہر بالغ کمانے والا ہونا چاہیے۔ انٹرنیٹ نے اس کے مواقع بڑھا دیے ہیں‘ اگرچہ ریاست ان کی فراہمی میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ریاست کو بھی نجی شعبے کے ساتھ مل کر اس پر کام کرنا چاہیے اور عوام کو بھی اس کا فہم ہونا چاہیے۔ سرکاری ملازمت اب روزگار کا آخری امکانی ذریعہ ہونا چاہیے۔ اشتراکی ماڈل متروک ہو چکا۔ نجی شعبے میں تنخواہیں بھی بہت بہتر ہیں۔ اب ہمیں اس کی طرف رجوع کرنا ہے۔ ریاست اور عوام دونوں کو مل کر اس ماڈل پر کام کرنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved