تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     07-09-2024

ایک جنگی ہیرو کی کہانی

مارگلہ روڈ پر پاکستان نیوی کے وار ہیرو ایڈمرل (ر) احمد تسنیم سے اتفاقاً ملاقات ہو گئی۔ وہ 90 سال کی عمر میں بھی ماشاء اللہ ہشاش بشاش نظر آئے۔ میرا خیال تھا کہ ضعیف العمری اور طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے شاید ان کے مزاج میں تبدیلی آ گئی ہو گی لیکن وہی گرج دار آواز‘ وہی پُروقار شخصیت اور وہی بلند حوصلہ‘ جو انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھارت کے خلاف دکھایا تھا۔ پاکستان کا تابناک ماضی ان کے وجود میں میرے سامنے تھا۔ احمد تسنیم صاحب بہت شفقت سے مجھے ملے۔ وہ چہل قدمی کیلئے نکلے ہوئے تھے مگر ان کو دیکھ کر میں ماضی میں کھو گئی۔
ارشد شریف کے والد کمانڈر محمد شریف نیوی میں انکل تسنیم کے جونیئر تھے۔ نیوی کی تاریخ میں نے ان بڑوں سے سن رکھی ہے اور ایک طرح سے ان کی صورت میں دیکھ بھی رکھی ہے۔ بہت سی کتابوں کے مطالعے سے بھی مجھے پاکستان نیوی کی شاندار تاریخ کے بارے میں علم ہوا۔ شاید ہماری نئی نسل اپنے اَسلاف کے کارناموں سے واقف نہیں‘ اسی لیے میں نے سوچا کہ جنگِ ستمبر کی مناسبت سے ایڈمرل (ر) احمد تسنیم کے اس کارنامے کی بات کی جائے‘ جو بحری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وائس ایڈمرل (ر) احمد تسنیم (ستارۂ جرأت‘ ہلالِ امتیاز ملٹری اور ستارۂ بسالت) اُس مشن کا حصہ تھے جس نے دورانِ جنگ بھارت کے ایک بحری جہاز کو تباہ اور دوسرے کو مفلوج کیا تھا۔ وہ ہنگور ڈے کے ہیرو ہیں اور 1971ء میں کمانڈنگ آفیسر پی این ایس ہنگور تھے۔ ہنگور پاکستان بحریہ کی سب میرین تھی۔ ایڈمرل (ر) احمد تسنیم اِس وقت بھی ایک فعال زندگی گزار رہے ہیں اور ایک نجی کمپنی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ باقاعدگی سے واک کرتے ہیں‘ اخبارات کا مطالعہ ان کے روزمرہ معمول کا حصہ ہے۔ ان کی لائبریری اور کتابوں کی کولیکشن دیکھنے کے لائق ہے۔
احمد تسنیم 1935ء میں جالندھر کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔تقسیم کے بعد وہ اور ان کاخاندان پاکستان آ گئے۔ 1954ء میں انہوں نے نیوی جوائن کی اور اعلیٰ تعلیم نیول رائل کالج (انگلینڈ) سے حاصل کی۔ نیوی میں انہوں نے سب میرین سروس کو جوائن کیا۔ انہوں نے صدر ایوب خان کے ساتھ بطور اے ڈی سی بھی کام کیا مگر اس دور میں جب سب میرین غازی پاکستان آئی تو احمد تسنیم نے مدتِ ملازمت میں توسیع ملنے کے باوجود صدر ایوب سے رخصت مانگی اور دوبارہ سب میرین سروس جوائن کرلی۔
1965ء میں رن آف کچھ اورآپریشن جبرالٹر کے بعد یہ عیاں تھا کہ دونوں ملکوں کے حالات ٹھیک نہیں لہٰذا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پاک بحریہ ہر قسم کے حالات کیلئے پوری طرح تیار تھی اور سمندر میں ہمہ وقت پٹرولنگ جاری تھی تاکہ دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔ سب سے پہلے آبدوز غازی کو پانیوں میں اتارا گیا‘ یہ اُس وقت کی ایک جدیدآبدوز تھی جس کو 1963ء میں بحری فلیٹ میں شامل کیا گیا تھا اور یہ 28 تارپیڈوز (سمندری گولے) فائر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔دورانِ جنگ اس ایک آبدوز نے پوری بھارتی نیوی کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔آبدوز غازی زیرِآب بارودی سرنگیں بھی بچھا سکتی تھی‘ اس لیے بھارت اپنے جہازوں کے قریب اس کی موجودگی کو لے کر پریشان اور پیش قدمی سے قاصر تھا۔ احمد تسنیم اس آبدوز کے عملے میں شامل تھے۔ اُس وقت غازی کی کمانڈ کمانڈر کرامت کے پاس تھی اور لیفٹیننٹ کمانڈر احمد تسنیم سیکنڈ اِن کمانڈ تھے۔1965ء کی جنگِ ستمبر میں آبدوزغازی نے بمبئی کو مفلوج کیے رکھا اور پھر پاکستانی بیڑے نے دوارکا پر حملے کی ٹھانی۔ دوارکا بھارت کا ساحلی شہر ہے جہاں کا ریڈار سٹیشن پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال ہو رہاتھا۔ نیوی کے جنگی جہاز 6 ستمبر کو اپنے مشن پر روانہ ہوئے۔ پاکستان نیوی نے دوارکا پر حملہ کیا اور اس کے ریڈار سٹیشن کو تباہ کردیا جو کراچی میں فضائی حملوں کیلئے انڈین فضائیہ کو ہدایات دے رہا تھا۔ جب دوارکا میں ریڈار سٹیشن اور بحری اڈا تباہ کیا گیا تو اس کے بعد کراچی پر فضائی حملے بھی رک گئے۔پاکستانی جہاز اورآبدوز اپنا مشن کامیابی سے مکمل کر کے بحفاظت کراچی پہنچ گئے۔
1971ء کی جنگ میں ایڈمرل احمد تسنیم نے بھارت کو بحری تاریخ کا سب سے بڑا نقصان پہنچایا۔ نیوی کا بیڑہ پاکستان کے پانیوں کی حفاظت کررہا تھا۔ اس مشن میں آبدوز غازی اور ہنگور پیش پیش تھیں‘ جو زیرِآب دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئی تھیں۔ایک ہزار ٹن وزنی پی این ایس ہنگور‘ جو فرانسیسی ساختہ تھی‘ 22 نومبر 1971ء کو کراچی سے بھارت کے سمندر کی طرف روانہ ہوئی۔ اس زمانے میں آبدوز میں وہ جدید سہولتیں نہیں ہوتی تھیں جوآج میسر ہیں لیکن کمانڈر تسنیم اور ان کی ٹیم پوری ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹ گئی۔زیادہ دیر تک زیرِآب رہناآسان نہیں اور اُس وقت کی آبدوز میں آلات کو چارج کرنے کیلئے ہر دو گھنٹے بعد اوپرآنا ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں عملے کو بھی تازہ ہوااور آکسیجن کی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ سب کرنا اور دشمن پر نظر رکھناآسان نہیں تھا۔ تاہم مقدر میں اس دن کو ہنگور سے منسوب لکھا گیا تھا‘ لہٰذا ایک تاریخی کامیابی پاکستان کے حصے میں آئی۔
9 دسمبر کو ہنگور نے تین تارپیڈو فائر کیے اور 55 میٹر سے بھارت کو اٹیک کیا۔ یہ بہت بڑا رسک تھا۔ پہلا تارپیڈو بھارتی جہاز کرپان کی طرف فائر کیا جو گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سے پھٹ نہیں سکا۔ ایک منٹ کے اندر ہی دوسرا فائر کیا گیا۔ یہ سکواڈرن کمانڈر کے بھارتی جہاز کھکری کی طرف گیااور اس نے جہاز کے 60 ٹن بارود کو نشانہ بنایا۔ محض دو منٹ میں بھارتی نیوی کا بحری جہاز کھکری تباہ ہوگیا اوراتنا روز دار دھماکا ہوا کہ بھارتی فوجیوں کی جان بچانے کا بھی وقت نہیں مل سکا۔ اب کرپان کو ہنگور کی پوزیشن کا اندازہ ہوگیا تھا لہٰذا تیسرا تارپیڈو فوری طورپر اپنے دفاع میں کرپان کو مارا گیا جس سے اسے نقصان پہنچا اور وہ واپس جانے پر مجبور ہو گیا۔ ایڈمرل (ر) احمد تسنیم کہتے ہیں کہ معرکہ تو ہم جیت گئے لیکن چونکہ بھارت کو ہماری موجودگی کا پتا چل چکا تھا اور ہم بھارتی پانیوں میں تھے‘ لہٰذا واپس کراچی پہنچنا محال تھا اور بھارتی نیوی نے ہم پر حملے شروع کردیے۔ 156 بار بھارت نے حملہ کیا تاہم متبادل راستے سے ہم چار دن میں کراچی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہم نے بھارت کو اس کے اندر گھس کر مارا اور اللہ کے حکم سے بحفاظت واپس آنے میں بھی کامیاب رہے۔ احمد تسنیم کہتے ہیں کہ زیرِ آب انہوں نے بہت سے مشن کیے‘ اور تین تین ماہ تک بھی ان کو سمندرمیں رہنا پڑا۔ کسی بھی صورتحال میں واپس ساحل پر نہیں آتے تھے اور ہر بار مشن مکمل ہونے کے بعد ہی واپسی ہوتی تھی۔ آبدوز ہنگور کو اس آپریشن کے پچاس سال مکمل ہونے پر بحریہ میوزیم کا حصہ بنا دیا گیا۔ یقینا اس کو دیکھ کر اس مشن میں حصہ لینے والوں کے خاندان بھی خوشی محسوس کرتے ہوں گے۔ تین سال قبل پاکستان نے ہنگور‘ کلاس تسنیم آبدوز بنانے کا اعلان کیا۔ خوشگوار بات یہ ہے کہ یہ پہلی آبدوز ہے جو پاکستان میں تیار ہو رہی ہے اور اس کا نام ایڈمرل (ر) احمد تسنیم کے نام پر رکھا گیا ہے۔
ایڈمرل (ر) احمد تسنیم کہتے ہیں میں فروری میں نوے سال کا ہو جائوں گا۔ میرے کریو کے آدھے سے زیادہ لوگ رخصت ہو چکے ہیں۔ اب ان کی یاد آتی رہتی ہے تاہم ہم نیوی میں ایک خاندان کی مانند ہیں اور اب بھی ایک دوسرے کے رشتہ داروں سے ملتے ہیں۔ ایڈمرل (ر) احمد تسنیم کو صحت کے مسائل بھی درپیش ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کا ہیلتھ کئیر سسٹم بہت اچھا ہے۔ سی ایم ایچ اور پی این ایس حفیظ نیوی ہسپتال سے مجھے بہترین علاج معالجے کی سہولتیں مل رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تنہائی کے سبب میں ڈپریشن کا شکار ہو گیا تھا اس لیے اب ایک نجی کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی ہے تاکہ خود کو مصروف رکھوں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے خوشی ہے کہ نئے جہاز نیوی کا حصہ بن رہے ہیں‘ یہ نیوی کی کارکردگی اور ملکی دفاع میں مزید نکھار لائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved