تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     30-10-2013

اخوت‘ سیاست اور ڈرامہ

ان دنوں پاکستان سے ’اخوت‘ نامی تنظیم کے رُوح و رواں اور سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب برطانیہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ان کی آمد پر نہ صرف اُن کے ہم وطنوں کا فخر سے سراُونچا ہوا (جو کافی خلاف معمول تجربہ ہے) بلکہ انگریزوں نے بھی ان کے لیے آنکھیں بچھا دیں۔ آکسفورڈ، کیمبرج یونیورسٹیوں سے لے کر لندن میں برطانوی پارلیمنٹ اور شہرئہ آفاقKings College تک۔ صرف بارہ سال پہلے جو نیک کام صرف دس ہزار روپے کے سرمایہ سے شروع کیا گیا‘ وہ اب چھ ارب روپے کے بلا سُود قرضوں تک جا پہنچا ہے۔ سب سے حیرت انگیز اور ناقابل یقین حد تک بڑی سچائی یہ ہے کہ قرضوں کی وصولی کا تناسب 99 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنے ان گنت مداحوں کو بتایا کہ پاکستان کے عوام جو خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے کا عذاب جھیل رہے ہیں‘ بے حد محنتی، بہادر، دیانت دار اور وعدے کے پکے ہیں۔ یہ صرف ہمارا حکمران طبقہ ہے جو ملکی وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ اربوں روپوں کے قرض لے کر واپس نہیں کرتا۔ ستم بالائے ستم کہ لوٹ مار سے کمائی ہوئی دولت کو بھی ملک سے باہر لے جا کر محفوظ مقامات (مثلاً لندن، جنیوا، زیورخ، نیو یارک اور مختلف گم نام جزیروں) میں چھپا دیتا ہے۔ بے دردی سے خون چوسنے میں روایتی جونکوں سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ چونکہ اس کے لالچ اور حرص و ہوس کی ابھی تک کوئی آخری حد نظر نہیں آتی۔ فیض صاحب اس حکمران طبقہ کو ڈراتے اور اپنی اپنی فردِ عمل کو سنبھالنے کا دوستانہ مشورہ دیتے ۔ ع حذر کرو میرے تن سے یہ سم کا دریا ہے فیض صاحب تو دُنیا سے چلے گئے مگر مذکورہ استحصال (سادہ زبان میںلوٹ مار) میں کسی کمی کے آثار نہ نظر آتے ہیں اور نہ نظر آنے کی اُمید دکھائی دیتی ہے۔ قارئین کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں بجلی اور گیس کے نرخ جس طرح بڑھ گئے ہیںاور بڑھ رہے ہیں‘ وہ صارفین کے لیے اتنا بڑا عذاب ہیں کہ اُنہیں اپنے دُوسرے دُکھ وقتی طور پر بھول گئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ برطانیہ کا بھی اب یہی حال ہے۔ سیاسی ایجنڈا پر انواع و اقسام کے موضوع ہیں۔ بجلی اور گیس کے بڑھتے ہوئے نرخ یہاں بھی اس سیاسی ایجنڈا میں سرفہرست ہیں۔ موجودہ برسر اقتدار سیاسی جماعت قدامت پسند پارٹی (جسے عام طور پر ٹوری پارٹی کہا جاتا ہے) تو محافظ ہی یہاں کے سرمایہ دارطبقہ کے مفادت کی ہے۔ وہ تیل اور گیس کی کمپنیوں کو زیادہ منافع کمانے سے روکے تو کیونکر؟ لیبر پارٹی کے لیڈر نے اپنی پارٹی کی حال ہی میں ہونے والی سالانہ کانفرنس میں یہ اعلان کر کے ہر طرف ہلچل اور کھلبلی مچا دی کہ اگر ان کی پارٹی نے اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو وہ تیل اور گیس کی کمپنیوں پر بھاری ٹیکس لگائے گی اور اس طرح جو آمدنی حاصل ہوگی وہ ضرورت مند گھرانوں کی مالی امداد (Subsidy ) کے طور پر استعمال کی جائے گی۔ کئی ہفتے گزر چکے ہیں مگر مذکورہ اعلان نے جو تہلکہ مچایا ہے اُس کا شور تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ ایک طرف حکمران ٹوری پارٹی ہے جو تیل اور گیس کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے منافع پر خاموش ہے اور اپنی خاموشی سے اس کی تائید کر رہی ہے اور دُوسری طرف لیبر پارٹی جو متوسط طبقہ اور محنت کشوں (بدقسمتی سے بہت محدود حد تک) کے مفادات کی ترجمانی کا تاریخی کردار ادا کرتی ہے‘ وہ برطانوی عوام سے وعدہ کر رہی ہے کہ اگر اُسے دو سالوں بعد اقتدار ملا تو وہ غریب عوام کو اس تکلیف دہ مالی بوجھ سے نجات دلائے گی۔ میں یہ کالم پڑھنے والوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ یورپ کے دُوسرے جمہوری ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں جو وعدے کرتی ہیں اُنہیں کافی حد تک پورا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں قابل اعتباراور قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ ابھی دو متحارب سیاسی جماعتوں میں زور و شور سے لفظی جنگ جاری تھی کہ 22 اکتوبر کو ایک ایسا دھماکہ ہوا کہ برطانیہ کے سیاسی میدان اور میڈیا (اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن) کا ہر حصہ اس کی لپیٹ میں آگیا۔ ٹوری پارٹی کے سابق رہنما اور سابق وزیراعظم سر جان میجر (مارگریٹ تھیچر کے جانشین اور کرکٹ کے کھیل کے اتنے بڑے شیدائی کہ MCC کا رُکن بننے کے لیے پورے پچیس سال انتظار کیا) نے اپنی پارٹی لائن کو توڑتے ہوئے حق پرستی اور اُصول پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تیل اور گیس مہیا کرنے والی کمپنیوں پر اتنا بڑا ٹیکس (One off Windfax Tax) لگایا جائے جس سے وصول ہونے والی آمدنی ضرورت مندوں کو دی جا سکے‘ تاکہ وہ توانائی کے بل ادا کرتے وقت اس مخمصے میں گرفتار نہ ہوں کہ خوراک کے اخراجات (Eating) اور بجلی اور گیس کے اخراجات میں سے کس کا انتخاب کریں؟ جان میجر نے مطالبہ کیا کہ اُن کی پارٹی کو اُن لاکھوں کروڑوں لوگوں کے مفاد کو سب سے مقدم سمجھنا چاہیے جو جان میجر کے ناقابل ترجمہ الفاظ میں\"Silent Have-Nots Locked into lace Curtain Poverty\" جان میجر نے تیل اور گیس کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے منافع کو ناقابل جواز اور ناقابل قبول قرار دیا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر حکومت کا فرض اپنے ملک کے عوام کے مفادات کی حفاظت ہے نہ کہ کاروباری اداروں کو اپنا نفع بڑھانے کی اجازت دینا۔ کتنا اچھا ہو کہ جو کچھ سابق برطانوی وزیراعظم نے کہا اُسے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم بھی دُہرائیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ اچھی باتیں میاں نواز شریف کے ذہن میں اُس وقت آئیں جب وہ ایک بار پھر سابق وزیراعظم بن جائیں۔ لندن فنون لطیفہ کے لیے بھی دُنیا کے تمام شہروں میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ موسیقی، ڈراما، تصاویر کی نمائش، وسطی لندن میں تھیٹر تعداد اور معیار کے لحاظ سے دُنیا کے ہر شہر پر فوقیت رکھتے ہیں۔پیرس کے شانزے لیزے اور نیویارک کے براڈوے پر بھی۔ کئی کئی ڈرامے (مثلاً Mouse Trap اورLeisebable ) اتنے سال دکھائے جاتے ہیں کہ نیا ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔ اداکار بدل جاتے ہیں۔ ناظرین بار بار دیکھ کر تھک جاتے ہیں‘ اُن کی جگہ نئے ناظرین لے لیتے ہیں‘ ڈرامہ ہے کہ وقفہ کے بغیر چلتا رہتا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ وضاحت کی جائے کہ اس طویل العمری کا اعزاز صرف بہت کم ڈراموں کو ملتا ہے اور آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس دائمی مقبولیت کا راز کیا ہے۔ 23 اکتوبر کو برطانیہ میں جتنے بھی معیاری اخبار شائع ہوئے اُن میں ایک ایسے ڈرامے پر تبصرہ کیا گیا تھا جس کا موضوع اتنا غیر معمولی ہے کہ سنگ دل (Hard Boiled) ناقدین بھی اسے توجہ دینے اور ہمدردانہ تبصرہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ڈرامہ کا عنوان ہے ’’عیدگاہ کے جنات‘‘۔ لندن کے رائل کورٹ نامی تھیٹر میں دکھایا جانے والا ڈرامہ وادی کشمیر میں رہنے والے لاکھوں بدنصیب اور دُکھی افراد 1947 ء سے اصل زندگی میں دیکھ رہے ہیں اور اس سے ملنے والی بدترین سزا بھگت رہے ہیں۔ اہلِ کشمیر کے لیے ان کے اردگرد ہونے والے ڈرامائی واقعات ہر گز باعث تفریح نہیں بلکہ باعثِ عذابِ عظیم ہے۔ ڈرامہ کا اصل مقصد دیکھنے والوں کے سیاسی اور تہذیبی شعور کی نشوونما ہوتا ہے۔ ناقدین ہر ڈرامہ کو اسی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ مذکورہ بالا ڈرامہ ہندوستان میں رہنے والے ایک نوجوان ادیب Abishek Majumdar نے لکھا۔ ڈرامہ کا موضوع کشمیر میں ہونے والے المناک واقعات کا شکار ہونے والے لوگوں کے انسانی دُکھوں کا احاطہ کرنا ہے۔ کہانی بیان کرنے کے لیے کشمیری مسلمانوں کی صدیوں پرانی داستان گوئی کی روایت کو اپنایا گیا ہے۔ آیئے اب آپ کو ڈرامہ میں بیان کی جانے والی کہانی سناتے ہیں۔ سرینگر میں دو بھائی رہتے ہیں جن کا باپ کشمیر میں ہونے والے پر تشدد ہنگاموں میں ہلاک ہو جانے والوں میں شامل ہو گیا تھا۔ ایک بھائی (بلال) فٹ بال کا اتنا اچھا کھلاڑی ہے کہ وہ عالمی شہرت کے خواب دیکھتا ہے مگر اُس کے اہل خانہ اُسے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں کہ وہ کھیل کود کو سیاسی احتجاج پر ترجیح دیتا ہے۔ مظاہروں میں حصہ لینے کی وجہ سے بہن شدید زخمی ہو کر جسمانی طور پر معذور ہو جاتی ہے۔ بلال کی اشرفی نامی بہن اپنے آپ کو روحانیت اور تصوف، فرشتوں اور جنات کے تصورات میں گم کر کے زندگی بسر کرتی ہے۔ یہ دونوں کشمیرمیں ہونے والے تشدد کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں کر سکتے۔ ڈرامہ نگار یہ دکھاتا ہے کہ تشدد اتنا ہمہ گیر ہے کہ اس میں حصہ لینے والا یا اس کا شکار ہونے والا یا اس کے اوس پڑوس میں رہنے والا کوئی شخص بھی اس کے بے حد برے اثرات سے نہیں بچ سکتا۔ یہاں تک کہ بھارتی فوج کے وہ سپاہی بھی جو اس بغاوت کو تشدد کے ذریعہ کچل دینے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ اشرفی کا ذہنی علاج کرنے والا ماہر نفسیات خود بھی ذہنی مریض بن چکا ہے۔ چونکہ اس کا اپنا بھائی اور بیٹا بھی مجاہدین کا ساتھ دینے کے جرم میں شہید ہوچکے ہیں۔ ڈرامہ نگار نے کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی دکھایا ہے کہ آٹھ لاکھ افراد پر مشتمل بھارتی فوج بھی کشمیریوں کی جنگ آزادی کو طاقت کے زور پر ناکام نہیں بنا سکی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved