بات ہو رہی تھی پانچ سالہ منصوبوں کی جو پاکستان نے شروع کیے اور جن سے متاثر ہو کر جنوبی کوریا نے اپنی معیشت کو سنوارا‘ سنبھالا اور شاندار ترقی دی۔ کوریا کی معیشت تو سنبھل گئی لیکن ہم لڑکھڑا گئے اور ایسے لڑکھڑائے کہ تا حال سنبھل نہیں پائے۔ دیکھ لیں قومی کرنسی لڑھکتی لڑھکتی پاتال میں گرنے والی ہے اور مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کے لیے جان و تن کا رشتہ قائم رکھنا مشکل تر ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون تھا جس نے پانچ سالہ منصوبے ترک کرنے کا مشورہ دیا تھا؟ پاکستان میں ایک آئینی طور پر منتخب حکومت کی میعاد پانچ برس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پانچ سالہ منصوبے ہمارے نظامِ حکومت کے لیے بالکل فٹ بیٹھتے تھے کہ جو بھی حکومت برسرِ اقتدار آئے وہ اپنی میعاد یا مدت کے لیے منصوبے تشکیل دے لے اور پھر اس کی تکمیل میں لگ جائے۔ پانچ برسوں کے اختتام پر یہ اندازہ لگایا جائے کہ کتنے منصوبے مکمل ہوئے اور کتنے ادھورے رہ گئے۔ پتا نہیں کیوں اتنے اہم منصوبوں کو طاق پر رکھ دیا گیا۔
ایک کلین سویپ ہمیں سیاسی ٹیسٹ میچز میں بھی نظر آتا ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بزرگ کیا کرتے رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس نوزائیدہ مملکت کو ایک پائیدار حکومت کی ضرورت تھی جو امورِ مملکت و حکومت احسن انداز میں چلا سکتی‘ ملک کو ترقی کی منزل کی جانب گامزن کیا جا سکتا اور عوام کے مسائل کے حل کی کوئی راہ نکالی جا سکتی‘ لیکن ہوا یہ کہ ایک کے بعد ایک آئینی طور پر قائم ہونے والی حکومتوں کو رخصت کیا جاتا رہا۔ اس سلسلے میں پھر گورنر جنرل غلام محمد کا ذکر آتا ہے جنہوں نے نوزائیدہ مملکت کے نوآموز آئین کے ساتھ کھلواڑ کو اپنی عادت بنا لیا تھا۔ آصف جیلانی معروف برطانوی میڈیا ویب سائٹ میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں یوں رقمطراز ہیں ''ملک غلام محمد انگریزی دور کی بیوروکریسی کے نیابت دار تھے اور مالی معاملات میں مہارت کی بنیاد پر پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے شامل کیے گئے تھے۔ وہ نہ مسلم لیگ کے رہنما تھے اور نہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر اور دائرہ اثر تھا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک کی بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ بنایا تھا جس کے تحت اُس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو اس عہدہ سے ہٹا کر انہیں وزیراعظم کے عہدہ پر مقرر کر دیا گیا اور ان کی جگہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدہ پر فائز کر دیا گیا‘‘۔
اسے اگر پاکستان کی جمہوریت پر پہلا وار قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ معیشت کی طرح ہمارے ملک کی سیاست بھی کلین سویپ کا شکار ہوتی چلی آئی ہے۔ سات اکتوبر 1958ء کو سیاست کلین سویپ ہوئی۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد سیاست پر کڑا وقت آیا اور اسے وائٹ واش کر دیا گیا۔ پانچ جولائی 1977ء کو سیاست کلین سویپ کی گئی۔ جب ضیاالحق نے ملک میں ریفرنڈم کرایا تو دراصل سیاست Caught Behind ہو گئی تھی۔ اسی دور میں جب ملک میں غیر جماعتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا تو دراصل سیاست کے مخالفین کا Power play شروع ہوا اور سیاست مجبورِ محض بن کر رہ گئی۔ پھر جب 30مئی 1988ء کے غیرجماعتی انتخابات کے تحت منتخب ہونے والی حکومت کو اس کے سربراہ محمد خان جونیجو سمیت چلتا کر دیا گیا تو یہ دراصل سیاست ہی تھی جسے کلین سویپ کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ہی کلین سویپ چھ اگست 1990ء‘ 18جولائی 1993ء‘ پانچ نومبر 1996ء‘ 12اکتوبر 1999ء اور 28جولائی 2017ء کو بھی ہوئے۔ جو گاڑی اتنی بار ڈی ریل ہوئی ہو اس کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے ذہن پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں۔ آج اگر ملک معاشی انحطاط کا شکار ہے‘ نہ ہماری تجارت مستحکم ہے نہ زراعت اور نہ صنعت تو اس کی وجہ سیاست کا متعدد بار کلین سویپ ہونا ہی ہے۔ ہم اس بات کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ ان کلین سویپوں کے ذمہ دار سیاستدان تھے یا طالع آزما‘ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آج ہم بحیثیتِ قوم مسائل اور مشکلات کی جس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اس کی وجہ ماضی کے یہی کلین سویپ ہیں۔ اور یہ بات بھی طے ہے کہ کلین سویپوں کا یہ سلسلہ اگر ختم یا منقطع نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں مسائل اس سے کئی گنا بڑھ جائیں گے۔
واپس کرکٹ پر آتے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے‘ پاکستان کی کرکٹ ٹیم پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں اس طرح کے کئی ''کارنامے‘‘ سرانجام دے چکی ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹی ٹونٹی اور ون ڈے انٹرنیشنل فارمیٹس میں افغانستان کی ٹیم سے ہار گئی تھی۔ پھر آئرلینڈ سے ہاری۔ پھر چند ماہ پہلے امریکہ میں ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں امریکی ٹیم سے ہار گئی اور ایسی برُی کارکردگی دکھائی کہ سیمی فائنل یا فائنل تک بھی نہ پہنچ سکی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس صورتحال پر کرکٹ کے اربابِ بست و کشاد کے کان کھڑے ہوتے اور ملک میں کرکٹ کا قبلہ درست کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا آغاز کیا جاتا‘ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ کرکٹ ٹیم میں میجر سرجری کی باتیں ضرور ہوئیں‘ لیکن یہ باتیں محض باتوں تک ہی محدود رہیں۔ ان کو عملی شکل دینے کی نہ کسی نے ضرورت محسوس کی اور نہ کسی نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔
اب ایک نئی خبر سن لیجیے‘ ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد جو دراصل اب خبر نہیں رہی کہ یہ تو ہونا ہی تھا‘ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستان اور بنگلہ دیش کی سیریز کے بعد جو نئی ٹیسٹ رینکنگ جاری کی ہے اس نے پہلے سے دکھی دل کو مزید دکھی کر دیا ہے۔ پاکستان کی قومی ٹیم چھٹے سے آٹھویں نمبر پر چلی گئی ہے جبکہ کھلاڑیوں کی انفرادی رینکنگ میں بھی تنزلی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف بدترین پرفارمنس کے بعد اس وقت ٹیسٹ رینکنگ میں پاکستان ٹیم کے صرف 76ریٹنگ پوائنٹس ہیں اور یہ 1965ء کے بعد کم ترین ریٹنگ پوائنٹس ہیں۔ دوسری جانب قومی ٹیم کے سابق کپتان اور آؤٹ آف فارم بلے باز بابر اعظم بھی تقریباً ساڑھے چار سال بعد ٹاپ 10 سے باہر ہو گئے ہیں۔ وہ تین درجہ تنزلی کے بعد 12ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ باؤلنگ کی بات کریں تو ٹاپ 10میں کوئی پاکستانی باؤلر شامل نہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا:
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں اپنے گھر یعنی اپنے ملک کو دیکھتا ہوں تو مجھے دشت یاد آ جاتا ہے۔ ایسا قحط الرجال تو کبھی دیکھنے سننے میں نہ آیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved