دنیا کی سیر وسیاحت کے لیے زندگی بھر کبھی ارادتاً آج تک سفر اختیار نہیں کیا۔ جی تو کبھی کبھار مچلتا ہے کہ سامان باندھوں‘ تھیلا کمر پر لٹکائوں اور ایسے ملکوں کو نکل جائوں جنہیں دیکھنے کا ابھی تک موقع نہیں ملا۔ شاید اپنی پرانی روایت برقرار رکھوں‘ اور فقط سیاحت کی غرض سے کسی بھی ملک کا سفر نہ کر سکوں۔ اس کے باوجود اپنی تعلیم اور پیشہ ورانہ تقاضوں کے پیش نظر مشرق‘ مغرب‘ جنوب اور شمال‘ ہر سمت اور ہر براعظم میں سفر کرنے کے مواقع ملے ہیں۔ لیکن جس ملک میں جانے کا اتفاق ہوا‘ جس شہر یا شہروں میں قیام کیا‘ ان کے پارکوں‘ قریبی جنگلوں‘ ساحلوں‘ جھیلوں اور پہاڑی وادیوں میں پیدل چلا ہوں۔ آج بھی میرے نزدیک بہترین سفر جہاں کہیں بھی ہوں‘ پیدل چلنا اور فطرت کا نظارہ کرنا ہے۔ اسلام آباد تو اپنے محل وقوع کے اعتبار سے دنیا بھر میں منفرد ہے‘ کہ اس کے ایک طرف اُونچے‘سرسبز پہاڑ ہیں اور پھر ہر سیکٹر میں گرین ایریاز ابھی تک تو موجود ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ فاطمہ جناح پارک میں طلوعِ آفتاب سے پہلے تقریباً آٹھ کلومیٹر کی جاگنگ مکمل ہوتی اور طلوع ہوتے ہوئے سورج کی پہلی کرنوں کے سامنے ہلکی پھلکی ورزش کرکے گھر لوٹتے۔ لاہور جانے کے بعد یہ سلسلہ ایسا ٹوٹا کہ پھر قائم نہ ہو سکا۔ اس کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ چوتھی فوجی حکومت کے زمانے میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک ایسے چیئرمین لائے گئے جنہوں نے اس خوبصورت پارک کا بیڑا غرق کر دیا۔ ایک طرف دو ریستوران بنائے گئے‘ دوسری طرف کئی بے ہنگم عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ ان میں ایک اشرافیہ کے لیے کلب بھی ہے۔ جب پبلک پارکس کی بندر بانٹ شروع ہو جائے تو نظریاتی لوگ کہاں پیچھے رہتے ہیں۔ ان کی بھی ایک عمارت کتب خانہ کے نام سے بنا دی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے‘ تو پھر پبلک پارکوں میں مدرسے اور مساجد کیوں نہ بنیں؟ فطری ماحول میں ہم کٹر صوفیوں کی طرح ہیں کہ معنویت اور ملاوٹ ہرگز پسند نہیں۔ گھر کے قریب ایک چھوٹا سا پارک ہے‘ درخت بھی ہیں‘ پیدل چلنے کا راستہ بھی ہے‘ صفائی نہ سہی‘ ادھر اُدھر نشئی نظر آ جائیں تو بھی ہمیں اس چھوٹی سی دنیا میں دن نکلنے کا منظر دیکھنے کا روزانہ موقع مل جاتا ہے۔
مارگلہ کی پہاڑیوں کے درمیان چار‘ پانچ کے قریب ٹریل ہیں۔ اہلِ ذوق‘ فطرت پسند ہر صبح شام آپ کو آتے جاتے نظر آئیں گے۔ ہم نے تو ان پہاڑیوں میں اُس وقت پیدل چلنا شروع کیا تھا جب یہاں ٹریل کا لفظ کانوں کے لیے اجنبی تھا۔ نصف صدی قبل جب سردیوں کے موسم میں قائداعظم یونیورسٹی میں بطور استاد اور محقق آنے کا موقع ملا تو دوستوں کے ساتھ پہاڑوں کی جانب بہتی ایک شفاف ندی کے کنارے چلتے چلتے اوپر دور تک چلے جاتے۔ پانی اتنا صاف کہ اب آپ اس کا صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔ کوئی ٹریل ایسی نہیں جس پر پیدل چل کر آخری چوٹی تک نہ پہنچے ہوں۔ کئی ایسے سفر بھی کیے کہ پورا دن پہاڑوں میں گزرا۔ میرے ایک دوست‘ مرزا یاسین (مرحوم) جو پولیس سروس کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے تھے‘ کو بھی فطرت سے لگائو اور پہاڑوں میں چلنے کا شوق تھا۔ نہ جانے ہم نے کتنی بار شہری آبادی کے دامن سے لے کر مارگلہ کی آخری چوٹیوں تک سفر کیا۔ کچھ پانی اور تھوڑی بہت کھانے پینے کی اشیا ساتھ رکھتے اور چلتے رہتے۔ یہاں آنے کے اوائل کے برسوں میں جب راولپنڈی اور اسلام آباد وہ نہیں تھے جو اب بگڑ کر ہو چکے ہیں تو ہر اتوار کو میں اور مسعود صاحب ویگن پر صبح سویرے مری کے لیے سوار ہوتے اور وہاں سے باڑہ گلی تک سڑک پر پیدل چلتے اور پھر دوپہر کے بعد واپس مال روڈ مری پہنچ کرکولڈ کافی نوش کرنے کے بعد پنڈی لوٹ آتے۔ کوئی بیس سال پہلے جوش میں آکر وہی سفر ایک بار پھر شروع کیا اور مری سے خیرہ گلی کی طرف چلنے لگے۔ ایک دو کلومیٹر کے بعد واپس آنا پڑا کہ ٹریفک اور اس کا دھواں اتنا زیادہ تھا کہ سانس لینا دشوار تھا۔ کچھ ٹریلیں وہاں بھی ہیں‘ جہاں کبھی جانے کا موقع ملے تو ضرور اس طرف جا نکلتے ہیں‘ مگر اب آبادی‘ شور شرابے اور ہر طرف ابھرتی عمارتوں نے کسی زمانے کے سرسبز جنگلوں کو ریت اور سیمنٹ کی شکل دے دی ہے۔
توانا معاشرے اور مضبوط ریاستیں اپنے فطری قومی ورثے کی حفاظت کرتی ہیں۔ سب سے بڑا داخلی تضاد قومی مفاد اور نجی شعبے کی حرص وہوا میں ہوتا ہے۔ ہر ایسے ایشو پر میں امریکہ کی مثال دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بے پناہ طاقت کے باوجود اس کا چالیس فیصد رقبہ آج بھی پبلک لینڈ یا قومی ورثہ ہے۔ ہر ریاست میں وسیع وعریض نیشنل پارک سینکڑوں میلوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ برطانیہ اور یورپی ممالک میں بھی قومی ورثہ میں شامل سمندری ساحلوں‘ دریائوں‘ پہاڑوں اور جنگلوں کی حفاظت میں وہاں کے عوام اور حکمران جماعتوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان سب ممالک میں شہروں سے ملحق بہت بڑے پارک اور جنگلات ہیں‘ جہاں ویک اینڈ پر آپ سینکڑوں لوگوں کو دور کہیں کاریں کھڑی کرکے پیدل چلتا دیکھ سکتے ہیں۔ امریکہ میں کئی ٹریلیں اتنی مشہور ہیں کہ دنیا بھر کے لوگ وہاں چلنے کے لیے آتے ہیں۔ کچھ پہ اس درویش کو بھی چلنے کا اتفاق ہوا ہے۔ کہیں آپ کو کمرشل سرگرمی نظر نہیں آئے گی۔ ہمارے ملک میں فطری خوبصورتی کی کوئی کمی نہیں بلکہ کئی ممالک کے مقابلے میں ہم زیادہ مالامال ہیں۔ شمالی علاقوں میں دو مرتبہ کئی دنوں تک ٹریکنگ کا موقع ملا ہے۔ اگر آپ نے وہاں وادیوں‘ دنیا کے بلند ترین صحرائوں اور برفانی چوٹیوں کے درمیان سفر نہیں کیا تو آپ ''جمے‘‘ ہی نہیں۔ ہمارے دریا اور ان کی روانی اور ان کے کناروں پر کبھی چلنے یا پھر تھر‘ چولستان اور کوہِ سلیمان کے دامن کے چٹیل میدانوں میں تاروں کی روشنی میں رات گزارنے کا موقع ملے تو آپ سے زیادہ خوش قسمت کون ہو گا۔ پوٹھوہار کا خطہ ہو‘ چکوال اور اس کے ساتھ سالٹ رینج کا پہاڑی سلسلہ‘ جو سننے اور کہنے کی حد تک نیشنل پارک ہے‘ فطری حسن میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم انگریزوں کے زمانے کے قائم کردہ جنگلات کی حفاظت کے ساتھ ان میں اضافہ کرتے‘ پبلک لینڈ کو کبھی نجی شعبے کے حوالے نہ کرتے۔ کس بے دردی سے سندھ کی خوبصورت وادی کو ایک ہائوسنگ سوسائٹی کو شہر بسانے کی سرکاری سند عطا کی گئی ہے۔ ہماری آوازیں دبا دی گئیں‘ اور حکومتیں من مانی کرنے لگیں تو پارکوں پر بازار‘ دکانیں‘ اور تجارتی سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ مارگلہ قومی پارک میں کئی ہوٹل بن چکے ہیں جہاں ہمارے ابتدائی سالوں میں کچھ بھی نہ تھا۔ راول جھیل پر جا کر دیکھیں‘ اس کے اردگرد کے علاقوں کو خفیہ طور پر الاٹ کیا جا چکا ہے۔ چاردیواریاں آپ کو نظر آئیں گی‘ اور جھیل کے ساتھ بازار ہی بازار دیکھیں گے۔ بااثر لوگوں نے رقبے الاٹ کرا رکھے ہیں۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پر تو اسلام آباد سے لے کر مری کی پہاڑیوں تک کئی سوسائٹیاں وجود میں آ چکی ہیں۔ اس جانب سرکاری جنگلات پر قبضے ہیں۔ کہیں دور کیوں جائیں‘ شکرپڑیاں کی طرف دیکھ لیں۔ پہاڑوں پر بھی بازار‘ جنگلات میں کلب ہی کلب اور عمارتیں ہی عمارتیں۔ یہاں تو ٹریلیں تھیں جو وقت کے ساتھ غائب کر دی گئیں۔ کس سے فریاد کریں‘ کس سے انصاف مانگیں جب حکومت ہی قومی ورثہ فروخت کرنا شروع کر دے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved