وہ پچھلے 399 دنوں سے سیل بند قیدِ تنہائی کاٹ رہا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی سیاست‘ معاشرت اور معیشت اُس کے نام کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ عمران خان‘ جس کے نام کی سرچ پاکستان میں سوشل میڈیا پر آگ کی دیوار لگا کر چھپا دی گئی‘ تنہائی کا یہی قیدی عمران خان نہ صرف مشرق میں غروب ہونے سے انکاری ہے بلکہ وہ مغرب میں بھی سورج کی طرح جا اُبھرا ہے۔
ان دنوں وہی عمران خان ایک عالمی سطح پر مشہور درسگاہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑ رہا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلرشپ کے الیکشن کے بار ے میں بہت سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں ۔ آج کا وکالت نامہ انہیں سوالوں کا جواب دے گا۔
پہلا سوال‘ آکسفورڈ یونیورسٹی الیکشن پہ پاکستانی سرکارکا مقدمہ: شہباز شریف کی حکومت نے عمران خان کے امیدوار بننے کو تحریری طورپر یونیورسٹی کے سامنے چیلنج کیا۔ جہاں تین بڑے اعتراضات اُٹھائے گئے۔ یہ امیدوار کرپشن میں ملوث ہے‘ سزا یافتہ قیدی ہے‘ طالبان کا حامی ہے۔ اس لیے آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے عالمی ادارے کے لیے عمران خان کی نامزدگی بدنامی کا باعث بنے گی۔ یہ اعتراضات یونیورسٹی نے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیے۔
دوسرا سوال‘ عمران خان کے حامی ووٹروں کا حکومتی مؤقف پر جواب: عمران خان برطانیہ کے سابق پرائم منسٹر ٹونی بلیئر اور بورس جانسن سمیت جرمنی کی سابق وائس چانسلر سے زیادہ بہتر امیدوار ہے۔ اس بارے میں ایک غیر جانبدار سروے رپورٹ کو بہت پذیرائی ملی جس میں ووٹرز نے عمران خان کو بہترین امیدوار قرار دیا۔ سروے کی بنیاد نمبر ایک کھیلوں میں عمران خان کی خدمات‘ کرکٹ کی دنیا میں عمران خان کا منفرد اعزاز نیوٹرل امپائرز لگوانا غیر معمولی بات ہے۔ پھر ناقابلِ تسخیر لیڈرشپ کے بل بوتے پر 1992ء کاورلڈ کپ جیتا۔ دوم‘ انسانی خدمات‘ جو صحت کے شعبے میں عمران خان کو ممتاز اور قابلِ فخر بناتی ہیں۔ لاہور اور پشاور کے شوکت خانم ہسپتالوں میں غریب افراد کو مفت علاج کی فراہمی۔ تیسرے نمبر پرکراچی میں تیار ہونے والا شوکت خانم کینسر ہسپتال آتا ہے‘ جو دسمبر میں آپریشنل ہو جائے گا۔ ان ہسپتالوں کے لیے ہر سال اربوں روپے دنیا بھر سے صاحبِ ثروت لوگ عطیہ کرتے ہیں۔ اس بارے کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ عوام ایماندار شخص کو عطیات دیتے ہیں۔ چوتھے نمبر پر عمران خان کی تعلیمی خدمات گنی جا رہی ہیں جن میں میانوالی کی نمل یونیورسٹی سرفہرست ہے جہاں سٹوڈنٹس کو بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی ڈگری ملتی ہے اور 80 فیصد بچوں کی تعلیم مفت ہے۔ پانچویں نمبر پہ عمران خان بطور کامیاب سیاسی قائد گنا جا رہا ہے۔ جس نے پہلی بار ملک میں متوسط طبقے اور خواتین کو سیاست میں متحرک کیا۔ جس کے نتیجے میں خواتین کی بڑی تعداد سیاست میں شامل ہوئی۔ نمبر پانچ‘ بطور وزیراعظم ان کی خدمات‘ دوحہ امن عمل ہے۔ عمران خان نے دوحہ امن عمل کی بھرپور حمایت کی جس کے نتیجے میں امریکی افواج کو افغانستان میں پُرامن طور پر نکلنے کا موقع ملا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار تھا کہ اتنی پُرامن منتقلی ممکن ہوئی‘ جس میں عمران خان کی حکومت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ کشمیر اور بھارت کے ساتھ تعلقات‘ عمران خان نے 2018ء کے انتخابات میں جیت کے بعد بھارت کے ساتھ امن کی کوششیں کیں۔ بالاکوٹ حملے کے بعد جب بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کیا گیا تو عمران خان نے فوری طور پر اسے رہا کر کے بھارت کے ساتھ کشیدگی کو کم کیا۔ کورونا مینجمنٹ‘ عمران خان کی حکومت نے کووڈ 19 کو بہترین طریقے سے سنبھالا۔ پاکستان میں جان ومال کا نقصان باقی دنیا اور علاقائی ممالک کی نسبت کم سے کم ہوا۔ سپلائی چین برقرار رہی اور غریب طبقے کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا۔ سمارٹ لاک ڈاؤن میں متعارف کرایا۔ کاروبار بند نہ ہونے دیے۔ غریبوں کو نقد رقم فراہم کی۔ نمبر چھ‘ ماحولیاتی اقدامات‘ عمران خان نے ماحولیات کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری کے منصوبے شروع کیے جو پاکستان میں ماحول کے تحفظ کے لیے ان کی سنجیدہ کوششوں کا ثبوت ہیں۔ چانسلر کے لیے ان کا تجربہ بھی ہے۔ وہ اس سے پہلے آٹھ سال برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کی خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور نمل یونیورسٹی کے بھی چانسلر ہیں۔ ووٹرز سروے کے مطابق ان تمام کامیابیوں کے پیش نظر عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر شپ کے لیے ایک موزوں امیدوار ہیں۔
تیسرا سوال‘ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ووٹرز اور الیکشن پراسیس: آکسفورڈ یونیورسٹی کا الیکشن پرانے سٹوڈنٹس؍ ایلومنائی کے درمیان 10 سالہ مدت کے لیے منعقد ہوتا ہے۔ کِرس پیٹن موجودہ چانسلر ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طور پر عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی ووٹرز کی کُل تعداد 25 لاکھ ہے‘ جن میں سے عمران خان کا موازنہ ٹونی بلیئر اور بورس جانسن سے کیا جا رہا ہے۔ ذاتی طور پر ٹونی بلیئر اور بورس جانسن دونوں امیدوار عمران خان کے قدردان اور چاہنے والے ہیں۔ اس لیے الیکشن کا نتیجہ الیکشن ڈے پر رکھ دیں‘ پھر بھی ایک پاکستانی سیاسی قیدی کا چانسلر کے الیکشن میں حصہ لینا پاکستانیوں کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اس الیکشن کی انتخابی مہم شہباز سرکار کے کچھ کارندوں نے پاکستانی میڈیا پر بھی چلائی ہوئی ہے۔ لندن اور تل ابیب کے اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات چھپوائے جا رہے ہیں۔ ہمارے بعض لوکل ٹی وی چینلز کے مقامی اینکر انگریزی میں پروگرام کر رہے ہیں تاکہ اُن کے علم وفضل سے آکسفورڈ یونیورسٹی کا ووٹر فائدہ اُٹھائے اور عمران خان کو مسترد کر دے۔
اب ذرا اپنی حکومت کی ذہنی افلاس کو دیکھ لیں جنہیں اس بات کی پروا نہیں کہ کسی عالمی ادارے کے لیے کوئی پاکستانی رہنما امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔ بلکہ انہیں یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ لوگ عمران خان کو بھول کر انہیں لیڈر کیوں نہیں مانتے۔ یہ بندگانِ شکم اپنی سیاست کوکبھی ماورائے شکم جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کی دوسری فکری صلاحیت یہ ہے کہ وہ اس صدی کے نئے لوگوں کو پچھلی صدی کے لوگوں کی طرح لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے غیر منتخب اور غیر جمہوری فیصلہ سازوں کو عوام کی چوائس پر فیصلے چھوڑنا ہوں گے۔
آخری سوال: عمران خان کے حوالے سے پوچھا جانے والا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایک اکیلا آدمی اس قدر ڈٹ کیسے سکتا ہے۔ باقی وجوہات تو بیان ہوتی رہتی ہیں اس کی ایک وجہ کم ہی بیان ہوتی ہے جو شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے بتائی:
وہ ایک سجدہ جسے تُوگراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اسی فکرِ اقبال سے ملتی جلتی حقیقی آزادی کی نئی تحریک بغداد کے طلبہ نے بھی شروع کی ہے۔ ذہنی غلامی کی پیداوار ٹولی نے اسلام آباد میں بلا اجازت جلسہ کرنے کی سزا تین سال اور جلسہ دہرانے کی سزا 10 سال مقرر کر دی۔ حد ہو گئی جمہوریت کی۔ یہ سمجھتے ہیں عمران خان بمقابلہ ٹونی بلیئر + بورس جانسن + جرمن چانسلر بھی کوئی مقابلہ ہے۔ اصل مقابلہ فارم 45 بمقابلہ فارم 47 اور ووٹر بمقابلہ الیکشن کمیشن ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved