پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو وائرس سے متاثر ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ اس سے آبادی کا ایک بڑا حصہ (جیسا کہ بچے اور عورتیں، خاص طور پر حاملہ عورتیں اور وہ افراد جن کی قوت ِ مدافعت کمزور ہوتی ہے) اس خطرناک اور لاعلاج بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ دوسرے دو ممالک افغانستان اور نائیجریا ہیں ۔۔۔۔اور یہ تینوں اسلامی ممالک ہیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت، جس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے، مکمل طور پر پولیو سے پاک ملک بن چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم پولیو کے خاتمے میں ناکام کیوں ہیں جبکہ دنیا کے دوسرے ممالک کامیاب جا رہے ہیں۔ اس کی بہت سی پریشان کن وجوہات ہیں۔ ان میں غیر حقیقی سماجی رویہ، مذہب کی غلط تشریح، بے حسی اور سنگدلی اور حکومت کی طرف سے روا رکھی جانے والی بدانتظامی شامل ہیں۔ ان وجوہ کو مد ِنظر رکھتے ہوئے میں کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں تاکہ ارباب اختیار اگر کچھ کرنا چاہیں تو کر لیں۔ پہلی بات اس امر کی تفہیم ہے کہ پولیو کو انسانیت دشمن کیوں قرار دیا جاتا ہے یا عوام یا پاکستانی ریاست کو اس سے کیا خطرات لاحق ہیں؟ بات یہ ہے کہ پولیو وائرس سے پھیلنے والی ایک بیماری ہے۔ عام طور پر وائرس گندگی، فضلات، آلودہ ہوا اور پانی سے پھیلتے ہیں۔ پولیو اس لیے بھی خطرناک ہے کہ 96 فیصد افراد میں، جو پولیو کا شکار ہوں، پولیو کے مرض کی علامات نمودار نہیں ہوتیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص خود پولیو کا مریض نہ ہو لیکن اُس میں پولیو وائرس ہو اور اس سے دیگر اہل ِ خانہ یا محلے دار متاثر ہو جائیں۔ چونکہ پولیو ایک متعدی مرض ہے، اس لیے جب ایسے افراد سفر کرتے ہیں تو ان سے بہت زیادہ افراد بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پولیو کا وائرس مختلف گھروں، شہروں اور ملکوں تک پھیل سکتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک صحت مند بچہ کسی ایسے فرد کی وجہ سے زندگی بھر کے لیے معذور ہو جائے۔ کیا ایسے معذور بچوں کے والدین اور دیگر اہل ِ خانہ کے دکھ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ بچے، جنہوں نے قوم کے معمار بنتے ہوئے ایک روز معاشرے کا بوجھ اٹھانا ہے، خود معاشرے پر بوجھ نہیںبن جاتے؟ کیا یہ انسانیت کا قتل نہیں ہے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے بچوںکو آسانی سے اس بیماری سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس مرض سے بچانے کے لیے ٹیمیں گھر گھر آتی ہیں اور پولیو کے قطرے مفت پلاتی ہیں۔ اگر ابھی بھی بچے اور عورتیں اس بیماری کے خطرے سے دوچار ہیں تو یہ شرمناک حد تک غیر ذمہ داری بلکہ سنگدلی اور بے حسی کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر سچ پوچھیں تو یہ بھی دہشت گردی کی سفاک ترین شکل ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ دیگر معاملات کی طرح یہاں بھی شہری مجبور ہیں۔ وہ ان قوتوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جو قطرے پلانے کی راہ میں حائل ہیں۔ تاہم، ہم اپنی آواز تو بلند کر سکتے ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے اورحکومت پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ ہر ممکن حد تک اس مہم کو آگے بڑھائے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریکی کی اُن قوتوں کو بے نقاب کرنا بھی ضرور ی ہے جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر منافقت کا گھٹیا ترین مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیا پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکاروں پر حملوں سے زیادہ شرمناک کوئی اور حرکت ہو سکتی ہے؟ درحقیقت ہم کسی نارمل معاشرے کے شہری نہیںہیں۔ یہاں انتہا پسندانہ رویے پوری شدت کے ساتھ رائج ہیں۔ چنانچہ پولیوکے خاتمے اور فیملی پلاننگ کے منصوبوں کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں۔ اس وقت افراد کو یہ بات سمجھانا کہ وہ اپنے خاندانوں کا سائز مختصر رکھیں یا اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں، آسان کام نہیں ہے۔ لیکن کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا جب انسانیت کو ہلاک یا معذور کرنے کے درپے قوتوں کے چہرے پر سے مذہب کا جھوٹا لبادہ نوچ پھینکا جائے اور اُنہیں انسانیت کے کٹہرے میں بے نقاب کیا جائے؟ یقیناً شہری ان کے خلاف مسلح اقدامات نہیں کر سکتے لیکن کیا اُن کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کی جا سکتی؟ ہم کب تک مصلحت کا دامن تھام کر اپنی نسلوں کو معذوری کے جہنم میں دھکیلتے رہیں گے؟ درحقیقت اسلام ایک پرامن مذہب ہے۔ یہ شخصی امن، سماجی استحکام اور منظم زندگی کی تلقین کرتا ہے۔ اس کا مقصد انسانی قدروں کی ترویج اورسماجی ترقی ہے، تاہم طاقتور حلقے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کی من پسند تشریح کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ خود کو کسی بھی چیلنج سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ مذہب کا سب سے منفی استعمال وہ ہے جب اس سے جواز کی سند لے کر پرتشدد کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے ملک میں دیگر افسوسناک معاملات کی طرح پولیو ٹیموں پر حملے ایک معمول بن چکا ہے۔ چنانچہ اس وقت ضروری ہے کہ ملک کے صاحبِ نظر علمائے کرام اور دینی رہنما ، جن کی معاشرے میں بجا طور پر تکریم ہے، سامنے آئیں اور پولیو مہم کی کامیابی میں رکاوٹ بننے والی تنگ نظری کے خلاف آواز بلند کریں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ معاشرے کا ایک بڑاحصہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی حمایت کرتا ہے۔ اگر ہم اس خطرناک وائرس کا تدارک کر سکیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم آنے والی نسلوں کو محفوظ بنا رہے ہیں۔ اگر ایسا کرنے میں ناکامی ہوئی تو ہم انسانیت کے مجرم کہلائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved