تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     09-09-2024

مالک! کیا ہو گا ان انسانوں کا

روئے زمین پر کوئی اور مسلم گروہ ایسا بے یار و مددگار اور بے سہارا نہیں جیسے برما کے روہنگیا مسلمان ہیں۔ یہ بات سمجھنے کیلئے ایک پل کو تصور کریں کہ نہ آپ کی کوئی قومیت ہے‘ نہ کوئی ملک‘ نہ کوئی ملکیت‘ نہ زمین اپنی‘ نہ گھر اپنا‘ نہ ہمسائے دوست اور نہ حکومت ہمدرد۔ نہ آپ کے پاس تعلیم‘ نہ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت‘ نہ معاش‘ نہ روزگار‘ نہ پیسہ‘ نہ عہدہ‘ نہ ہتھیار اور نہ کوئی دانش مند رہنما۔ کیا آپ اس سے زیادہ بے سروسامانی کا تصور کر سکتے ہیں؟ یقین کریں کہ روہنگیا اس تصور سے بھی کہیں زیادہ بے سروسامان ہیں۔ برما‘ جو اب میانمار کہلاتا ہے‘ ان لوگوں کی آبائی زمین ہے‘ یہاں وہ نسل درنسل صدیوں سے بستے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن نصف صدی سے زیادہ ہو چکا کہ یہ زمین ان پر تنگ ہو چکی۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے ملک میں صدیوں سے بسنے والے لاکھوں لوگوں کی شہریت سے انکاری ہے۔ نہ صرف انکاری ہے بلکہ ان پر بدترین ریاستی تشدد کرتا ہے۔ ہر کچھ سال کے بعد روہنگیا پر ظلم وستم کی ایک نئی لہر آتی ہے جس میں سینکڑوں لوگوں کو مار دیا جاتا ہے۔ خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ گھروں کو جلا دیا جاتا ہے۔ مارنے والوں میں میانمار کی فوج بھی ہے اور فوج کے مخالف گروہ بھی۔ میانمار میں 89 فیصد بدھ ہیں جبکہ 4 فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ باقی مذاہب کے پیروکار کم کم ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ بدھسٹ دنیا بھر میں عام طور پر تشدد سے دور رہتے ہیں اور ان کی مذہبی تعلیمات بھی تشدد کے خلاف ہیں لیکن میانمار میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ بدھسٹ بدترین قتل وغارت‘ عصمت دری اور نسل کشی کے مرتکب ہیں۔ روہنگیا کے خلاف بدھسٹ قتل عام میں پیش پیش ہیں۔ حکومت انہیں شہریت دینے سے انکار کرتی ہے اور بدھسٹ‘ جو اکثریتی آبادی ہے‘ انہیں ترکِ وطن کرکے برما میں آباد ہونے والی نسل بتاتے ہیں اور انہیں قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ یعنی حکومت بھی ان کی دشمن اور حکومت کے مخالف بھی ان کے دشمن۔ جو روہنگیا قتل عام سے بچ نکلتے ہیں انہیں جانوروں کی طرح ہمسایہ ملکوں میں کھدیڑ دیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش ہی نزدیک ترین ملک ہے لیکن وہاں انہیں یا تو قبول ہی نہیں کیا جاتا یا عالمی دبائو کے پیشِ نظر مجبوری میں قبول تو کر لیا جاتا ہے لیکن وہ جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ مخصوص کیمپوں میں زندگی بسر کرتے ہیں اور واپس اپنی زمینوں پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے بلکہ مزید پناہ گزین سرحد کے پار دھکیلے جا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ بے چارگی کا کوئی تصور بھی ہوسکتا ہے؟
روہنگیا کے معنی ہیں روہنگا میں رہنے والا۔ یہ لفظ قدیم دور سے مسلمانوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اراکان میں‘ جو برما کا ساحلی علاقہ ہے‘ عرب جہاز رانوں اور تاجروں کی آمد ورفت ابتدائے اسلام یعنی ساتویں صدی سے تھی۔ روہنگیا خود کو انہی مسلمانوں کی نسلیں بتاتے ہیں‘ جو مقامی لوگوں میں شادیوں سے وجود میں آئی۔ اسلام اس خطے میں تیزی سے پھیلتا گیا جس کے شواہد مقامی تہذیب میں بھی موجود ہیں۔ قدیم عمارتوں میں 1430ء کی مسجد کے آثار بھی موجود ہیں۔ مغلیہ دور میں بھی برما میں مغلوں کی تقلید کی جاتی تھی اور بدھسٹ حکمران مسلمانوں جیسے خطابات رکھتے تھے۔ شاہجہاں کا بیٹا شجاع‘ جو بنگال کا گورنر بھی رہا‘ اورنگزیب عالمگیر سے شکست کھا کر اراکان میں پناہ لینے پر مجبور ہوا اور یہاں اس کی نسل سے کئی لوگ مقامی حکومتوں میں اہم عہدوں پر رہے۔ یعنی مسلم تہذیب ساتویں صدی عیسوی سے مسلسل اس علاقے میں موجود رہی ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موجودہ صدی میں اسے یکسر مسترد کرکے ملک بدر کر دیا جائے۔ آپ کو اندازہ ہے کہ برما میں اس وقت کیسی خوفناک خانہ جنگی چل رہی ہے۔ یہ سمجھیے کہ لگ بھگ 85 مسلح نسلی اور مذہبی گروہ وہاں موجود ہیں۔ بڑی لڑائی حکمران فوجی جنتا اور اس کے مسلح مخالفوں اور پیپلز ڈیموکریٹک فورس (PDF) میں ہے۔ فوج کے مخالف تمام گروہ پی ڈی ایف میں اکٹھے ہیں اور ایک بڑا علاقہ ان کے قبضے میں ہے۔ خانہ جنگی برما کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ آزاد ی کے بعد سے یہ اس کا شکار رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال بدترین ہے۔ اندازہ کیجیے کہ میانمار میں 135 نسلی گروہ ہیں‘ اتنی بڑی تعداد میں ایک دوسرے سے جدا نسلیں شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں ہوں۔ ان سب نسلوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن روہنگیا کو‘ جو ایک علیحدہ نسلی گروہ ہے‘ تسلیم نہیں کیا جاتا اور ہر حقِ شہریت ان پر بند ہے۔ ایک اندازے کے مطابق میانمار میں ان کی تعداد 14 لاکھ ہے۔ دیگر ملکوں میں موجود پناہ گزین ان کے علاوہ ہیں۔ انہیں برمی نہیں بلکہ غیر ملکی سمجھا جاتا ہے۔ یہ برما کی ساحلی پٹی ریخائن میں آباد ہیں اور سرکاری اجازت کے بغیر اس علاقے سے باہر نقل وحرکت بھی نہیں کرسکتے۔ بنگلہ دیشی صوبے چٹاگانگ میں بھی روہنگیا آباد ہیں۔
برما برطانوی راج کے زمانے میں برطانوی ہندوستان میں شامل تھا بلکہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو رنگون ہی کی طرف جلاوطن کیا گیا تھا۔ 1937ء میں انگریزوں نے برما کو برصغیر سے علیحدہ کر کے ایک نئی کالونی کا درجہ دیا اور 1948ء میں یہ برطانوی گرفت سے آزاد ہوا۔ 1962ء میں فوجی بغاوت سے مسلمانوں اور روہنگیا پر زمین تنگ ہونے لگی اور انہیں ملک بدر کرنے اور قتل کرنے کی سرکاری پالیسی شروع ہوئی۔ روہنگیا صدیوں سے اس خطے میں آباد ہیں مگر بدھسٹ اور میانماری حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ بنگالی ہیں جو برطانوی راج کے زمانے میں بھارتی بنگال اور موجودہ بنگلہ دیش کے علاقوں سے مزدوروں کی حیثیت میں یہاں آباد ہوئے؛ چنانچہ یہ غیر ملکی بنگالی ہیں۔ وہ روہنگیا نام کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور نہ روہنگیا زبان کو الگ مانتے ہیں۔ سرکاری دعویٰ یہ بھی ہے کہ یہ اپنی الگ ریاست بنانے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں‘ روہنگیا مگر اس کی تردید کرتے ہیں۔ 2017ء میں تشدد کی نئی لہر نے بہت بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کر دیا تھا۔ نسل کشی کی اس بدترین مثال کو اقوام متحدہ بھی انسانیت کے خلاف بدترین جرم مانتی ہے۔ 31 دسمبر 2023ء کی رپورٹ کے مطابق 9 لاکھ 71 ہزار 904 یعنی تقریباً دس لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش میں کوکسس بازار کے علاقے اور بھسن چار نامی جزیروں میں عارضی پناہ گاہوں میں ہیں۔ ان میں 52 فیصد بچے ہیں۔ یہ کرہ ارض پر سب سے بڑا بے یار و مددگار انسانی پناہ گزین گروہ ہے۔ برمی مسلمانوں پر ظلم وتشدد کئی صدیوں سے جاری ہے اور 1980ء کی دہائی میں واحد پاکستان تھا جس نے ان پناہ گزینوں کو شہریت دی تھی۔ اس وقت بھی یو این سی ایچ آر کی رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ برمی مسلمان کراچی میں آباد ہیں جو اب پاکستانی شہری ہیں۔ لیکن 2017ء میں فوجی کریک ڈائون اور ظلم کی نئی لہر کے بعد سے اقوام متحدہ کی طرف سے کچھ بیانات اور کچھ مالی امداد کے علاوہ دنیا بھر میں ان کا کوئی مددگار نہیں۔ میرے علم میں گزشتہ سات آٹھ سال میں طیب اردوان ہی وہ مسلم حکمران ہیں جنہوں نے ان کے دکھ درد کو محسوس کیا۔ وہ تصویریں میری آنکھوں میں پھر رہی ہیں جن میں طیب اردوان اور ان کی اہلیہ ڈبدبائی آنکھوں کے ساتھ روہنگیا مسلمانوں سے مل رہے ہیں۔ ترکیہ نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ بنگلہ دیش انہیں پناہ دے‘ ان کا خرچ ترکیہ اٹھائے گا۔ اسی بنیاد پر بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت نے ان کیمپوں کو برداشت کیا ورنہ وہ مسلم ہونے کے ناتے کسی ہمدردی کی قائل نہ تھی۔ پاکستان اور ترکیہ کے علاوہ کسی مسلم ملک نے روہنگیا کی مدد نہیں کی۔ عملی نہیں‘ زبانی اور اخلاقی مدد کو بھی روہنگیا ترس رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے علاوہ تھائی لینڈ‘ انڈونیشیا اور بھارت میں پناہ ڈھونڈنے والوں کو کہیں پناہ نہیں مل سکی۔
آپ ان کے حالات کا تصور کریں جن کے پائوں کے نیچے زمین اور سر پر آسمان نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی سہارا نہیں۔ کوئی اور مسلم گروہ ایسا بے یار ومددگار اور بے سہارا نہیں جیسے برما کے روہنگیا مسلمان ہیں۔ میرے مالک! کیا ہو گا ان انسانوں کا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved