اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا اور زمین پر ان کی جمیع ضروریات کو پورا کرنے کیلئے خوبصورت اندازمیں بندوبست فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے قسم ہا قسم کی سبزیوں‘ اناج اور پھلوں کو پیدا کیا۔ اسی طرح تن کو ڈھانکنے کیلئے قسم ہا قسم کے کپڑے بُننے کا سلیقہ سکھلایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے قلب وجگر کی تسکین کیلئے اولاد اور زندگی کے نشیب وفراز کا مقابلہ کرنے کیلئے شریکِ حیات کو پیدا کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے گھروں کو ان کیلئے باعثِ سکون بنایا۔ اللہ نے جہاں انسانوں کی جسمانی اور طبعی ضروریات کو پورا کیا وہیں روحانی تشنگی کو دور کرنے کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ انبیاء کرام علیہم السلام مختلف علاقوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی نشر واشاعت اورحکمت کے ابلاغ کے فریضے کو انجام دیتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف زمانوں اور علاقوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کرنے کے بعد نبی کریمﷺ کو کچھ اس انداز میں مبعوث فرمایا کہ آپﷺ کو جمیع انسانیت کیلئے رسول بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 158 میں کچھ یوں واضح فرماتے ہیں ''آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو ایک اور انداز میں بھی واضح فرمایا۔ سورۂ سباء کی آیت نمبر 28 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘ ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بے علم ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ پر دین کو مکمل کیا اور آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر رسالت اور نبوت کو تمام فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد فرماتے ہیں ''(لوگو) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں اور آپﷺ کے بعد کسی نئی نبوت اور رسالت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک مادی مفادات‘ عہدے‘ شہرت اور سرمائے کے حصول کیلئے مختلف لوگوں نے مختلف ادوار میں نبوت کے جھوٹے دعوے کیے۔ مسیلمہ کذاب‘ اسود عنسی‘ علی محمد باب‘ حسین علی مازندانی‘ مرزا غلام احمد قادیانی‘ علیجاہ محمد‘ راشد الخلیفہ‘ یوسف کذاب اور احمد عیسیٰ جیسے ملعون لوگ ہر عہد میں اپنے آپ کو نبی قرار دیتے رہے لیکن علمائے حق قرآنِ مجید کی آیاتِ بینات اور احادیث متواترہ کی روشنی میں اُن کے دعووں کی تردید کرتے رہے۔ جس وقت برصغیر میں غلام احمد قادیانی کے فتنے نے زور پکڑا تو علماء نے اس فتنے کا دلائل کی روشنی میں ڈٹ کے مقابلہ کیا اور ثابت کیا کہ جو رسول اللہﷺ کی ختم نبوت کو نہیں مانتا‘ وہ دائرہِ اسلام سے خارج ہے۔ علمائے کرام کی اس جدوجہد کے باوجود قادیانی اپنے اسلام پر اصرار کرتے رہے اور اصطلاحاتِ اسلامیہ اور شعائر دین کو اپنے غلط نظریات کے ابلاغ کیلئے استعمال کرتے رہے۔ علمائے کرام نے ان کو قانونی طور پر غیر مسلم قرار دینے کیلئے ایک مضبوط تحریک چلائی۔
1953ء میں اس حوالے سے چلنے والی تحریک ختم نبوت میں بہت سے لوگوں نے قربانیاں دیں لیکن اس کے باوجود اس وقت قانونی طور پر ان کو غیر مسلم اقلیت قرار نہ دیا گیا۔ یہاں تک کہ7 ستمبر 1974ء کو اس بات کو قانونی طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی نے دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے طے کر دیا کہ جو نبی کریمﷺ کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتا‘ وہ دائرہِ اسلام سے خارج ہے۔ 80ء کے عشرے میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کے ذریعے قادیانیوں کو شعائرِ اسلامی اور اصطلاحاتِ اسلامی کے استعمال سے روک دیا گیا لیکن اس کے باوجود ختم نبوت کے منکروں نے خفیہ انداز سے اپنی سازشوں کو جاری رکھا۔ پرویز مشرف کے دور میں پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کو نکالا گیا‘ اس پر علمائے دین اور دینی مدارس نے مضبوط انداز سے آواز اٹھائی اور مشرف حکومت کو پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کو بحال کرنا پڑا۔ بعدازاں ختم نبوت کے ڈرافٹ میں ترمیم کر کے اس کو حلف نامے سے اقرار نامے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس سازش کو بھی بے نقاب کر دیا گیا۔ ملک کے بعض اہم تعلیمی اداروں کو کئی معروف قادیانیوں کے نام سے منسوب کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن یہ کوششیں بھی ناکام رہیں۔ حالیہ ایام میں مبارک ثانی کیس اس حوالے سے ایک متنازع کیس کی شکل اختیار کر گیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے فیصلے میں بعض ایسی باتیں لکھیں جن سے قادیانیوں کو اپنے نظریات کی تبلیغ کا موقع ملنے کے امکانات پیدا ہوئے۔ دینی جماعتوں نے اس حوالے سے ایک مضبوط اور منظم تحریک چلائی اور باور کرایا کہ ختم نبوت کے حوالے سے کسی قسم کی لچک کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ کے فیصلے سے متنازع چیزیں حذف کر دی گئیں۔
7 ستمبر 1974ء کو سے آج تک‘ 50 برس ہو چکے ہیں۔ 50 برسوں کی تکمیل پر ہفتے کے روز مینارِ پاکستان پہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ایک بہت بڑے اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ اس اجتماع کیلئے مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے کئی ہفتے قبل سے ایک مضبوط تحریک چلائی اور مینارِ پاکستان گرائونڈ میں ہزاروں افرادکو جمع کیا۔ بہت سے لوگ ٹریفک کی بندش کی وجہ سے مینار پاکستان پہنچنے سے قاصر رہے تاہم ایک بہت بڑے اجتماع میں علماء نے ایک مرتبہ پھر مضبوط انداز میں اس بات کو واضح کیا کہ نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا اور جو نبی کریمﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتا‘ اس کو کسی بھی طور اپنے نظریات کے ابلاغ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح اسلامی اصطلاحات کو کسی بھی طور پر ختم نبوت کے منکرین اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے مُجاز نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے علاوہ پروفیسر ساجد میر‘ مولانا عبدالغفور حیدری‘ لیاقت بلوچ اور مولانا عبد الخبیر آزاد نے بھی اس کانفرنس سے خطاب کیا۔ مجھے بھی اس کانفرنس سے خطاب کا موقع ملا۔ جملہ مقررین نے واضح کیا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس کا آئین حرمت رسول اللہﷺ کے تحفظ کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ ختم نبوت کے تحفظ کی بھی ضمانت دیتا ہے اور کوئی بھی ایسی کوشش یا اقدام جس کے نتیجے میں ان قوانین کو معطل کیا جائے‘ اسلامیانِ پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں۔ لوگوں نے نبی کریمﷺ کی محبت‘ عقیدت اور آپﷺ سے وابستگی کے جذبات کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہوئے اس کانفرنس میں دیوانہ وار شرکت کی۔اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں تھا کہ اس مادی دور میں جبکہ ہر بندہ اپنے ذاتی مفاد کو باقی چیزوں پر ترجیح دیتا ہے‘ آج بھی پاکستانیوں کی اکثریت کسی بھی طور حرمت رسول اللہﷺ اور ختم نبوت پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اس موقع پر اس بات کو بھی واضح کیا گیا کہ نبی کریمﷺ کی سیرت اور آپﷺ کے اسوہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت میں نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی میں بھی نبی کریمﷺ کو اپنا رہنما تسلیم کرنا ہم سب پہ فرض ہے۔ اس لیے کہ آپﷺ کی ذاتِ بابرکت دنیا کی ہر ذات‘ ہر گروہ اور ہر شخصیت پر فوقیت رکھتی ہے۔ اس کانفرنس میں مقررین کے خطابات پر عوام نے بھرپور جوش اور جذبے کا اظہار کیا۔ کانفرنس میں لوگوں کے دینی جذبات دیکھ کر اس بات کا یقین ہو گیا کہ پاکستان کا قیام ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پر ہوا تھا اور ان شاء اللہ اس کی بقا اور مستقبل بھی اسلام ہی سے وابستہ ہے۔کانفرنس کو دیکھ کر دل سے دعا نکلی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ختم نبوت اور حرمت رسول اللہﷺکے عقیدے کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے کی توفیق دے‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved