میں جب بھی ڈی چوک اسلام آباد کے قریب ایک بینک میں جاتا ہوں تو اس کے باہر ہمیشہ اخبار فروش عطا محمد موجود ہوتے ہیں۔ وہ روزانہ ساٹھ سے ستر اردو اور انگریزی اخبارات فروخت کرتے ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے ایک بینک میں اچھی جاب کر رہی ہے۔ عطا محمد کا تعلق بھکر کے علاقے بھیل سے ہے لہٰذا میں کبھی کبھار اُن کے ساتھ بیٹھ کر سرائیکی میں علاقے کا حال احوال بھی پوچھ لیتا ہوں۔ اس طرح میں اپنی سرائیکی زبان کا کورس بھی فریش کرتا رہتا ہوں کہ کہیں پرانے لفظ بھول نہ جاؤں۔ ان سے اخبار بھی خرید لیتا ہوں اور حالاتِ حاضرہ پر گفتگو بھی ہو جاتی ہے۔ کبھی عطا محمد کا موڈ ڈاؤن تو کبھی اَپ ہوتا ہے۔ جس دن اخبار زیادہ بک جائیں تو وہ خوش ہوتا ہے اور جس دن کم بکیں اس دن وہ ملکی معیشت اور سیاستدانوں کو اپنے نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ کمائی اچھی ہو جائے تو اس کا کریڈٹ وہ اپنے گاہکوں کو دیتا ہے‘ تب وہ حکومت یا سیاستدانوں کو کریڈٹ نہیں دیتا۔
گزشتہ روز جب میں بینک سے واپسی پر عطا محمد کو ملا تو مجھے وہ بہت خوش لگے۔ میں نے کہا: جناب جب پورا ملک اداس‘ افسردہ اور ڈپریس ہے‘ بات بات پر ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں‘ آپ خوش بیٹھے ہیں؟ ہمارے ملک میں اب کوئی دوسرے کو خوش دیکھ لے تو ناراض ہو جاتا ہے کہ یہاں سب کو موت پڑی ہوئی ہے اور آپ ہیں کہ دانت نکال رہے ہیں۔ اب تو کوئی ملنے آجائے اور آپ کسی بات پر مسکرا رہے ہوں تو آپ کو فوراً سنجیدہ ہونا پڑتا ہے۔ منہ پر سنجیدگی اور رونے کا انداز طاری کرنا پڑتا ہے تاکہ اگلے کو لگے کہ آپ کی زندگی بہت مشکل گزر رہی ہے اور ملکی حالات نے آپ کو کسی قابل نہیں چھوڑا۔ یہ اداکاری اب اکثر لوگ کرتے ہیں اور ہم میڈیا والے تو بہت کرتے ہیں کہ ہر بندہ جو ملتا ہے وہ یہی پوچھتا ہے کہ ہم کدھر جارہے ہیں اور ہمارا کیا بنے گا۔ وہ اینکرز یا کالم نگار‘ جو لاکھوں کی تنخواہ لے کر مزے کی زندگی گزار رہے ہیں‘ وہ بھی اچانک سنجیدہ منہ بنا کر قیامت کا نقشہ کھینچنے لگتے ہیں۔ خیر گزشتہ روز عطا محمد خلافِ معمول خوش لگ رہے تھے۔ وجہ پوچھی تو ہنس کر کہنے لگے کہ جب سیاسی ٹمپریچر ذرا بڑھ جائے‘ پھڈے‘ گالم گلوچ‘ مار دھاڑ اور ہنگامے ہوں تو اچانک اخبار کی فروخت بڑھ جاتی ہے۔ کہنے لگے کہ چند دنوں سے اخبارات بہت بک رہے ہیں‘ زیادہ انکم ہورہی ہے۔ میں نے کہا: آپ ان پھڈوں کی وجہ سے اپنی انکم بڑھنے سے خوش ہیں تو میں اس وجہ سے خوش ہو رہا ہوں کہ چلیں اس ڈیجیٹل دور میں جب اخبارات کی سرکولیشن گررہی ہے‘ پاکستان میں اخبارات زیادہ پڑھے جا رہے ہیں۔وہ مسکراتے رہے۔ ہر بندے کو اپنے کاروبار سے غرض ہوتی ہے‘ چاہے اس کی قیمت کتنی بڑی کیوں نہ ہو۔ اب اخبار فروخت کرنے والا تو یہی سوچے گا کہ اس ملک میں اگر سکون ہو تو میڈیا اور اخبارات بیچنے والوں کو تو گھاٹا ہی ہوگا۔ اس لیے میں اکثر کہتا ہوں کہ اس ملک میں دو طبقات ایسے ہیں جنہیں سکون سُوٹ نہیں کرتا۔ وہی بات کہ وحشی کو سکوں سے کیا مطلب۔ ایک وہ لوگ‘ جو ہر قیمت پر ملک کے حاکم بننا چاہتے ہیں اور دوسرے ہم میڈیا کے لوگ۔ ہم دونوں کو ملک میں افراتفری اور بدامنی اچھی لگتی ہے۔ سیاستدانوں سے شروع کرتے ہیں۔ اگر ان کے مخالفین ملک کے حکمران بن جائیں اور معیشت سدھرنے لگے تو وہ دن رات دعائیں مانگتے ہیں کہ ملک کے حالات خراب ہوں تاکہ وہ مجمع اکٹھا کر سکیں اور لوگوں کو بتا سکیں کہ ان کی زندگیاں کتنی مشکل ہیں اور کسی بھی لمحے قیامت آسکتی ہے۔ ہنگاموں اور بدامنی میں ان کا کاروبارِ سیاست خوب چمکتا ہے۔ حکمرانی کا ایک راز سب کو جاننے کی ضرورت ہے کہ انسانوں پر حکمرانی کے خواہش مند اقتدار کی خاطر جان دے بھی سکتے ہیں اور لے بھی سکتے ہیں۔ یہ لاکھ کہتے رہیں کہ ہم بہت مظلوم ہیں اور اپنے جیسے انسانوں کی محبت میں مرے جارہے ہیں‘ ان پر کبھی اعتبار نہ کریں۔ ان سب کو علم ہے کہ تھرڈ ورلڈ ممالک میں سیاست کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ جیلیں ہیں‘ جلاوطنی ہے‘ لمبی سزائیں ہیں‘ پھانسیاں ہیں‘ بغاوت کے مقدمے ہیں‘ گھریلو زندگی کی تباہی سے کاروبار کی تباہی تک سب آزمائشیں ہیں۔ آپ قتل ہو بھی سکتے ہیں اور دوسرے کو قتل کر بھی سکتے ہیں۔ پھر کیا خیال ہے ان خطرات کے باوجود یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں؟
چلیں مان لیا کہ پہلی دفعہ آپ کو اندازہ نہیں ہوتا کہ پاور گیم کتنی خطرناک چیز ہے۔ آپ ایک دفعہ وزیراعظم بنے اور سب کچھ دیکھ اور بھگت بھی لیا۔ آپ دوسری دفعہ پھر وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ آپ پھر اس پراسیس سے گزرنا چاہتے ہیں۔ آپ پھر وہی تکلیفیں اٹھانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس سے ہتھکڑیوں میں جیل جانا چاہتے ہیں۔ آپ عمر قید یا سزائے موت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں سامنے گرفتار ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ ظلم ہوا۔ زیادتی ہوئی۔ پھر بار بار آپ خود کو کیوں اس خطرے میں ڈالتے ہیں جس کا آپ نے چند برس پہلے تجربہ کیا تھا؟
آپ کے ورکرز مارے گئے‘ کئی گھرانے تباہ ہوگئے لیکن آپ وہی سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ پھر بھی حکمران بننا چاہتے ہیں۔ اپنے جیسے انسانوں کے حاکم بننا چاہتے ہیں۔ آخر اس حاکمیت میں ایسا کیا نشہ ہے جو آپ کو عمر قید‘ پھانسی گھاٹ ‘ سرعام گولی سے قتل ہونے یا قاتلانہ حملوں سے بھی ڈر نہیں لگتا؟ آپ کہیں گے وہ بہادر لوگ ہیں‘ وہ ان خطرات سے نہیں ڈرتے۔ میں یہ بات نہیں مانتا۔ یہ بھی ہماری طرح گوشت پوست کے انسان ہیں۔ انہیں بھی ڈر لگتا ہے۔ انہیں بھی اپنی جان پیاری ہے۔ آپ کہیں گے تو پھر میرا پورا تھیسز ہی غلط ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ دراصل ان کے اندر لوگوں کا حاکم بن کر زندگی گزارنے کا جنون اتنا طاقتور اور خوفناک ہے کہ جو اُن کی دوسری انسانی جبلتوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یہ جنونیت آپ کو انسانی تاریخ میں نظر آئے گی۔ ہم زیادہ تر ہندوستان کی تاریخ سے مثالیں لیتے ہیں ورنہ یہ کام ہر دور میں ہر جگہ ہوا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں تو امریکی صدر ٹرمپ کو دیکھ لیں۔ ارب پتی ہو کر بھی قاتلانہ حملے کے بعد وہ دوبارہ میدان میں موجود ہے کیونکہ دولت سے زیادہ بڑا نشہ انسانوں پر حکمرانی کا ہے جب لاکھوں لوگ آپ کو مرشد مانتے ہوں اور آپ کے نعرے مارتے ہوں۔ ایسی دولت کا کیا کرنا کہ آپ کو ایک بندہ تک نہیں جانتا۔ اس لیے ہر ارب پتی بندہ خود کو عوام میں مشہور کرنے کے کئی طریقے ڈھونڈتا ہے۔ انڈیا کی امبانی فیملی کو ہی دیکھ لیں‘ بچوں کی شادی پر کیا کچھ نہیں کیا تاکہ دنیا انہیں جان سکے۔ آج کل مغل بادشاہ شاہجہاں کی بیٹی جہاں آرا کی بائیوگرافی پڑھ رہا ہوں۔ آپ کو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاور کا نشہ کتنا خونی اور خطرناک ہے۔اس بیٹی یا بہن کے غم کا ذرا تصور کریں جس کا باپ قید ہے‘ بھائی ایک دوسرے سے جنگیں لڑ رہے ہیں‘ وہ بھائیوں کی منتیں کررہی ہے‘ گڑگڑا رہی ہے‘ ان کے پائوں پکڑ رہی ہے۔پھر بھی جنگوں میں ایک بھائی نے باقی بھائیوں کو قتل کر دیا۔ اب وہ اپنے بھائی داراشکوہ‘ مراد اور شجاع کے قتل کے بعد اُن کے بچوں کو اپنے بھائی اورنگزیب سے بچانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ پورا دلّی باہر نکل کر اورنگزیب سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہے کہ اپنے خوبصورت بھتیجے کو معاف کر دے۔ اورنگزیب کہتا ہے: خوبصورت تو سانپ بھی ہوتا ہے لیکن اندر زہر سے بھرا ہوتا ہے۔ ایک بدقسمت بہن جہاں آرا نہ بھائیوں کو بچا سکی‘ نہ بھتیجوں کو۔ اس رات دلّی کے کسی گھر چولہا نہ جلا تھا۔
آپ کا خیال ہے اورنگزیب ہندوستانی عوام کی بھلائی کو ذہن میں رکھ کر باپ کو قید‘ بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کررہا تھا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved