میرے ایک دوست ہیں‘ بہت پڑھے لکھے۔ انہیں شوق چرایا کہ ناول نگاری کی جائے۔ ایک عرصے سے وہ مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کر رہے ہیں۔ بسیار نویسی سے انہیں یہ خیال ہوا کہ ناول لکھنے کے لیے قلم کا رواں ہونا کفایت کرتا ہے۔ میرے بارے میں خوش گمان ہیں کہ لکھنے پڑھنے سے کچھ علاقہ رکھتا ہوں۔ مشورے کے لیے تشریف لائے۔
میں نے کریدا: 'ناول کے پلاٹ‘ کرداروں وغیرہ کے بارے میں کچھ بتائیے‘؟ میرے سوال کو غیراہم سمجھتے ہوئے جذبات سے مملو لہجے میں بولے: ایسا ناول لکھنا چاہتا ہوں کہ تاریخ میں امر ہو جائے۔ وہ اس وقت کسی فنی بحث میں اُلجھنے سے گریزاں تھے۔ ان کا نقطہ نظر ہے کہ یہ بحثیں اوسط درجے کے ادیبوں کا مسئلہ ہیں۔ پلاٹ‘ کردار‘ منظر نگاری‘ ڈکشن تو آلات ہیں‘ مبتدی جن میں اُلجھے رہتے ہیں۔ تخلیق کار ان سے ماروا ہو کر موضوع پر توجہ کرتا ہے۔ موضوع جب اس کے ذہنِ رسا پر نزول کرتا ہے تو ناول کے سب اجزا خود بخود ترتیب پاتے اور شاہکار تخلیق ہو جاتے ہیں۔
میں نے کہا: اپنے عہد کی داستان لکھیے کہ بہت پڑھی جائے گی۔ بات آگے بڑھی تو کچھ آمادہ دکھائی دیے۔ میں نے تجویز پیش کی: مذہب کا سماجی و سیاسی کردار ایک بڑا موضوع ہے۔ اس کی کوکھ سے جن المیوں نے جنم دیا وہ ایک ناول کا موضوع بن سکتے ہیں۔ انہیں سننے پر آمادہ پا کر میں نے انہیں مسیحی تاریخ کا حوالہ دیا کہ کیسے اہلِ مذہب کے رویے نے مذہب بیزاری کی ایک ایسی تحریک برپا کر دی جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ کلیسا نے جب موت کے پروانے جاری کیے اور اپنے تئیں خدا کے نمائندے بن بیٹھے تو مذہب کے خلاف ایک بڑی بغاوت نے جنم لیا۔ آج مسلم سماج کے پس منظر میں کوئی چاہے تو اس موضوع پر ایک شاہکار تخلیق ہو سکتا ہے۔
ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ اس موضوع پر لکھنے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے بات آگے بڑھائی: مگر اس میں ایک مسئلہ ہے؟ بولے: وہ کیا۔ میں نے کہا: اس میں جاں کے زیاں کا خطرہ ہے۔ اگر کسی کے کان میں یہ بھنک پڑ گئی کہ آپ اہلِ مذہب کے کردار کو زیرِ بحث لانا چاہتے ہیں تو ناول نگار‘ ناول کا پلاٹ بطن میں لیے ملکِ عدم کو سدھار سکتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں تشویش کا سایہ لہرایا۔ چمک ماند پڑ گئی۔ میں نے تسلی دینا چاہی کہ شاہکار ایسے ہی تخلیق نہیں ہوتے۔ اس میں تو جان کو داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ انہوں نے پلکوں کی حرکت سے آنکھوں کے رنگ کو چھپانا چاہا۔ آنکھوں کا معاملہ مگر یہ ہے کہ زبان کی طرح جھوٹ کی رفاقت پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ زبان نے ان کا بھرم رکھنا چاہا: 'میں گھبراتا نہیں۔ اسی موضوع پر لکھوں گا‘۔ رخصت ہونے سے پہلے کل آنے کا وعدہ کیا اور گفتگو کا یک نکاتی ایجنڈا طے کر دیا: ناول کا پلاٹ۔ ان کی زبان سے پلاٹ کا ذکر سن کر میں زیرِ لب مسکرایا مگر خاموش رہا۔
اگلے دن تشریف لائے تو کچھ بدلے ہوئے تھے۔ فرمایا: میرا خیال ہے یہ ایک پامال موضوع ہے۔ یورپ میں اس پر بہت لکھا گیا۔ میں اگر لکھوں گا تو سرقہ سمجھا جائے گا۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ جیسے تخلیق کار کا قلم جب اس موضوع کو چھوئے گا تو اس میں نیا پن آجائے گا۔ ندرت موضوع میں نہیں‘ قلم کار کے اسلوب میں ہوتی ہے۔ میرے دلائل مگر انہیں قائل نہ کر سکے۔ کہنے لگے: کوئی دوسرا موضوع تجویز کرو۔ میں نے شتابی سے کہا: سول ملٹری تعلقات۔ آپ نے سنا کل پختونخوا اسمبلی نے کس مضمون کی قرارداد منظور کی؟ یہ ہماری تاریخ کا ایک اَنہونا واقعہ ہے جو اپنے دامن میں سانحہ بننے کے تمام امکانات لیے ہوئے ہے۔ ذہنی اضمحلال اور تھکن جب فیصلہ سازی کی بنیاد بن جائے تو واقعے کو حادثہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ میری بات سنی تو خوش ہو گئے۔ آنکھوں میں پھر وہ چمک نمودار ہوئی جسے میں نے کل رخصت ہوتے بھی دیکھا تھا۔
اس میں بھی مگر ایک مسئلہ ہے۔ میں نے کچھ شرح کرنا چاہی۔ اس وفعہ آنکھوں کی چمک زبان کے متحرک ہونے سے پہلے ہی الوداع ہو گئی۔ بولے: وہ کیا؟ میں نے عرض کیا: موضوع تو ایسا ہے کہ ایک شاہکار لکھا جا سکتا ہے مگر اس راہ میں بھی کچھ سخت مقامات آتے ہیں۔ میں نے لاپتا افراد کا ذکر نہیں کیا کہ لوگ بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں‘ مگر لگتا تھا ان کا دھیان اُسی طرف گیا۔ ان کی آنکھوں میں خوف کا سایہ کچھ اورگہرا ہو گیا۔ اتنے میں ان کے فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ ساتھ ہی وہ خود بھی اٹھ گئے۔ فون سنے بغیر ہی مدعا پا لیا۔ بولے مجھے کہیں جانا ہے‘ فون آرہا ہے۔ کل بات کریں گے۔
'کل‘ تشریف لائے توکچھ آزردہ سے تھے۔ وہ تخلیقی وفور‘ جسے ان کا لہجہ چھپانے سے عاجز تھا‘ مدہم پڑ چکا تھا۔ میں نے جان لیا کہ گزشتہ مجلس میں تجویز کردہ موضوع کو ان کا قلم قبول نہیں کر رہا۔ 'تو پھر میں ناں ہی سمجھوں‘۔ میں نے ملاقات کو خوشگوار بنانے کی ایک کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی۔ میں نے ان کی ہمت بندھائی کہ موضوعات کی کمی نہیں۔ آپ دل گرفتہ نہ ہوں 'ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں‘۔ میں نے کہا: ایک موضوع ایسا ہے کہ آپ اسے تاریخ کے بڑے کینوس سے اٹھا کر اپنی بستی کی کہانی بنا سکتے ہیں: جب قوم کا ایک بڑا طبقہ اپنی لگام کسی نرگسیت زدہ لیڈر کے ہاتھ میں دے دے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟ چڑ کر بولے: تم کوئی ایسا موضوع تجویز نہیں کر سکتے جس میں جان یا عزت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو؟
میں نے جان لیا کہ موصوف تخلیق کے درد سے بچ کر شاہکار جنم دینا چاہتے ہیں۔ ادب مانع تھا ورنہ میں ان سے کہتا کہ دردِ زہ برداشت کیے بغیر زندگی وجود میں نہیں آتی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ معاملہ کچھ ان کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں بطلِ حریت سمجھیں۔ ہماری عظمتِ کردار کے معترف ہوں۔ ہمارے نام پر مائیں بچوں کے نام رکھیں۔ اس کے لیے مگر کوئی قیمت ادا نہ کرنا پڑے۔ ہماری گود بھی ہری ہو جائے اور دردِ زہ کی کلفت سے بھی محفوظ رہیں۔ مجھے لگا میں راکھ کے ایک ڈھیر پر بیٹھا ہوں۔ اس کے کریدنے سے کچھ نہیں ملے گا۔
بہت دنوں بعد میرے یہ دوست تشریف لائے تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تخلیق کی خواہش سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں ان کی حوصلہ شکنی کا مرتکب ہوا۔ میں نے انہیں دلاسا دینا چاہا 'آپ نے علامتی افسانے کے بارے میں کچھ سنا ہے‘؟ میں نے سوال کیا۔ بولے: وہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: آپ لکھنے کے بعد اگر یہ دعا مانگیں کہ 'کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘ اور یہ دعا قبول ہو جائے تو اس لکھے کو علامتی افسانہ کہتے ہیں۔ یا کوئی نقاد آپ کے مرنے کے بعد اس میں سے معانی کا جہاں دریافت کر لے۔ ان کی آنکھوں میں پھر چمک پیدا ہوئی‘ اگرچہ یہ پہلے جیسی نہ تھی۔
میں نے حسبِ توفیق اپنی بات کی مزید شرح کی۔ بات کچھ ان کی سمجھ میں آئی اور کچھ نہیں۔ وہ جانے کے لیے اٹھے تو مجھے لگا کہ علامتی افسانہ ان کی گرفت میں نہیں آرہا۔ مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ شاہکار تخلیق ہو نہ ہو‘ اگر یہ آدمی اپنے جذبات کا اظہار نہ کر پایا تو اس کا دم گھٹ جائے گا۔ ایک خیال اچانک لپکا۔ میں نے انہیں روکا: ٹھہریں۔ ان کے قدم رکے اور انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں اب چمک نہیں‘ سوال تھا؛ میں انہیں اس کیفیت میں چھوڑ کر اپنی سٹڈی میں چلا گیا۔ واپس آیا تو وہ وہیں کھڑے تھے۔ 'اس میں آپ کے سوال کا جواب ہے‘۔ یہ کہتے ہوئے میں نے انتظار حسین کا افسانہ 'آخری آدمی‘ ان کی طرف بڑھا دیا۔
پس نوشت: کالم نگار اگر ابلاغ میں ناکام ہے تو اسے 'علامتی کالم‘ سمجھا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved