تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     12-09-2024

تشکّرِ ولادت سنّتِ مصطفیﷺ …(اول)

میلاد النبیﷺ کے معنی ہیں: ''آپﷺکی ولادت کا دن یا ولادت کا وقت‘‘ اور جائے ولادت کو ''مَولِد‘‘ کہتے ہیں۔ عربی زبان میں ولادتِ مصطفیﷺ کی خوشی منانے کو ''مَوْلُود النَّبِی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ الغرض رسول اللہﷺ کی ولادتِ مبارکہ کی خوشی منانا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانا خود رسول اللہﷺ کی سنتِ مبارکہ ہے۔ قرآنِ کریم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ''اُن پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کا وصال ہوگا اور جس دن انہیں زندہ اٹھایا جائے گا‘‘ (مریم: 15)۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خود اپنی ولادتِ باسعادت کا شکر بجا لانے کا ذکر قرآنِ کریم میں آیا ہے: ''مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میرا وصال ہوگا اور جس دن مجھے زندہ اٹھایا جائے گا‘‘ (مریم: 33)۔ الغرض انبیائے کرام کی ولادت باسعادت کے ایام پر اُن کی ذواتِ مقدسہ پر سلام بھیجنا سنتِ الٰہی اور سنتِ انبیاء ہے اور ہم بھی اسی سنت کو ادا کرتے ہوئے ولادتِ پاکِ مصطفی کے دن آپﷺ پر کثرت سے صلوٰۃ وسلام بھیجتے ہیں۔ سلام بھیجنا قرآنِ کریم سے ثابت ہے اور تشکرِ ولادت کے طور پر روزہ رکھنا خود سنتِ مصطفی ہے۔ بعض حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ میلاد النبیﷺ منانا بدعت ہے۔ یہ رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ ان کی خدمت میں ایک طویل حدیث کا ایک حصہ پیش کیا جاتا ہے: ''(آپﷺ کا معمول تھا کہ آپ ہر پیر کے دن نفلی روزہ رکھا کرتے تھے تو) آپﷺ سے پیر کے نفلی روزے کی بابت سوال ہوا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے کہ جس میں میری ولادت ہوئی اور اسی دن میری نبوت کا اعلان ہوا یا مجھ پر (پہلی وحیِ ربّانی) نازل ہوئی‘‘ (مسلم: 1162)۔ ظاہر ہے: آپﷺ اپنی ولادتِ باسعادت کا شکر بجا لانے کیلئے ہر پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : نبیﷺ نے فجر کی نماز کے وقت حضرت بلالؓ سے فرمایا: اے بلال! یہ بتاؤ کہ تم نے اسلام میں ایسا کون سا عمل کیا ہے جس کے ا جر کی تم کو سب سے زیادہ توقع ہے‘ کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہاری جوتیوں کی آواز سنی ہے‘ حضرت بلالؓ نے کہا: میرے نزدیک میرے جس عمل کے اجر کی زیادہ توقع ہے‘ وہ یہ ہے کہ میں دن اور رات میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے جتنی نماز میرے لیے مقدر کی گئی ہے‘ میں وہ نماز پڑھتا ہوں‘‘ (بخاری: 149)۔ حافظ ا بنِ حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ''اس حدیث سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ اپنے اجتہاد سے نفلی عبادت کا وقت معین کرنا جائز ہے‘ کیونکہ حضرت بلالؓ نے اپنے اجتہاد سے ہر وضو کے بعد نماز پڑھنے کا وقت معین فرمایا اور نبیﷺ نے اس کی تصویب و تصحیح فرمائی‘‘ (فتح الباری‘ ج: 3‘ ص: 34)۔ ہر وضو کے بعد نماز پڑھنے کو سنتِ بلالؓ کہتے ہیں‘ نبیﷺ نے اس کی تحسین فرمائی اور قیامت تک جتنے مسلمان ہر وضو کے بعد نماز پڑھنے کو معمول بنائیں گے اور ان کے اجر وثواب سے حضرت بلالؓ کو حصہ ملتا رہے گا۔
اسی طرح مسلمانوں نے میلاد النبی کی محافل منعقد کرنے کا طریقہ شروع کیا اور ان محافل میں آپﷺ کے فضائل اور محاسن اور آپﷺ کی سیرتِ طیبہ کا بیان کرنے کا اہتمام کیا اور ادب اور تعظیم سے کھڑے ہو کر آپﷺ پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کا طریقہ شروع کیا۔ اگرچہ نبیﷺ‘ خلفائے راشدین اور اخیار تابعین کے دور میں یہ طریقہ مروج نہ تھا‘ لیکن یہ تمام افعال نبیﷺکی تعظیم اور تکریم پر دلالت کرتے ہیں اور ہر وہ کام جو نبیﷺکی تعظیم و اجلال پر دلالت کرتا ہو‘ اس کا کرنا مستحسن اور باعث ثواب ہے‘ خواہ وہ نیا کام ہو۔ بعثتِ مصطفیﷺ ایک ایسی نعمتِ عظمیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بطورِ امتنان واحسان اس کا ذکر ان کلمات میں فرمایا: ''بیشک اللہ نے مومنوں پربڑا احسان فرمایا جب اُن کے درمیان انہی میں سے ایک رسولِ عظیم کو بھیجا جو اُنہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں‘ ان کے (ظاہر وباطن) کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘ اگرچہ وہ اس سے پہلے ضرورکھلی گمراہی میں تھے‘‘ (آلِ عمران: 164)۔ نیز اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یہ حکم بھی فرمایا: ''اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ (الضحیٰ: 11) کیونکہ نعمت پر شکر ادا کرنا نعمت میں زیادتی کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور اگر تم (میری نعمتوں) کا شکر ادا کرو گے تو میں تم پر اپنی نعمتوں کی فراوانی کروں گا‘‘ (ابراہیم: 7)۔ نیز فرمایا: ''اور اللہ کی اُس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر فرمائی‘ جبکہ تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے‘ تو اُس نے (نعمتِ بعثتِ رسول کی برکت سے) تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور اس کی نعمت کے سبب تم بھائی بھائی ہو گئے اور تم (جہنم کی) آگ کے گڑھے کے کنارے تھے تو اُس نے تمہیں (اس میں گرنے سے) بچا لیا‘‘ (آلِ عمران: 103)۔ یہاں مفسرین کرام نے ''نعمت‘‘ سے دینِ اسلام بھی مراد لیا ہے اور ذاتِ رسالت مآبﷺ بھی مراد لی ہے اور مندرجہ ذیل حدیث پاک میں بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ اس سے مراد رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔
''رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری مثال اُس شخص کی طرح ہے‘ جس نے آگ جلائی‘ پس جب آگ نے اردگرد روشن کر دیا تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ پر گرتے ہیں‘ وہ اس آگ میں گرنے لگے اور آگ جلانے والا انہیں اس میں سے نکالنے لگا مگر وہ پروانے اور کیڑے مکوڑے اس پر غالب آ گئے اور وہ آگ میں بھسم ہو گئے‘ پس میں (بھی) تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے نکال رہا ہوں اور تم اس آگ میں گرے جا رہے ہو‘‘ (بخاری: 6483)۔ امام احمد رضا نے اسی کیفیت کواشعار میں بیان کیا:آستینِ رحمتِ عالَم اُلٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے؍گرنے والوں کو چہِ دوزخ سے صاف الگ کھینچ لیا کرتے ہیں۔''چَہ‘‘ فارسی کے لفظ چاہ کا مخفف ہے اور اس کے معنی ہیں: ''کنواں یا گڑھا‘‘۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بعثتِ مصطفیﷺ عالَمِ انسانیت اور بطورِ خاص امتِ محمد مصطفیﷺ پر احسانِ عظیم اور نعمتِ عظمیٰ ہے اور یہ امر بھی مسلّم ہے کہ شکرِ نعمت واجب ہے۔ رہا یہ سوال کہ نعمتِ بعثتِ مصطفیﷺ کا شکر بجا لانے کا صحیح طریقہ کیا ہے‘ تو اس کی صورتیں بے شمار ہیں: آپﷺ کی محبت اوراطاعت واتباع بھی شکرِ نعمت کا سب سے بڑا مظہر ہے‘ آپﷺ کی ولادتِ باسعادت کے شکرانے کے طور پر نفلی روزہ رکھنا‘ نوافل پڑھنا‘ کثرت سے تلاوت ودرود واذکار وتسبیحات پڑھنا بھی شکرِ نعمت کی صورتیں ہیں۔ اپنی اپنی توفیقات کے مطابق صدقات دینا بھی شکرِ نعمت ہے اور حضرت یحییٰ وعیسیٰ علیہما السلام کی سنت کے مطابق صلوٰۃ وسلام پڑھنا بھی اس کی ایک صورت ہے۔ مزید یہ کہ آپﷺ پر درود بھیجنا اللہ تعالیٰ کی بھی سنتِ جلیلہ ہے اور اُس نے اہلِ ایمان کو کثرت سے صلوٰۃ وسلام بھیجنے کا حکم بھی فرمایا ہے۔ صلوٰۃ وسلام اپنی اصل کے اعتبار سے مشروع ہے‘ نماز میں درودِ ابراہیمی پڑھنا سنت ہے‘ اس کے علاوہ صلوٰۃ وسلام کے مخصوص کلمات متعین نہیں ہیں‘ ہر ایک اپنی سہولت کے مطابق پڑھ سکتا ہے۔ کھڑے‘بیٹھے‘ لیٹے اور چلتے پھرتے بھی صلوٰۃ وسلام پڑھا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں حالتِ قیام میں صلوٰۃ وسلام پڑھنا ایک شِعارِ ادب ہے‘ کوئی کھڑے ہوکر پڑھے تو سعادت ہے اور اگر کوئی کھڑے ہوکر نہ پڑھے تو کسی کو ملامت کرنے کا حق نہیں ہے‘ کیونکہ ملامت ترکِ واجب پر کی جاتی ہے‘ آداب ومستحبات کے ترک پر نہیں۔
اسی طرح تعظیم وتکریم کے طور پر جلوس نکالنا کہیں پر بھی منع نہیں ہے‘ لیکن یہ باوقار اور پاکیزہ ماحول میں ہونا چاہیے۔ سب لوگ باوضو ہوں‘ نماز کے وقت باجماعت نماز پڑھیں‘ ڈھول باجے اور تاشے نہ بجائے جائیں‘ اتنا شور وغوغا بھی نہ ہو کہ شرکائے جلوس کی حضوریِ قلب بھی نہ رہے‘ مرد وزن کا مخلوط اجتماع نہ ہو۔ اشیائے خوراک کی بے حرمتی بھی نہ ہو۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved