اُس دن میری زندگی میں ایسا انقلاب آیا جو آج تک زندگی میں رنگ پہ رنگ بھرے جا رہا ہے۔ زیست کی چاشنی ہو یا روح کی آزادی‘ معاشی آسودگی اور کچھ عزت‘ یہ اُس دن کے انقلاب کی بدولت ہے۔ ہماری چھوٹی سی بستی عین قدرتی جنگل کے وسط میں تھی۔ چند گھروں کے مشترکہ آنگن میں وَن کے بہت پرانے درختوں کی چھاؤں میں آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے چارپائیاں قریبی گھروں سے لائی جاتیں اور مٹی کے گھڑے کے ٹھنڈے پانی یا لسی سے تواضع کی جاتی۔ حال احوال کا تبادلہ ہوتا اور کام نمٹائے جاتے۔ تب چائے کی بیماری ہمیں لاحق نہیں ہوئی تھی اور نہ دیگر لوازمات‘ جو آج کل کھانے کی میزوں کو رونق بخشتے ہیں‘ کا اس گاؤں میں کسی کو علم تھا۔ سادہ سی زندگی‘ کھیتی باڑی‘ تجارت اور مال مویشی کی دیکھ بھال کے ذریعے اہلِ قریہ کی گزر بسر ہوتی تھی۔ یہ ہمارے ملک کی آزادی کے پہلے سات برسوں کا زمانہ ہے۔ اپنی سیاسی تاریخ کے حوالے سے جو تھوڑی بہت میری سمجھ بوجھ ہے‘ وہ یہ ہے کہ ان پہلے سات برسوں کو دیگر ستر برسوں سے الگ کرکے دیکھیں تو یہ ملک وہ نہ تھا جو سات برسوں کے بعد بنا‘ اور بنا کیا‘ بگڑتا ہی چلا گیا۔ میرے نزدیک آج بھی اگر ہم اُن اوائل کے سات برسوں کی طرف لوٹ جائیں تو جس طرح اُس ایک دن نے میری زندگی بدل ڈالی‘ پورے ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ یہ کوئی فرضی قصہ کہانی نہیں‘ ہماری ذاتی اور قومی سوانح حیات کا ایک سنہری ورق ہے۔
وَن کے درختوں کے گہرے سائے میں دو چارپائیاں تھیں‘ ایک پر دو اساتذہ صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس بستی کے دیگر افراد سے منفرد نظر آرہے تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ بستی کے سب بچوں کو ان کے سامنے لایا جائے۔ سب کو حاضر کر دیا گیا۔ اس زمانے میں اساتذہ کی قدر بھی تھی‘ مقام بھی اور حکم عدولی گناہ خیال کی جاتی تھی۔ ہم میں سے تین کا انتخاب ہوا جن میں یہ درویش عمر میں سب سے چھوٹا تھا‘ اور کہا گیا کہ ہم کل سے سکول آئیں گے۔ پرائمری سکول بستی سے تقریباً چار کلو میٹر کے فاصلے پر تھا یا شاید اُس سے بھی زیادہ‘ کہ وہ قصبہ جہاں ایک سو سال پہلے یہ سکول انگریز حکومت نے قائم کیا تھا‘ دریائے سندھ کی موسمیاتی طغیانی اسے بہا لے گئی۔ وہ منظر بھی ابھی تک یاد ہے‘ جب دریا کے کنارے آباد چھوٹا سا قصبہ بپھری ہوئی لہروں کی نذر ہوتے دیکھا تھا۔
ہمارے بزرگوں نے استادوں کے سامنے کئی بہانے گھڑے کہ بچے چھوٹے ہیں‘ سکول دور ہے‘ درمیان میں جنگل پڑتا ہے جس میں بھیڑیے بھی ہیں‘ اور پھر ہمارے جانوروں کا کیا بنے گا۔ میرے والد محترم کاروباری آدمی تھے۔ تجارت ان کا پیشہ تھا‘ جہاندیدہ تھے‘ قیامِ پاکستان سے قبل فریضۂ حج بھی ادا کر آئے تھے‘ اور واپسی ایک آزاد ملک میں ہوئی تھی۔ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو سکول بھیجنے پر راضی تو ہوئے مگر مشکل یہ تھی کہ وہ پیدل یہ سفر روزانہ کیسے کر سکے گا کہ وہ اکثر کاروبار کے سلسلے میں گھر سے باہر ہوتے تھے۔ محترم استاد کرم دین اور محترم سید کاظم حسین شاہ صاحب کا بارِ احسان صرف دعاؤں کی صورت ہی پورا کرنے کی سعی کر سکتا ہوں کہ وہ ہر صورت ہمیں سکول میں دیکھنے پر مُصر تھے۔ محترم شاہ صاحب‘ جو کچھ فاصلے سے اُس راستے سے آتے تھے‘ مجھے سائیکل پر بٹھا کر کچھ دن سکول لے گئے۔ وہ کمال کے لوگ تھے۔ نہ جانے وہ اپنے کمالات اپنے ساتھ ہی کیوں لے گئے‘ کہ بعد کے اساتذہ کی نسلیں‘ جن میں ہمارا شمار بھی ہوتا ہے‘ اُس جذبے سے محروم رہیں۔
آزادی کے ان مبارک برسوں میں تعلیم لازمی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی سکول جانے کی عمر کا بچہ گھر میں رہے گا‘ نہ مال مویشیوں کے ساتھ جائے گا۔ اسے سکول بھیجنا والدین کی ذمہ داری تھی۔ ایسا تو نہیں تھا کہ ہر بچہ تب سکول میں تھا‘ مگر والدین پر اساتذہ اور پولیس کا خوف ضرور تھا کہ اگر کسی نے شکایت کردی تو والدین کی تھانے میں طلبی ہو جائے گی اور بچے کو ہر صورت سکول میں داخل کرانا ہوگا۔ جہالت اور قبائلیت‘ جن میں جوہری طور پر فرق رکھنا ناممکن ہے‘ انسانوں کو روشنی کی طرف آنے سے روکتے ہیں۔ جاہلوں کو اپنی جہالت پر فخر کرتے بھی دیکھا ہے۔ ہم جب بستہ سر پر اٹھائے‘ لکڑی کی تختی ہاتھ میں لہراتے کہیں جانوروں کے ساتھ چرواہوں کے درمیان سے گزرتے تو وہ مذاق اڑاتے‘ زور زور سے تحقیر آمیز لہجے میں ہنستے۔ سکول میں ایسا دل لگا کہ پھر پوری زندگی‘ شکر ہے دبستانوں میں گزار دی۔ عمرکے اس حصے میں اکثر خیال اُس انقلابی دن کی طرف جاتا ہے کہ اگر تعلیم لازمی نہ ہوتی اور وہ اساتذہ زبردستی ہمیں سکول میں داخل کرنے پر مُصر نہ ہوتے تو زندگی کن راہوں پر گزرتی۔ اُن ابتدائی سات برسوں کی بات کرنے اور اس دور کو سنہری کہنے کی وجہ یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی تھی‘ آئین پر قومی مکالمہ تھا‘ اسمبلی میں پُر مغز بحثیں ہوتی تھیں‘ قوم بننے اور بنانے کا جذبہ تھا اور ملک کی باگ ڈور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ سیاستدانوں کی ایسی کھیپ تھی جن میں تدبر‘ بصیرت‘ شائستگی‘ روا داری اور اعلیٰ کردار کی صلاحیتیں نمایاں تھیں۔ انگریز دور میں آبادی کے لحاظ سے تعلیمی ادارے ملک کے ہر حصے میں موجود تھے اور تب سماجی تنظیموں اور معاشرتی تحریکوں کا ہدف اپنے لوگوں سے چندہ مانگ کر غریبوں اور عام شہریوں کے لیے سکولوں اور کالجوں کا قیام تھا۔ بڑے بڑے شہروں‘ قصبوں میں انجمنِ حمایتِ اسلام اور دیگر تنظیموں نے جو عملی میدان میں روایات اور ورثہ چھوڑا ہے‘ کاش ہم اسے آگے بڑھانے اور تعلیم سب کے لیے ایک جیسی ممکن بنانے کی سعی کرتے۔
یہ جو اعلان آپ نے تعلیم کو ہنگامی اہمیت دینے کے حوالے سے گزشتہ ہفتے سنا ہے‘ ایسے ہم اس تعداد میں سن چکے ہیں جتنی یہاں حکومتیں بنی ہیں۔ زیادہ زور تعلیم پر مزید پیسہ خرچ کرنے پر دیا جاتا ہے جس میں سے بہت بڑا حصہ‘ مبینہ طور پر‘ ہر صوبے میں مرکوز‘ اور پھر ہر ضلع کی سطح پر مربوط نوکر شاہی اور اس کے مبارک ہاتھوں میں منظم کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ کئی درجن تعلیمی پالیسیوں کی کھچڑی میں اب تو کوئی پالیسی اور منصوبہ منفرد انداز میں نظر نہیں آتا‘ اور نہ ہی اس کی کوئی سمت‘ منصوبہ بندی‘ قابلِ عمل اہداف اور تعلیمی میدان میں جذبوں سے معمور قیادت ہے۔ اعلان ہی اعلان ہیں‘ اور شعبدہ بازیاں۔ اگر ہم ان سات برسوں سے سیکھنا چاہیں تو اس نظام کے خدوخال پر نظر رکھنا ہوگی اور پھر دیگر حکومتوں کے کامیاب تجربوں سے استفادہ کرنا ہو گا۔ میرا خیال تعلیم کی ہنگامی اہمیت کے بارے میں تو یہ ہے کہ کل بلکہ آج سے کوئی بچہ اس سرزمین پر‘ اس میں افغان بھی شامل ہیں‘ سکول سے باہر نہیں ہو گا۔ یہ مفت لیپ ٹاپوں کی بارش اربوں روپوں میں‘ اور پھر سمارٹ فونوں کی نوجوانوں کو ترغیب‘ اور وہ بھی کروڑوں میں۔ اربوں تنوروں کو گرم رکھنے کے بہانے شکمی تنوروں اور سینکڑوں اربوں کے سرمائے سے گلی کوچوں کی بار بار ایک ہی مرمت کرنے سے صاف نظر آتا ہے کہ سرمائے کی کمی نہیں‘ یہ تو ہمارے حکمرانوں کے سیاسی شعور‘ قومی جذبے اور تعلیم کی اہمیت کے فقدان کا مسئلہ ہے۔ جب انہوں نے تعلیمی ادارے‘ رہائشی علاقے‘ ہسپتال اور تفریحی مقامات تک عام لوگوں سے علیحدہ کر لیے ہیں تو انہیں کیا فرق پڑتا ہے کہ غریبوں کے بچے سکول جاتے ہیں یا نہیں۔ پھر ان سکولوں کا معیار کیا ہے؟ دعا ہے کہ وہ انقلابی دن ہر بچے کی زندگی میں آئے‘ یہی تو حقیقی قومی سرمایہ ہے جو ہم ضائع کرتے آئے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved