اسلام آباد وفاقی دارالحکومت ہے۔ ملک کے جس بھی فرد‘ جماعت یا گروہ کو اپنے مطالبات منوانا ہوتے ہیں‘ وہ اس شہر کا رُخ کر لیتا ہے۔ اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنا سب کا آئینی حق ہے‘ جو انہیں ملنا چاہیے۔ ہر وہ انسان‘ جس کی شنوائی نہ ہو رہی ہے‘ احتجاج کا حق رکھتا ہے‘ تاہم موجودہ حکومت کی کسی بھی جماعت یا گروہ کی بات نہ سننے کی پالیسی کی وجہ سے اسلام آباد شہرِ اقتدار کے بجائے شہرِ احتجاج بن چکا ہے۔ اپنے مطالبات منوانے کیلئے ہر کوئی اس شہر میں دھرنے اور احتجاج کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ اُس پر مستزاد حکومت کی احتجاجیوں کو طاقت کے ذریعے منتشر کرنے کی پالیسی‘ حکومت نے پولیس کو فری ہینڈ دے رکھا ہے‘ وہ جس پر چاہے لاٹھی چلائے‘ جس پر چاہے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور جس کو چاہے پکڑ کر حوالات میں بند کر دے۔ رات کی تاریکی میں بلا وارنٹ کسی بھی شہری کے گھر میں گھس کر اُسے اُٹھا لے۔ پہلے ایسے واقعات چھوٹے صوبوں کے دور دراز علاقوں تک محدود تھے مگر اب ان کا دائرہ کار پنجاب اور وفاقی دارالحکومت تک پھیل چکا ہے اور اسلام آباد کے لوگ بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کسی دور میں مثالی پولیس ہوا کرتی تھی اوراس کی مثالیں دی جاتی تھیں مگر اب یہ بھی دیگر صوبوں کی پولیس کی طرح روایتی پولیس بن چکی ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد پولیس نے فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے پر سینیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کیا۔ بات یہاں تک نہیں رکی‘ دیگر مظاہرین پر بھی تشدد کیا گیا اور کئی افراد کو گرفتار کیا گیا۔ یہ سب پُرامن اور نہتے مظاہرین تھے۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک سمجھ سے باہر ہے۔ ہمارا ملک ایک مسلم ملک ہے‘ جسے ہم اسلام کا قلعہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں ہم محکوم اور مظلوم مسلم ریاستوں کے لیے آواز کیوں نہیں بلند کر سکتے؟
جس طرح عوام کے ووٹوں سے کھلواڑ ہوا‘ ان پر مہنگائی مسلط کی گئی‘ خواتین اور نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئیں‘ مجھے تو اب پاکستان کے عوام مظلوم لگنے لگے ہیں‘ پھر بھی یہ ہر ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں تو ایسی ہیں کہ جب چاہیں اسلام آباد کے کسی بھی حصے کو بند کر سکتی ہیں لیکن سول سوسائٹی کو یہ سہولت میسر نہیں۔ کچھ ہفتے قبل تو کئی جماعتوں کے کارکنان پارلیمان اور سپریم کورٹ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے‘ ان کو تو کسی نے ڈی چوک اور شاہراہِ دستور پر آنے سے بھی نہیں روکا۔ مگر جیسے ہی کوئی سیاسی جماعت یا گروہ احتجاج یا جلسے کا اعلان کرتا ہے‘ اُسے انتظامیہ کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے‘ کسی کی بات کرنے کی آزادی سلب نہیں کی جانی چاہیے۔ اپنے مطالبات کے حصول کے لیے ریلی نکالنا‘ پُرامن احتجاج یا جلسہ کرنا شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ عام شہری ویسے بھی پُرامن رہتے ہیں‘ وہ بس اپنے جائز مطالبات کے پورا ہونے کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ تاہم اگر یہ احتجاج سڑکوں کو بند کیے بنا ہو تو بہت ہی اچھا ہو۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان اور بنگلہ دیش کے ٹیسٹ میچوں کی وجہ سے جڑواں شہروں کی سڑکیں بند تھیں اور دوسری طرف مظاہرین نے سرینگر ہائی وے بند کررکھی تھی۔ اس دوران عوام کی جو خواری ہوئی‘ اس کا کرب بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ شاہراہِ دستور پر کنٹینر لگانے سے روزانہ ہزاروں گاڑیاں اس سڑک پر پھنس جاتی ہیں۔ قریب کسی پٹرول پمپ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ پانی اور باتھ روم جانے سے بھی عاجز ہوتے ہیں اور بے بسی کی تصویر بنے گاڑیوں میں قید رہتے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق حالیہ دنوں احتجاج کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنسی ایک معمر خاتون کو رفع حاجت کے لیے قریبی جھاڑیوں میں جانا پڑا۔ میں ایک عورت کی اس طرح تذلیل پر سخت زنجیدہ ہوئی۔ ٹریفک کا پلان مرتب کرنے اور شہر میں جگہ جگہ کنٹینر لگانے والے عوام کے بارے میں بالکل نہیں سوچتے کہ اس سے انہیں کتنی تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ اس کی ذمہ دار حکومت‘ شہری انتظامیہ اور ٹریفک پولیس ہے۔ اگر شہرِ اقتدار کو یوں روز روز بند کرنا ہے تو شاہراہوں پر عوام کے لیے کم از کم باتھ روم کی سہولت ہی مہیا کر دی جائے۔ مجھے نہیں لگتا کہ مستقبل میں بھی اسلام آباد میں حالات ٹھیک ہونے کی کوئی امید ہے۔
اگر پی ٹی آئی کے سنگجانی جلسہ کی بات کی جائے تو اُس روز حکومتی بوکھلاہٹ کا یہ عالم تھا کہ سارے اسلام آباد کو ایک قلعے کی طرح بند کر دیا گیا۔ ہر داخلی راستے پر کنٹینر لگے تھے۔ نہ شہری اسلام آباد سے باہر جا سکتے تھے‘ نہ ہی کوئی باہر سے اسلام آباد میں داخل ہو سکتا تھا۔ مجھے ان کنٹینرز سے شدید خوف آتا ہے۔ اگر انہیں ہٹاتے یا رکھتے ہوئے یہ راہگیروں پر گر جائیں تو کتنا زیادہ جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ جب بھی شہرِ اقتدار میں کوئی احتجاج ہوتا ہے تو سارا شہر محصور ہو کر رہ جاتا ہے۔ صرف شہر کے اوپر لینٹر ڈالنے کی کمی رہ جاتی ہے‘ شہریوں کو زندہ مقبرے میں قید کر کے باقی لوزامات تو پورے کر دیے جاتے ہیں۔
شنید ہے کہ سنگجانی جلسہ کے حوالے سے یہ حکم نامہ بھی جاری ہوا کہ جو لوگ باہر سے آ رہے ہیں ان کو یہاں رہائش نہ دی جائے اور نہ ہی کھانا پینا اور دیگر سہولتیں۔ جلسہ گاہ کے پاس ہوٹل اور ڈھابے وغیرہ بھی بند کرا دیے گئے۔ یہ بڑا عجیب حکم نامہ تھا کہ ملک کے دور دراز کے علاقوں سے آنے والے لوگوں کو رہنے اور کھانے پینے کی کوئی سہولت مہیا نہ کی جائے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا شہرِ اقتدار کے باسی اپنے آدابِ میزبانی بھول جائیں اور اپنے ہم وطنوں پر دروازے بند کر دیں‘ ہم نے تو یہ تربیت نہیں لی۔ ہم لوگ تو اپنے حصے کا کھانا بھی مہمانوں کو کھلا دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی والے کوئی غیر تو نہیں‘ پاکستانی ہی ہیں۔ اتنی رکاوٹوں کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد سنگجانی جلسے میں پہنچی۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد اس جماعت کے ہر جلسے میں موجود ہوتی ہے۔ بیشتر افراد میلوں پیدل چل کر پنڈال تک پہنچے۔ اتنے حبس‘ گرمی اور رکاوٹوں کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا ایک جگہ جمع ہو جانا یقینا بڑی بات ہے۔
تاہم دوسری طرف شہری راستے کھلنے کا انتظار کرتے رہے۔ جی 15‘ ڈی ایچ اے اور دیگر علاقوں کے رہائشی کنٹینرز کی وجہ سے اسلام آباد میں محصور ہو گئے تھے۔ سبھی لوگ جلسوں والے پر نہیں‘ حکومت اور انتظامیہ پر تنقید کررہے تھے کہ وہ رکاوٹیں رکھ کر شہریوں کی زندگی اجیرن کرتی ہیں۔ حکمرانوں کی کارکردگی متاثرکن تو کجا تسلی بخش بھی نہیں۔ اسی لیے ہلکی سی آہٹ پر بھی وہ بوکھلا جاتے ہیں۔ ان دنوں جو برسر اقتدار ہیں‘ کیا کل کو اقتدار سے محروم ہونے کے بعد وہ خود بھی ایسا رویہ برداشت کر پائیں گے یا پھر بیرونِ ملک چلے جائیں گے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ یہاں حالات کو بدلتے چند لمحے ہی لگتے ہیں۔
روز روز کے ٹریفک جام سے اسلام آباد کے لوگ غصے اور اُلجھن کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگر شہر میں کنٹینر نہ لگے ہوں تو وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے ٹریفک جام ہوا رہتا ہے‘ اور شہری بے بسی کی تصویر بنے دل میں نجانے کتنی بدعائیں دیتے ہیں۔ مگر کسی کو احساس ہی نہیں کہ سڑکیں بندکرنے سے شہریوں کو کتنی تکلیف پہنچتی ہے۔ لوگ اپنے دفاتر نہیں پہنچ پاتے‘ بچے سکول نہیں جا پاتے‘ مریض ہسپتال نہیں پہنچ پاتے‘ دیہاڑی دار روزی نہیں کما نہیں پاتے۔ تاجر‘ کاروباری حضرات‘ ملازمت پیشہ افراد سبھی ان حالات میں نقصان اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ شہرِ اقتدار کے باسی اب ذہنی اذیت اور کوفت کا شکار ہو چکے ہیں۔کوئی تو اسلام آباد کے شہریوں کو ان کنٹینروں کے عذاب سے نجات دلا دے۔ شاید اشرافیہ کے لوگ شاہراہِ دستور سے باہر نہیں جاتے اس لیے ان کو عوام کے حالات کا نہیں پتا۔ عوام اس افراتفری‘ انتقامی سیاست اور غیریقینی کی صورتحال سے عاجز آ چکے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved