تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-09-2024

عقلمندی کا تقاضا

قارئین! آپ اس گھس بیٹھئے کالم کو دیکھ کر نہ تو حیران ہوں اور نہ ہی پریشان۔ یہ کالم درمیان میں خواہ مخواہ کود پڑا ہے‘ تاہم قسط وار کالم '' بجلی کی کہانی‘‘ جاری ہے اور ان شاء اللہ اختتام تک پہنچے گی۔ ایسے بھی بجلی کی کہانی اس مملکتِ خداداد میں کم از کم گزشتہ تین عشروں سے جاری ہے اور اکنامکس کے ایک قاعدے کے مطابق '' اگر دیگر عوامل یکساں رہے تو‘‘ یہ کہانی ابھی مزید تین عشرے جاری رہے گی۔ اس سے پہلے اس کے ختم ہونے کے امکانات ممکنات میں دکھائی نہیں دیتے۔ اس لیے اگر کالموں کی سریز میں ایک آدھ دن کا وقفہ آ گیا تو اس کہانی کی صحت پررَتی برابر بھی اثر نہیں پڑے گا اس لیے نہ تو مجھے کوئی ایمرجنسی ہے نہ ہی آپ کو جلدی ہونی چاہیے۔
درمیان میں جو یہ اچانک والا کالم کود پڑا ہے تو اس کی وجہ دس ستمبر کو ہونے والا پارلیمنٹ کی ساکھ پر حملہ ہے‘ جسے بعض لوگ نو مئی سے جوڑ کر اس کو کمتر واقعہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اس سیاہ واقعے کا جواز فراہم کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ میں بارہا یہ کہہ چکا ہوں کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں ہوتی بلکہ یہ دو غلطیاں بن جاتی ہیں۔ ہماری سیاسی‘ اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی بربادی کی اگر بنیادی وجہ تلاش کی جائے تو وہ یہی نکلے گی کہ ہم نے ہر مرتبہ اپنی پہلی غلطی سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اسے جواز بنا کر نہ صرف اسے دہرایا بلکہ اس سے بڑھ کر گند مارا۔ وہ سانحہ مشرقی پاکستان ہو‘ بلوچستان پر ملٹری ایکشن ہو‘ آمروں کی حمایت ہو یا نظریہ ضرورت ہو۔ قومیں اپنی غلطیوں اور خطاؤں سے سبق سیکھتی ہیں۔ ہم نے پہلے ہونے والی اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کے بجائے انہیں جواز بنایا اور اس جواز کو مزید غلطیاں کرنے کیلئے دلیل کے طور پر استعمال کیا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم درستی اور اصلاح کی طرف جانے کے بجائے مزید تباہی اور بربادی کی طرف گئے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں‘ ملک کا حال آپ کے سامنے ہے۔
پارلیمنٹ کی بجلی بند کر کے نقاب پوشوں کی یلغار سے لے کر منتخب نمائندوں کی پارلیمنٹ کی حدود سے گرفتاری تک کے واقعے کے بعد سپیکر جناب ایاز صادق کی طرف سے پارلیمنٹ کی توقیر کیلئے کیے جانے والے اقدامات کی دھوم مچ رہی ہے اور ان پر داد کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں کہ انہوں نے اس واقعے پر بڑا اصولی مؤقف اختیار کیا ہے‘ تاہم ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اس عاجز کو ان کے پہلے ایکشن سے ہی اس ساری کارروائی کے انجام کا اندازہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے اُس رات پارلیمنٹ ہاؤس کی بجلی بند ہونے والے واقعے پر بہادری‘ دلیری‘ شجاعت‘ جوانمردی اور شیردلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو زوردار ایکشن لیا ہے اس پر مجھے مستقبل کے سارے منظر نامے کی تفصیلات نہ سہی ‘ مگر انجام ضرور معلوم ہو گیا ہے۔
ایسا پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ آدھی رات کو بجلی بند کرکے نقاب پوش پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوئے اور منتخب ارکانِ قومی اسمبلی کو اٹھا کر لے گئے۔ پارلیمنٹ کی بجلی بند کرکے رات کی تاریکی میں ہونے والی اس تاریک واردات پر سخت ایکشن لیتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق نے چار عدد منصوبہ ساز ملزمان کو فوری طور پر سی ڈی اے بھجوا دیا ہے۔ سی ڈی اے کے ان چار اعلیٰ سطح کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں میں مظفر حسین الیکٹریشن‘ ظہیر عباس الیکٹریشن‘ ذوالفقار علی جنریٹر آپریٹر اور ارشد کھوکھر فائر الارم آپریٹر شامل ہیں۔
دنیا بھر میں نچلے درجے کے ملازمین عوام کی خدمت اور سہولت کیلئے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں نچلے درجے کے ملازمین وزیروں‘ مشیروں‘ بڑے طاقتور افسروں اور لوگوں کو بچانے کیلئے قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ایک لڑکی کسی طور شادی پر راضی نہیں تھی۔ اس کا مؤقف تھا کہ میں خود مختار ہوں اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے بسر کر رہی ہوں۔ میرے پاس نہایت شاندار نوکری ہے‘ گھر ہے‘ گاڑی ہے‘ بنگلہ ہے‘ میری زندگی نہایت سہولت اور مزے سے گزر رہی ہے۔ نہ کسی کی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ کسی کی محتاجی ہے۔ اتنی آئیڈیل صورتحال میں مجھے شادی کر کے بھلا خاوند کی طرف سے متوقع پابندیوں اور پوچھ تاچھ کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے والدین نے اسے سمجھانے کی بڑی کوشش کی مگر وہ لڑکی پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتی تھی۔ تنگ آ کر لڑکی کے والد نے اپنے ایک ملنے والے نفسیاتی علاج کے ماہر ڈاکٹر سے بات کی اور لڑکی کو اس ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔ ڈاکٹر نے تھوڑی دیر اس سے گفتگو کرنے کے بعد اندازہ لگایا کہ لڑکی بہت زیادہ خود پسند ہے اور اپنی ذات پر بہت زیادہ اعتماد اور اعتبار کی حامل ہونے کے ساتھ اپنے آپ کو ایسا پرفیکٹ خیال کرتی ہے جس سے کسی قسم کی غلطی ہونے کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہو۔ڈاکٹر نے اُس سے کہا کہ آخر اس سے بھی کبھی کبھار کوئی غلطی تو ہوتی ہوگی؟ لڑکی نے تھوڑی دیر رک کر کہا: ہاں! اس سے کبھی کبھار کوئی غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ ڈاکٹر نے مزید استفسار کیا کہ جب ایسی کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو وہ اس غلطی کا الزام کس کے سر دھرتی ہے۔ لڑکی نے کہا: وہ اپنی اس غلطی کا ذمہ دار کسی نہ کسی کو تو ٹھہرا ہی دیتی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا: کیا مناسب نہیں کہ وہ اپنی ایسی کبھی کبھار ہونے والی غلطیاں کسی کے ذمہ لگانے کیلئے کوئی مستقل بندہ رکھ لے۔ لڑکی خوش ہو کر کہنے لگی کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ ڈاکٹر کہنے لگا: اپنی غلطیاں کسی اور کے سر ڈالنے کیلئے خاوند سے بہتر اور کوئی شخص نہیں ہوتا لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ شادی کی جائے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد لڑکی نے فوراً ہی شادی کرلی۔
ہمارے ہاں بھی چھوٹے درجے کے ملازمین بڑے افسروں کی غلطیاں بھگتانے کیلئے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ ٹرین کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو کانٹے والا یا گیٹ کیپر معطل ہوتا ہے۔ ہسپتال میں دوائیاں غائب ہو جائیں تو جونیئر کلرک فارغ کردیا جاتا ہے۔ گندم کی ایکسپورٹ اور پھر دوبارہ امپورٹ کے چکر میں ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو جائے تو محکمہ قرنطینہ کے کسی افسر کو بلی چڑھا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ رائٹ سائزنگ یا ڈاؤن سائزنگ کی مہم چلے تو بھی گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین پر نزلہ گرتا ہے۔ گریڈ بیس بائیس والوں کے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیا جاتا۔ ہم نے آج تک اس ملک میں کسی وزیر کو‘ کسی مشیر کو‘ کسی بڑے افسر کو استعفیٰ دیتے یا معطل ہوتے نہیں دیکھا۔بندہ پوچھے کیا سی ڈی اے کے ان چھوٹے چھوٹے ملازمین نے پارلیمنٹ ہاؤس کی بجلی بند کرنے کا فیصلہ اپنی مرضی سے کیا ہو گا؟ کیا پارلیمنٹ کی بجلی بند کرکے نقاب پوشوں کو اندر بلانے کا اجازت نامہ ان چارسی ڈی اے ملازمین میں سے کسی نے جاری کیا ہوگا؟ سپیکر صاحب! اگر ایکشن لینا ہے تو ان کے خلاف لیں جنہوں نے بجلی بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے خلاف کچھ کریں جنہوں نے پارلیمنٹ کا تقدس پامال کیا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے ذاتی طور پر گزشتہ کئی عشروں سے پارلیمنٹ کی حاکمیتِ اعلیٰ اور خود مختاری پر نہ تو اعتبار ہے اور نہ ہی کوئی یقین ہے مگر یہ خود پارلیمنٹیرینز ہی ہیں جو اسے سپریم سمجھتے ہیں اور اس کو باعثِ تکریم خیال کرتے ہیں۔ اب معاملہ اپناآن پڑا ہے تو بجائے کھڑا ہونے کے اس واقعے کا تقابل نو مئی سے کرکے اپنی عزت بچانے کے چکر میں اپنی عزت خراب کرنے پر آ گئے ہیں۔
شاہ جی سے پوچھا کہ ان کے خیال میں کیا ہوگا؟ شاہ جی کہنے لگے: اس ملک میں کمیٹیاں معاملے پر مٹی ڈالنے اور ملبہ چھوٹے عملے پر گرانے کیلئے بنائی جاتی ہیں‘ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ بڑے گھر والوں کا معاملہ ہو تو عقلمندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ عزت بنانے کے چکر میں بندہ اپنی عزت سے بھی جائے تو اسے عقلمندی نہیں‘ حماقت کہا جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved