نزولِ نعمت کے دن کو عید قرار دینا قرآنِ کریم سے ثابت ہے: ''عیسیٰ ابن مریم نے عرض کیا: اے اللہ! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے تیار خوانِ نعمت نازل فرما‘ جو ہمارے اگلوں اور پچھلوں کیلئے ''عید‘‘ ہو جائے اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے‘‘ (المائدہ: 114)۔ اس آیتِ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ''خوانِ نعمت‘‘ کے نزول کے دن کو یومِ عید قرار دیا اور قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کے ضمن میں اسے بیان فرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ نزولِ نعمت یا حصولِ نعمت کے موقع کو عید سے تعبیر کر سکتے ہیں اور اسی حوالے سے سعودی عرب میں ملک عبدالعزیز کی بادشاہت کے قیام کے دن کو ''عیدُ الوَطَنی‘‘ کہا جاتا ہے اور سعودی عرب کے علما سمیت کسی نے بھی اسے بدعت سے تعبیر نہیں کیا۔ بعض حضرات کہتے ہیں: وہ تو دنیاوی معاملہ ہے‘ جبکہ میلاد النبیﷺ کو دین کا شِعار سمجھ کر کیا جاتا ہے‘ اس لیے اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہم بیان کر آئے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی ولادتِ مبارکہ اور بعثت کے دن کا شکر روزہ رکھ کر ادا کرتے تھے اور رسول اللہﷺ کا فعل شِعارِ دین ہی قرار پائے گا‘ کیونکہ اس نعمت کا تعلق دین سے ہے۔ درج ذیل احادیثِ مبارکہ میں عیدین کے علاوہ بھی تصورِ عید موجود ہے: (1) ''رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: یومِ جمعہ عید کا دن ہے‘ سو اپنی عید کے دن روزہ نہ رکھو‘ سوائے اس کے کہ اُس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کو ملا کر رکھو‘‘ (المستدرک: 1595)۔ (2) ''بیشک جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے عید کا دن بنایا ہے‘ پس جو شخص جمعہ کی نماز کیلئے آئے تو وہ غسل کر کے آئے‘ خوشبو میسر ہو تو خوشبو لگا کر آئے اور تم پر مسواک کرنا لازم ہے‘‘ (ابن ماجہ: 1098)۔ (3) سورۃ المائدہ کی تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ کی تکمیل اور اپنی نعمت کے پوراہونے کا اعلان فرمایا ہے‘ اس آیت کے حوالے سے ایک یہودی شخص نے حضرت عمرؓ سے کہا: ''امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم (یہود) پر اُترتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو عید کا دن بنا لیتے‘‘ آپؓ نے پوچھا: ''تم کس آیت کی بابت بات کر رہے ہو‘‘ اس نے کہا: ''(ترجمہ) آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا‘‘ (المائدہ: 3) حضرت عمرؓ نے فرمایا: جس دن اور جس جگہ یہ آیت نبی کریمﷺپر نازل ہوئی‘ ہم اس کو پہچانتے ہیں‘ آپﷺ اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے‘‘ (بخاری: 45)۔ حضرت عمرؓ نے بھی اس یہودی کی تردید کرنے کے بجائے اس کی توثیق کرتے ہوئے اُسے یہ باور کرایا کہ یہ آیت جس دن نازل ہوئی‘ وہ جمعہ اورعرفہ کا دن تھا اور یہ دونوں دن مسلمانوں کیلئے عید کے دن ہیں۔ ان تمام احادیث میں خود رسول اللہﷺ نے یومِ جمعہ کو یومِ عید قرار دیا ہے‘ لہٰذا یہ کہنا کہ اسلام میں عیدین کے علاوہ کسی اور دن پر عید کے اطلاق کا کوئی تصور نہیں ہے‘ درست نہیں۔
قرآن وسنت اور فقہائے کرام کی آرا کے مطابق احکام میں اصل اباحت ہے اور قرآن وسنت میں جن کاموں کو فرض‘ واجب‘ حرام یا مکروہ نہیں قرار دیا گیا‘ اُن کے کرنے نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺ اور دیگر مشاہیرِ اسلام کے فضائل اور سیرت کی مجالس کا انعقاد‘ آپﷺ کی میلاد پر خوشی کا اظہار‘ صدقہ وخیرات اور دیگر عبادات کا نبیﷺ‘بزرگانِ دین اور اپنے رشتے داروں کو ایصالِ ثواب‘ انفرادی واجتماعی طور پر صلوٰۃ وسلام کا اہتمام‘ تراویح میں باجماعت قرآنِ مجید کا ختم‘ کتب خانوں کا قیام‘ وسیع وعریض مساجد کی تعمیر‘ مسجدوں میں مینار اور گنبدکی تعمیر‘ وعظ ونصیحت کیلئے جلسوں کا انعقاد‘ نبی کریمﷺ اور صحابہ کے ایام میں جلوس کا اہتمام اور ان کے ذکر کی مجالس کا قیام‘ دینی مدارس کے سالانہ جلسوں کا قیام‘ افتتاح و ختمِ بخاری کا اہتمام‘ مُصحفِ مبارک میں سورتوں کے نام‘ آیات کی علامات اور اِعراب بعد میں لگائے گئے‘ نیز قرآن وحدیث کو سمجھنے کیلئے تمام معاون علوم بعد میں ایجاد اور مُدَوَّن ومُرتّب ہوئے‘ دینی تعلیم کیلئے رسمی مدارس کا قیام‘ دینی کتب کی جدید انداز میں نشرو اشاعت کا انتظام اور کسی نظریے سے وابستگی کے اظہار کیلئے یا کسی غلط بات کے ردّ اور اس پراحتجاج کرنے کیلئے جلوس نکالنے کی روایت کا قیام‘ تقریباً تمام مکاتبِ فکر نے دینی مقاصد کیلئے جلوس نکالے‘‘ مثلاً شوکتِ اسلام‘ نفاذِ شریعت‘ تحفظِ ختمِ نبوت‘ ناموسِ رسالت‘ یومِ صدیق اکبرؓ‘ یومِ عمر فاروقؓ اور عظمتِ صحابہ کے نام پر جلوس نکالے جا رہے ہیں اور یہ تمام چیزیں دین اور مقاصد دین سے تعلق رکھتی ہیں اور انہیں اس دور میں قبولِ عام حاصل ہو چکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرونِ اُولیٰ میں میلاد النبیﷺ کے عنوان سے جلوس نکالنا ثابت نہیں ہے‘ لیکن روایات سے ثابت ہے کہ مختلف مواقع پر مدینۂ منورہ میں آپﷺ کی آمدِ مبارک پر اہلِ یثرب نے اُس وقت کے حالات کے مطابق جلوس نکالا۔ وہ روایات درج ذیل ہیں:
(1) امام بیہقی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کرتے ہیں: ''جب نبی کریمﷺ (ہجرت کر کے) مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس موقع پر مدینہ طیبہ کے مرد وخواتین اوربچے آپﷺ کے استقبال کیلئے مدینہ طیبہ سے باہر ثنیۃ الوداع کے مقام پر جمع ہوئے اور ترنم کے ساتھ یہ اشعار پڑھے:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاع
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلَّہِ دَاع
ترجمہ: ''وَداع کی گھاٹیوں سے ہم پر بدرِ کامل طلوع ہوا‘ ہم پر شکر بجا لانا واجب ہوا‘ جب تک اللہ کیلئے کوئی دعوت دینے والا دعوت دیتا رہے‘‘ (دلائل النبوۃ‘ ج: 2‘ ص: 506)۔ (2) ''حضرت سائبؓ بن یزید بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہﷺ تبوک سے واپس آئے تو لوگ آپ کا استقبال کرنے کیلئے ثنیۃ الوداع کی طرف گئے‘ پس میں بھی لوگوں کے ساتھ نکلا اور میں اس وقت کم سن لڑکا تھا‘‘ ( ترمذی: 1718‘ بخاری: 3083)۔ اسی طرح بعض روایات میں ہے: اس موقع پر بھی کم عمر بچے اور بچیوں نے ثنیۃ الوداع کے مقام پر نبی کریمﷺ کا استقبال کرتے ہوئے مذکورہ اشعار کہے تھے۔ نیز حدیث پاک میں ہے: ''حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں: جب نبیﷺ (ہجرت کے موقع پر) بنونجار کے علاقے سے گزرے تو بنو نجار کی بچیاں دف لیے ہوئے یہ اشعار پڑھ کر آپﷺ کا استقبال کر رہی تھیں:
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ؍ یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارِ
ترجمہ: ''ہم بنو نجار کی بچیاں ہیں‘ محمدﷺ! آپ کتنے بہترین پڑوسی ہیں‘‘۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ جانتا ہے (جس طرح تم مجھ سے محبت کرتی ہو‘ اسی طرح) میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں‘‘ (ابن ماجہ: 1899)۔ یہ مذکورہ احادیث ہمارے ہاں جلوس میں ذکر واذکار اور ان نعتوں کے جواز پر دلیل ہیں۔
اسی طرح ہمارے ملک میں وفاقی وصوبائی دارالحکومتوں میں میلاد النبیﷺ کی ابتدا اکیس توپوں کی سلامی سے کی جاتی ہے‘ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے: ''حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہﷺ (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو حبشیوں نے آپﷺ کی آمد کی خوشی میں اپنے نیزوں کے ساتھ جنگی فن کا مظاہرہ کیا‘‘ (سنن ابودائود: 4923)۔ اسی شِعار کو آج کل Gaurd of Honor کہا جاتا ہے۔ نیز رسول اللہﷺ نے اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے اُس مرحلے کا ذکر فرمایا: جب بنی آدم محشر میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو اُن کا قائد میں ہوں گا‘ جب جلالِ الٰہی کے آگے سب مہر بہ لب ہوں گے تو ان کا ترجمان میں ہوں گا‘ جب سب کو محشر میں روک دیا جائے گا تو وسیلۂ شفاعت میں بنوں گا۔ پھر آپﷺ نے پورا منظر بیان فرمایا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved