ایس ایم اشفاق ایک بڑے بزنس مین ہیں۔ چنیوٹ میں پیدا ہوئے‘ میٹرک کے بعد ڈھاکہ جا بسے‘ وہیں تعلیم پائی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کا ذائقہ بھی چکھا۔ وہیں کاروبار کو وسعت دی‘ یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ ہی بھارتی قید نصیب ہو گئی۔ جنگی قیدی بنا کر اُنہیں بھارتی کیمپوں میں پہنچا دیا گیا‘ رہائی نصیب ہوئی تو واپس مغربی پاکستان پہنچ گئے‘ جو اب پاکستان کہلاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو کام میں لائے‘ اور کاروبار پھر جم گیا۔ بہت کچھ کمایا لیکن اپنے قومی فرائض سے غافل نہیں رہے۔ پاکستان کے لیے سوچتے اور پاکستانیوں کی خدمت میں لگے رہے۔ رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور کم وسیلہ لوگوں اور اداروں کی خدمت میں خوشی ڈھونڈتے ہیں۔ سماجی شعبہ ان کے وجود سے جگمگ جگمگ کر رہا ہے۔ پاکستان کو آگے بڑھانے اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے ''تعمیر پاکستان گروپ‘‘ بنایا‘ اس کے مختلف اجلاسوں میں مختلف شعبوں کے ماہرین کو مدعو کرتے‘ اور اُن کے خیالات سنتے رہے۔ ہم خیال افراد کا ایک بڑا گروپ جُڑ گیا۔ انہی خیالات کو اُنہوں نے اب کتابی شکل دے ڈالی ہے۔ پروفیسر مرزا محمد منور کے ''خلیفہ مجاز‘‘ پروفیسر یوسف عرفان کی معاونت سے ''تعمیرِ وطن کی راہیں‘‘ کے زیر عنوان انہیں یک جا کر دیا ہے۔ ورق گردانی کرتے ہوئے ''ہمیں ایک لیڈر چاہیے‘‘ کے زیر عنوان تحریر نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ آپ بھی اس کا لطف اٹھایے:
''سنگاپور 1965ء تک ملائیشیا کا انتہائی پسماندہ علاقہ تھا۔ زمین دلدلی‘ ویران اور بنجر تھی‘ لوگ سست‘ بے کار اور نالائق تھے۔ یہ صرف تین کام کرتے تھے۔ بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے۔ چوری چکاری کرتے تھے۔ بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھاتے تھے اور بس۔ ملائیشیا ان سے بہت تنگ تھا۔ بڑا مشہور واقعہ ہے‘ تنکو عبدالرحمن کے دور میں سنگاپور نے آزادی مانگی تو پارلیمنٹ کے کل 126 ارکان نے سنگاپور کے حق میں ووٹ دے دیے۔ بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کا کہنا تھا ہم نے ان بے کار لوگوں اور دلدلی زمین کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے اور یوں سنگاپور آزاد ہو گیا۔ یہ قدرت کی طرف سے سنگاپور کے لیے پہلا تحفہ تھا۔
دوسرا تحفہ اللہ تعالیٰ نے اسے 'لی کوآن یو‘ کی شکل میں دیا‘ لی کوآن سنگاپور کے وزیراعظم بنے اوران دلدلی زمینوں کا مقدر بدل کر رکھ دیا۔
سنگاپور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام عالم کو بتایا کہ ملکوں کے لیے وسائل نہیں 'قوتِ ارادی‘ ضروری ہوتی ہے۔ ملکوں کو آبادی‘ ہنر مندی‘ رقبہ اور تیل بھی درکار نہیں ہوتا۔ ان میں بس آگے بڑھنے کا عزم ہونا چاہیے۔ انہوں نے پانچ اہم کام کیے۔
٭ پہلے ملک میں امن قائم کر دیا‘ مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیا‘ آپ مسلمان ہیں یا سکھ‘ عیسائی‘ بدھ یا ہندو کسی کو کوئی غرض نہیں‘ مسجد کے ساتھ چرچ‘ مندر اور ٹیمپل بنا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ کوئی شخص‘ کسی شخص کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں اٹھائے گا۔ قانون کی نظر میں سب کو برابر کر دیا‘ ملک میں کوئی کلاس کلچر نہیں تھا۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں تھی‘ سب برابر تھے اور ہیں۔
٭ ملک میں ہر قسم کے احتجاج پر پابندی لگا دی۔ سڑکیں‘ گلیاں اور بازار ہر قیمت پر کھلے رہیں گے اور کوئی شخص کسی کے لیے سکیورٹی رسک نہیں بنے گا۔
٭ چُن چُن کر اہل اور ایماندار لوگ اہم عہدوں پر تعینات کر دیے اور اُنہیں کام کرنے کا بھرپور موقع دیا۔ لوگ آج بھی تیس تیس سال سے اپنے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ لی کوآن یو کے ڈیڑھ درجن منسٹر اور بیورو کریٹس کرپشن کے الزام کے بعد خودکشی کر گئے۔ حکومت اہل لوگوں کو دوسرے ملکوں سے بھی بھرتی کر لیتی تھی۔ سابق صدر ممنون حسین نے ایک بار بتایا‘ میں 1999ء میں گورنر سندھ تھا‘ لی کوآن یو دورے پر آئے‘ میں نے اُنہیں کھانے پر بلایا‘ دعوت کے دوران میں نے اُن سے کہا: ہم کراچی پورٹ کو بھی سنگاپور پورٹ کی طرح ڈویلپ کرنا چاہتے ہیں آپ ہمیں کوئی ٹپ دیں۔ میری بات سن کر ''لی کوآن یو‘‘ دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے: آپ کیپٹن سعید سے رابطہ کریں۔ یہ پاکستانی بھی ہیں اور کراچی کے شہری بھی‘ ہم نے اُن کی مدد سے سنگاپور پورٹ ڈویلپ کی تھی‘‘۔ ممنون حسین یہ سُن کر شرمندہ ہو گئے اور دیر تک لی کوآن یو کی طرف دیکھتے رہے۔
٭ لی کوآن یو نے اپنا ملک پوری دنیا کے بزنس مینوں کے لیے کھول دیا۔ کوئی کہیں سے بھی آ سکتا تھا اور ملک میں کام کر سکتا تھا‘ بس ایک شرط تھی۔ اس کے پاس پیسہ اور تجربہ ہونا چاہیے۔ مثلاً بھارت کے ایک مسلمان مشتاق احمد نے 1971ء میں سنگاپور میں المصطفیٰ سٹور بنایا۔ یہ اب ایک طویل کمپلیکس بن چکا ہے۔ مشتاق احمد نیک نیت بزنس مین ہے‘ منافع کم اور کوالٹی زیادہ پر یقین رکھتا ہے‘ لہٰذا یہ اب تک کھرب پتی بن چکا ہے اور کسی نے آج تک اُسے تنگ نہیں کیا اور یہ یہاں اکیلا نہیں ہے‘ ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں اور ہر شخص نے مشتاق احمد کی طرح ترقی بھی کی اور دوسروں کے لیے روشن مثال بھی بنا۔
٭ لی کوآن یو نے تعلیم اور ہنر پر خصوصی توجہ دی‘ سنگاپور کے تعلیمی ادارے محض تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ یہ ہنرمند اور اہلیت کی لیبارٹریاں ہیں لہٰذا یہاں جہاں ایک طرف 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہاں یہ ہنرمند بھی ہیں۔ یہ خود بھی کما رہے ہیں اور ملک کو بھی کما کر دے رہے ہیں۔ پوری قوم کو تہذیب بھی سکھا دی‘ اس کا آغاز شخصی صفائی سے کیا گیا۔ لوگوں کو ٹائلٹ استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا گیا۔ ملک میں مسلم شاور اور ٹائلٹ پیپر لازمی قرار دے دیا گیا۔ ہاتھوں کی صفائی کو قانون بنا دیا۔ تھوکنے پر پابندی لگا دی۔ سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آج بھی آپ اگر کسی سڑک یا عوامی جگہ پر تھوکنے و پان کی پیک گراتے یا ناک صاف کرتے پکڑے جائیں تو آپ سیدھے جیل جائیں گے۔ لہٰذا آپ کو پورے ملک میں کوئی شخص گلا صاف کرتا یا تھو تھو کرتا دکھائی نہیں دے گا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس پابندی کے بعد اب سنگاپور کے لوگوں میں تھوکنے کی خواہش ہی ختم ہو گئی ہے۔ لی کوآن یو کا خیال تھا سگریٹ‘ پان اور چیونگم گند پھیلاتے ہیں لہٰذا ان پر بھی پابندی لگا دی۔ سنگاپور میں سگریٹ بہت مہنگا ہے اور پینے کے لیے جگہیں بھی مختص ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے علاوہ کسی جگہ ہاتھ میں ڈبی یا سگریٹ پکڑ کر کھڑا ہو تو اُسے پولیس پکڑ لیتی ہے۔ چیونگم پر آج بھی پابندی ہے۔ آپ ملک میں چیونگم لا بھی نہیں سکتے۔
٭ لی کوآن یو نے پورے ملک میں انفراسٹرکچر کا جال بچھا دیا۔ سنگاپور میں ہائی ویز‘ میٹروز اور پُل اس وقت بنے جب مشرق میں ان کا تصور بھی نہیں تھا۔ پورے ملک میں پینے کا صاف پانی حکومت سپلائی کرتی ہے‘ آپ کسی بھی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں۔
٭ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا تصور تک نہیں‘ تاہم وسائل کی بچت ضرور کی جاتی ہے۔ فالتو لائٹ اور جلتا ہوا چولہا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ خدا کی پناہ 683 مربع کلومیٹر کے سنگاپور کے زرِمبادلہ ذخائر اڑھائی سو بلین ڈالر ہیں اور ہم ''سونے کی چڑیا‘‘ اور ایک ''ایٹمی طاقت‘‘ ہوتے ہوئے‘ ایک ایک بلین کے لیے ''کشکول‘‘ لیے پھر رہے ہیں۔
ہے کوئی جو ایسا بن سکے‘ قوم کا لیڈر کہلا سکے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved