کھلواڑ جو ہماری مملکتِ خداداد کا ہو چکا ہے اورمزید ہوتا جا رہا ہے اُس کا اثر ہر شعبے اور ہر علاقے پر پڑ رہا ہے۔ چھوٹے شہر کے رہنے والے ہیں اور یہاں کے مشاہدات تو آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ہمارے انتظامی امورکب مثالی ہوا کرتے تھے لیکن اب جو حال ہو گیا ہے اُس کی نظیرکم ازکم ہمارے جیسے گناہگاروں نے نہیں دیکھی۔ محکمہ مال اور تھانے بالکل آؤٹ آف کنٹرول ہیں‘ کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ دیہاڑیاں صرف نیچے والے نہیں لگا رہے‘ دیہاڑیوں کی مثال اوپر سے قائم ہو رہی ہے۔ سڑک کا ایک بڑا ٹینڈر ہو‘ محکمہ مال کے ایک بڑے افسرکے ہاتھوں ٹھیکیدار صاحب شیرینی پیش کر رہے ہوں‘ خبر تو پھر پھیل جانی ہے۔ اور جس ٹینڈر کی بات کر رہا ہوں اُس کی خبر خاصی پھیل چکی ہے۔ یہاں شرم تو کسی کو آنی نہیں لہٰذا شرم کو چھوڑیے۔ لیکن لگتا ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں کیونکہ جو اوپر بیٹھے ہیں اُن کا دھیان بھی ایک ہی طرف لگا ہوا ہے کہ ناپسندیدہ جماعت کو کیسے نکیل ڈالنی ہے۔ اور نیچے موجیں لگی ہوئی ہیں۔
ہمارے ایک قانون دان دوست نے اگلے روز یہ چند سطور پوسٹ کیں: ''چکوال پولیس کرپشن کے نئے ریکارڈ۔ اعلیٰ افسر کا سسر جہلم میں بیٹھ کر کام کرواتا ہے اور تگڑی رقم لیتا ہے جبکہ چکوال کے امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ اس اوپن سیکرٹ کو جانتے ہوئے بھی کوئی شخص بولنے کو تیار نہیں ‘‘۔ جس بات کا اس پوسٹ میں اشارہ کیا گیا ہے چکوال کے تمام باخبر حلقوں کے علم میں ہے۔ اب تو راز بھی نہیں رہا‘ تھانوں سے متعلق جن کا کوئی کام پڑے‘ کھلے عام کہتے ہیں کہ کچھ کروانا ہے تو بات جہلم میں ہی طے ہو گی۔ باخبرحلقے تو ایک طرف رہے‘ چکوال کا ہر پولیس والا جہلم کی اس حوالے سے روحانی قدر ومنزلت کو جانتا ہے۔ آر پی او سمجھتے ہوں گے کہ چکوال کا رینج ہیڈ کوارٹر راولپنڈی ہے حالانکہ چکوال والے جان چکے ہیں کہ اس وقت چکوال کا اصل رینج ہیڈ کوارٹر جہلم ہے۔ ملکی سطح پر جتنی شہرت جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے ایک اور سسر کو تھی‘ چکوال کی سطح پر ایسی ہی شہرت ان سسر صاحب کی ہے۔ جرائم کی دنیا میں دلچسپی رکھنے والوں کو بھولا سنیارا کا نام یاد ہو گا۔ سیالکوٹ کا رہائشی تھا اوراپنے زمانے میں بہت نام پیدا کیا۔ جرائم سے ہٹ کر آج کل جہلم میں مشہوری کسی اور سنیارے کی ہے۔ تحقیق کر لیں۔
مزے کی ایک اور بات کہ جس فقید المثال پولیس افسر کی اشارتاً بات ہو رہی ہے اُس کے بارے میں لوگ ہنس کے کہتے ہیں کہ دفتر میں قرآن خوانی کراتا ہے۔ الیکشن کے موسم میں جب پولیس کچھ زیادہ ہی مستعدی دکھا رہی تھی اور راتوں کو ناپسندیدہ جماعت سے تعلق رکھنے والوں کے دروازوں پردستک دینے کا شوق ختم نہیں ہو رہا تھا تو ایک دن مجھ سے رہا نہ گیا اور انہی صاحب کے دفتر جا کر کہا کہ قرآن والی بات بہت اچھی ہے لیکن قرآن کا کچھ اثر تواپنے پر لیں۔ آگے سے جواب کیا دینا تھا‘ گم سم ہوکے دیکھتا رہا۔
ضلعوں میں دو تین افسر ہی اہم ہوتے ہیں لیکن ایک طرف ٹینڈروں پر شیرینی لینے کا شوق اور دوسرا‘ ہر کام اگر براستہ جہلم ہی ہونا ہے تو عام آدمی کہاں جائے؟ کس دروازے پہ دستک دے؟ ضلع کی سطح پر حالت یہ ہو اور اوپر کمشنری کے افسران بھی مختلف قسم کے دباؤ بھگتا رہے ہوں تو جو بے چارہ غلط سلط کیس میں پھنس جائے وہ کہاں فریاد کرے؟ ہر کوئی تو آئی جی صاحب کے پاس جا نہیں سکتا اور ویسے بھی آئی جی صاحب کے پاس کہاں اتنا وقت؟ اُنہیں سی ایم صاحبہ کے سامنے بھی حاضری دینی ہوتی ہے اور سی ایم صاحبہ کی ظاہر ہے اپنی مصروفیات ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شاید پولیس کا مورال بڑھانے کے لیے انہوں نے پولیس کی وردی بھی زیب تن کی تھیں۔ یہ سب باتیں تو ٹھیک لیکن ضلعوں کو کون دیکھے؟
یہ اور بات ہے کہ موجودہ حکومتی بندوبست میں ظاہری کچھ نظر آتاہے اور اصل میں کچھ اور ہے۔ لاہور جانا ہو تو اہلِ نظر سے سنتے ہیں کہ موجودہ سرکار والے کہیں اپنا آر پی او بھی نہیں لگا سکتے۔ ایسا ہی ہو گا لیکن کوئی نام کا سی ایم بھی ہو‘ کچھ تو انتظامیہ پر نظررکھے۔ مانا کہ وڈیوز اور ٹک ٹاک بنانے کی اپنی اہمیت ہے۔جیسا کہ ہم کہتے نہیں تھکتے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس کے تقاضے پورا کرنا بھی حکمرانی کا حصہ بن چکا ہے لیکن کچھ تو فرصت نکال کے دیکھا جائے کہ ضلعوں کا حال کیا ہے۔ بہرحال نوکرشاہی کیلئے یہ سنہرا دور ہے۔ اوپر کی حکومت اپنے جھمیلوں میں پڑی ہوئی ہے اور اوپر کی سطح سے لے کر ضلعوں تک‘ یوں لگتا ہے کہ سب اپنی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔
ہمارے قانون دان دوست کی پوسٹ لگنی تھی کہ فونوں کا سلسلہ بندھ گیا کہ جناب! یہ کیا کر دیا‘ کوئی ذاتی کام ہے تو بتائیے۔ ہمارے دوست نے کہا کہ ہم نے کوئی جوا خانہ کھولا ہوا ہے یا دو نمبر کے راحتِ شب کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں کہ ذاتی کام کا کہیں؟ ایک چیز ہو رہی ہے جس کا سب کو علم ہے‘ پولیس کے کام کا ستیاناس ہو گیا ہے‘ تھانوں کی حالت خراب ہے اور یہ براستہ جہلم والی بات زبان زد عام ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ کسی ضلع میں اچھا ڈی سی او‘ اچھا ڈی پی او اور اچھا سیشن جج لگ جائے تو آج کے انحطاط پذیر حالات میں بھی بہتری دکھائی دینے لگے۔ پچاس سالہ ضلعی تجربے کا یہ نچوڑ ہے۔ اچھا ڈی پی او تعینات ہو تو رشوت اور زیادتی ختم نہ ہو گی لیکن تھانوں کی کارکردگی میں کچھ بہتری آ جائے۔اچھا ڈی پی او ہو تو دستیاب مواد میں سے اچھے ایس ایچ او لگیں۔ لیکن اوپر بیٹھا دیہاڑیاں لگا رہا ہو تو تھانوں کی پھر کیا کارکردگی ہونی ہے؟ ہمارا سب کچھ بگڑ چکا ہے۔ سیاستدانوں کا راج ہو اُس سے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے۔
شعیب سَڈل ڈی آئی جی راولپنڈی رہا۔ میرا اپنا تجربہ تھا کہ اُسے کوئی بات سمجھ آ گئی تو فیصلہ وہیں ہوتا اور کسی پولیس افسر کی مجال نہ ہوتی کہ اُس پر عمل درآمد نہ کرے۔ ناصرخان درانی ایسے تھے‘ پتا چلتا تھا کہ کوئی افسر اوپر بیٹھا ہوا ہے۔ کتنے سال بیت گئے ہوں گے‘ ایک قریشی ایس پی چکوال لگا تھا‘ آج تک کبھی ذکر چھڑے تو لوگ اُس کی دیانت کی بات کرتے ہیں۔ طارق پرویز ایس پی جہلم تھا‘ ایک ذاتی مسئلے میں اُس سے ملا۔ کوئی جان پہچان نہ تھی‘ مدعا بیان کیا‘ اُنہوں نے بات سمجھی اور وہیں پر متعلقہ اہلکاروں کو حکم دے دیا۔ کسی سینئر افسر کی نالائقی اور کمزوری کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ مسئلہ اُس کے سامنے آئے اور خود سمجھنے کے بجائے وہ انکوائری کیلئے کسی اورکو مارک کر دے۔ آج کل کے افسروں کے پاس جائیں تو بیشتر یہی کرتے ہیں‘ ایس ایچ او کو مارک کر دیا‘ ڈی ایس پی کو بھجوا دیا۔ لیکن کہیں ذاتی مفاد آئے تو پھر پھرتیاں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔
مانا کہ ملک کے سیاسی حالات ایک مخصوص ڈگر پر چل رہے ہیں۔ مانا کہ مختلف سروسز پر بڑا دباؤ ہے۔ مانا کہ آج کل کے افسرو ں کو بحالت مجبوری بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اِن سب عوامل کے باوجود سول اور پولیس سروس کے افسرا ن کو کچھ تو اپنے عہدوں کا بھرم رکھنا چاہیے۔ ایک زمانے میں کہا کرتے تھے کہ سی ایس پی اور پی ایس پی افسران رشوت نہیں لیتے۔ وہ بات اب افسانوں کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن آج کل کے بگڑے ماحول میں بھی اِن سروسز کے افسران کے ہاتھوں میں بہت کچھ ہے۔ غریب کی داد رسی کر سکتے ہیں‘ وقت پر دفتر آ سکتے ہیں‘ ماتحتوں پر نظر رکھ سکتے ہیں‘ تحصیلوں اور تھانوں کی لوٹ مار کو کم کر سکتے ہیں۔ لیکن خود ہی اُ س کام پر لگ جائیں اور سسر صاحبان بھی کمال مہربانی فرمائیں تو کیا ریاست کے حالات پر رونا اور کیا کسی ایک ضلع کو سامنے رکھ کر دہائیاں دینا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved