تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-09-2024

ٹینشن صرف پاکستان میں ہے

امریکہ سے ایک میسج آیا: پاکستان میں ہر بندہ ٹینشن میں ہے‘ اللہ پاکستان کے حالات ٹھیک کرے۔ میں نے جواباً پوچھا: صرف پاکستانی ٹینشن میں ہیں یا امریکہ کے حالات بھی اچھے نہیں؟ جواب آیا: امریکہ کے حالات اتنے خراب نہیں۔ میں احتراماً چپ رہا۔
پاکستانیوں کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے برُی قوم ہیں۔ کرپٹ ہیں‘ نالائق‘ نکمے اور بزدل ہیں۔ پوری دنیا آگے نکل گئی ہے اور یہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہیں ایک مسلسل ڈر اور خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ میں نے اچھے خاصے لوگوں‘ دس دس کروڑکی گاڑی رکھنے والوں کو بھی پریشان دیکھا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔ پروپیگنڈا اتنا شدید ہے کہ لوگوں کی اکثریت صبح سویرے جاگتی ہے تو ملک کو سلامت دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے کہ ابھی تک کچھ ہوا کیوں نہیں؟
میں نے اپنے امریکی مہربان سے کہا کہ پاکستان کے حالات بعض معاملات میں امریکہ سے بہت بہتر ہیں‘ آپ نے کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی لائیو ڈیبیٹ دیکھی ہے؟ جتنے ذاتی حملے اور الزامات انہوں نے ایک دوسرے پر لگائے‘ وہی کام یہاں پاکستانی سیاستدان کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہا کہ تارکینِ وطن بھوک کی وجہ سے امریکیوں کے پالتو کتے‘ بلیاں کھا رہے ہیں۔ پاکستان جیسا بھی ہو لیکن یہاں آج تک نہیں سنا کسی نے بھوک کی وجہ سے کتے یا بلی کو کھا لیا ہو۔ یہ اس مباحثے کا لیول ہے جو عالمی سطح پر اُن دو امریکیوں کے مابین ہو رہا ہے جن میں سے ایک چار سال تک امریکہ کا صدر رہ چکا اور دوسری دفعہ صدر بننے کا امیدوار ہے جبکہ دوسری خاتون اس وقت امریکہ کی نائب صدر اور آئندہ صدر بننے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی گفتگو کا محور کتے اور بلیاں ہیں جنہیں تارکین وطن کھا رہے ہیں۔ قبل ازیں جوبائیڈن اور ٹرمپ نے بھی ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے۔ اب کملا ہیرس نے ٹرمپ کو تین دفعہ disgrace کہا‘ مطلب تم امریکہ کیلئے بدنامی کا باعث ہو۔ کملا ہیرس نے کہا: وہ عالمی رہنمائوں سے ملتی رہی ہے اور وہ سب ٹرمپ کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے دوبارہ وائٹ ہائوس میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس نے کہا کہ تمہارے بارے میں تین جرنیلوں کی رائے ہے کہ تم disgrace ہو جبکہ ٹرمپ کا کہناتھا کہ تمہارا صدر بائیڈن تو اپنے گھر کے قریب ساحل پر پڑا رہتا ہے‘ تم تو ابارشن کے نام پر نوزائیدہ بچوں کے قتل کوبھی جائز سمجھتی ہو۔ کملا نے ٹرمپ کو طعنہ دیا کہ بات تم غریبوں کی کرتے ہو حالانکہ تمہارے باپ نے تمہیں چار سو ملین ڈالرز پلیٹ میں رکھ کر دیے‘ یہ پیسہ غریبوں سے ہی لوٹا گیا‘ تمہیں غریبوں کی کیا فکر۔ ٹرمپ نے کملا ہیرس کو رنگدار باپ کے طعنے مارے۔ بائیڈن‘ ٹرمپ مباحثے میں ٹرمپ نے بائیڈن کو اس کے بیٹے کے کرپشن میں ملوث ہونے کے طعنے مارے تھے۔ بائیڈن نے جواباً کہا کہ تم کرپٹ ہو۔ اب کملا بھی یہی کہہ رہی تھی کہ تم سے کیا بحث کریں‘ عدالت تک تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے تمہیں مجرم قرار دے چکی ہے۔ تم مجرم ہو‘ تمہیں جلد سزا ملنے والی ہے۔
یہ چند مثالیں میں اس لیے دے رہا ہوں کہ امریکہ میں کیا گفتگو ہوتی ہے اور اُن کی اپنی لیڈرشپ کا کیا معیار ہے‘ جو پاکستان کے بارے رائے رکھتے ہیں کہ یہاں تباہی مچی ہوئی ہے۔ یقینا ترقی اور سٹیٹس میں پاکستان اور امریکہ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن کیا امریکیوں کے پاس کوئی مناسب قیادت موجود ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے؟ آپ کو کملا ہیرس اور ٹرمپ کی گفتگو سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان کی قیادت کا معیار کیا ہے؟ کس نے سوچا تھا کہ وائٹ ہائوس پر ٹرمپ کے حامی حملہ کریں گے اور اندر گھس کر سپیکر نینسی پیلوسی کو ڈھونڈیں گے تاکہ اسے قتل کر سکیں۔ یہ تھے مہذب اور ڈیمو کریٹ امریکہ کے شہری۔ اور تو اور ٹرمپ نے انتخابی نتائج ماننے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اسے دھاندلی سے ہرایا گیا۔ دنیا کی جدید تاریخ میں امریکی کانگریس پر جو حملہ ہوا اس پر کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا۔
کبھی آپ نے سنا کہ کسی پاکستانی سکول میں کسی بچے نے کلاس روم میں رائفل سے فائرنگ کر کے اپنے متعدد کلاس فیلوز کو قتل کر دیا؟ امریکہ میں تقریباً ہر ہفتے سکولوں میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سکول شوٹنگ عام بات ہے جس میں ہر سال سینکڑوں معصوم بچے مارے جاتے ہیں۔ امریکہ میں گن کلچر عام ہے۔ پاکستان میں ایسے کتنے واقعات سکولوں میں ہوئے کہ کسی بچے نے اپنے کلاس فیلوز کو مار دیا ؟ لیکن پھر بھی ہمیں بتایا جاتا ہے امریکہ میں حالات اتنے خراب نہیں جتنے پاکستان میں ہیں۔ ابھی نیویارک یا شکاگو کے ڈان مافیاز کی بات نہیں کرتے۔ اگر پاکستانی میڈیا بہت برُا ہے تو کیا امریکی میڈیا اچھا ہے‘ جس نے 2003ء میں صدر بش کے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور اگر فوری حملہ نہ کیا گیا تو عراق پورے خطے کو ایٹم بم سے اڑا دے گا۔ اس جھوٹ کو امریکی عوام کو بیچ کر عراق پر حملہ کیا گیا جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ مڈل ایسٹ کا پورا خطہ آج تک نہیں سنبھل سکا۔ اوباما دور میں لیبیا کے ساتھ یہی کچھ کیا گیا۔ تو کیا امریکی عوام نے صدر بش کو جھوٹ پر بعد میں کوئی سزا دی؟ الٹا مزید چار سال کیلئے اسے دوبارہ صدر بنا دیا۔
اگر پاکستان میں عمران خان پر حملہ ہوا تو کیا ڈونلڈ ٹرمپ پر حملہ نہیں ہوا؟ کینیڈی نہیں مارا گیا تھا یا ریگن پر حملے نہیں ہوئے؟ کیا لندن کے حالات ہم سے اچھے ہیں‘ جہاں تین بچیوں کو خنجر کے وار سے قتل کیا گیا تو پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ان فسادات کے بعد 1500 لوگ گرفتار ہیں جنہیں برطانوی جج دن رات سزائیں سنا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں نو مئی کے ملزمان کو سزا دینے کی بات کرو تو سب سے زیادہ امریکی دوست ناراض ہوتے ہیں حالانکہ وائٹ ہائوس پر حملہ کرنے والوں کو اب تک سزائیں دی جا رہی ہیں۔ کیا پاکستان کے حالات یوکرین سے بھی زیادہ خراب ہیں جہاں ایک کامیڈین صدر کی وجہ سے لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں؟ تین سال پہلے تک یوکرین پوری دنیا کو گندم بیچ رہا تھا‘ آج اس کے لوگ یورپ کے پناہ گزین کیمپوں میں دوسروں کی بھیک پر زندہ ہیں۔ پورا ملک تباہ ہوگیا ہے اور یورپ اس جنگ کی وجہ سے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ بھارت کے بارے میں کیا خیال ہے‘ جہاں دہلی کا وزیراعلیٰ کجریوال چھ‘ سات ماہ تک کرپشن الزامات پر جیل میں قید رہا‘ ابھی چند دن قبل اس کی ضمانت ہوئی ہے۔ وہ جیل سے بیٹھ کر حکومت چلاتا رہا۔ بھارت میں منی پور ہو‘ میزو رام ہو یا پنجاب میں خالصتان تحریک۔ آسام اور تامل ریاستوں کی حالت بھی دیکھ لیں۔ وہاں کیا کچھ ہوتا رہا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی پنجاب اور تامل ناڈو میں علیحدگی کی تحریکوں کی وجہ سے مارے گئے۔ بھارت میں جتنی نفرت اور تشدد ہے‘ اقلیتوں یا دلتوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہو رہا لیکن ان سب دوستوں کو وہ سب کچھ نارمل اور ہمارے ہاں ابنارمل لگتا ہے۔
ہمارے ہاں جو غلط ہو رہا ہے وہ مقتدرہ کی جانب سے سیاست میں سامنے آکر بہت سے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کے سبب ہے۔ انہیں سیاسی مداخلت روکنا ہو گی۔ باقی ملکوں کی برائیاں اس لیے چھپ جاتی ہیں کہ وہاں پیچھے والے سامنے نہیں آتے۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ انہیں سمجھ آگئی ہے کہ اپنا کاروبارکرو‘ پیسہ بنائو اور ملک کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر سیاستدان بیٹھ کر کچھ طے کر لیں تو ہمارے مسائل باقی دنیا سے بہت کم ہیں۔ لیکن وہی بات کہ کرسی ایک ہے اور امیدوار تین۔ یا تو وزیراعظم ہائوس میں تین کرسیاں رکھ لیں ورنہ یہ تینوں امیدوار اقتدار کے جنون میں جانیں دیتے بھی رہے ہیں اور لیتے بھی رہیں گے۔ تاریخ میں اقتدار کے لیے لالچی اور جنونی انسان یہی کچھ کرتے آئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved