بہت عرصہ سے بنگلہ دیش ہماری سیاست اور سماجی حلقوں میں زیر بحث رہا ہے۔ حساس اور باشعور قومی حلقے احساسِ زیاں سے بوجھل دکھائی دیے ہیں۔ اہلِ فکر بھی آہیں بھرتے ہیں‘ لیکن اپنی بے بسی پر رو دھو کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ واہموں‘ قصے کہانیوں‘ افسانوں کے ساتھ ساتھ تاریخی واقعات اور ہر نوع کی تشریحات اورتراجم کی کمی نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم نے کیا سبق سیکھا‘ اگر کوئی سیکھ پائے ہیں‘ اور وہ ہے کیا؟ اس کے بارے میں آگے چل کر بات کریں گے۔ بنگلہ دیش کے اسباب اور پس منظر‘ حالاتِ حاضرہ کے تضادات‘ تناؤ اور سیاسی مہم جوئی کے بارے میں بھی اسی طرح کے خدشات کا روز بروز کہیں نہ کہیں سے اظہار دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس کی وجہ سب جانتے ہیں کہ اگر انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا جاتا جو مغربی پاکستان کے دو فریقوں‘ صرف دو پر میں اس لیے زور دیتا ہوں کہ دیگر سیاسی جماعتیں ‘اور جن کی بلوچستان اور صوبہ سرحد میں اکثریت تھی‘ وہ عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی کے حق میں تھیں اور ڈھاکہ اسمبلی کے اجلاس میں جانے کے لیے تیار تھیں۔ صوبہ سندھ اور پنجاب میں اکثریتی جماعت کے اندر بھی چہ میگوئیاں ہو رہی تھی‘ مگر ایک ہی طاقتور آواز اٹھی تھی‘ اور وہ احمد رضا قصوری صاحب کی تھی۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ کس طرح وہ بچ گئے اور ان کے والد صاحب گولی کا نشانہ بنے‘ یہ کوئی افسانہ نہیں‘ ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ کچھ لوگ مغربی اور مشرقی پاکستان کو ایک تضاد بنا کر تخفیف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مغربی پاکستان کے سب حکمر ان طبقات کو اسمبلی کے اجلاس کے التوا اور بعد کی بگڑتی صورتحال اور فوجی آپریشن کا ذمہ دار ٹھہرا کر اصل کرداروں اور پیچیدہ تاریخی حقائق سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں‘ اس بارے میں بہت سے کتابیں اور مقالے لکھے گئے ہیں لیکن میرے نزدیک سب سے مستند کتاب ''War and Secession: Pakistan, India, and the Creation of Bangladesh‘‘ ہے جو میرے مینٹور اور دوست Leo Rose اور Richard Sisson نے لکھی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو‘ یحییٰ خان‘ مجیب الرحمن اور اندرا گاندھی سے طویل انٹرویو کیے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو پرکھنے اور سمجھنے کے کئی زاویے ہیں‘ اور جب تک آپ سب سے آگاہ نہیں ہوں گے‘ کسی ایک مفروضے کو پکڑ کر آپ ڈھنڈورا پیٹتے رہیں گے۔ بنگال کی ایک اپنی تاریخ ہے‘ اور مسلم بنگال کی اپنی۔ مشرقی پاکستان تو پاکستان بننے کے بعد کی اصطلاح ہے‘ اس سے قبل اس خطے کو مسلم بنگال کہتے تھے۔ تھوڑا سا غور کریں کہ مسلم بنگال کی شناخت کب‘ کیوں اور کیسے مشرقی بنگال کے ذہنوں میں راسخ ہوئی تھی۔ لارڈ کرزن نے بنگال کو جولائی1905ء میں دو حصوں میں تقسیم کرکے دو صوبے بنائے تھے۔ اس کا جواز انتظامی مسائل بتایا گیا کیونکہ صوبہ بہت بڑا تھا۔ اگر یہی دلیل درست مان لی جائے تو برطانوی سلطنت کے مغرب کی طرف پنجاب بھی بہت بڑا صوبہ تھا۔ یہ درست ہے کہ اس سے چار سال قبل1901ء میں پنجاب سے ایک نیا صوبہ کاٹ کر شمال مغربی سرحدی صوبہ بنایا گیا‘ جو اَب خیبرپختونخوا کہلاتا ہے۔ تقریباً نصف صدی تک انگریزوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ریاست پنجاب کی جغرافیائی سرحدوں کو‘ جن میں غیر منقسم پنجاب‘ کشمیر‘ گلگت بلتستان اور موجودہ خیبرپختونخوا شامل تھا‘ کو اُسی طرح رکھا۔ بنگال کی تقسیم پر مسلم بنگال میں شادیانے بج رہے تھے جبکہ دوسری طرف اسے نامنظور کرنے کے نعرے بلند ہورہے تھے۔ مسلم بنگال کی تخلیق کے اگلے سال یعنی 1906ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی اور یہ جماعت لاہور یا برطانوی راج کے کسی اور شہر میں نہیں بلکہ ڈھاکہ میں بنائی گئی تھی۔ چھ سال بعد کانگریس کے پُرزور اصرار پر بنگال کی تقسیم کو ختم کرکے دوبارہ ایک صوبہ بنا دیا گیا مگر مسلم شناخت کی بنیادیں‘ جو تاریخی طور پر گہری تھیں‘ اب ایک نیا سیاسی رنگ اختیار کر چکی تھیں۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ کو پہلے تو اس کے اپنے جغرافیائی‘ سیاسی اور سماجی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور پھر تحریکِ پاکستان‘ مشترکہ جدوجہد‘ لسانیت اور ہماری سیاسی ہیرا پھیریوں کی روشنی میں اپنے لیے کچھ سبق تلاش کیا جائے۔
اس سیاسی انجینئرنگ کی ابتدا مشرقی بنگال یا مشرقی پاکستان میں 1954ء کے صوبائی انتخابات سے ہوتی ہے۔ مسلم لیگ پہلے سات برسوں میں اپنا وقار اور حیثیت کھو چکی تھی۔ کرشک سرامک پارٹی اور عوامی لیگ نے جگتو فرنٹ کے جھنڈے تلے الیکشن لڑا اور 309میں سے 223نشستیں جیت لیں۔ وہاں کے وزیراعلیٰ نورالامین اپنے ہی حلقے میں ہار گئے۔ جگتو فرنٹ کے انتخابی منشور میں14نکات شامل تھے‘ جیسا کہ صوبائی خود مختاری‘ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور آبادی کے لحاظ سے اقتدار میں حصہ۔ جگتو فرنٹ کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو تحریک انصاف کے ساتھ آٹھ فروری کی رات کے بعد سے ہو رہا ہے۔ اس فرنٹ کے اندر فرنٹ بنا کر‘ جسے آج کل کی ہماری سیاسی لغت میں ''نمبر گیم‘‘ کہتے ہیں‘ کا ایسا ہی کامیاب کھیل کھیلا گیا کہ جن کے حوالے اقتدار کیا گیا وہ تو مزے کرتے رہے مگر کچھ حلقوں میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد پڑ گئی۔ باقی کام ایوب خان کے مارشل لاء نے کردیا کہ اتفاق رائے سے تیار کردہ آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر اوپر سے آئین نازل فرمانے کی روایت ڈال دی۔
بات طویل ہو جائے گی‘ کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بہت عرصہ گزر گیا ہے کہ امریکہ سے بنگلہ دیشی سکالر کا فون آیا کہ وہ پاکستان آکر مجھ سے ملاقات کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس سے قبل بھارت‘ نیپال‘ بھوٹان اور سری لنکا کے علاوہ امریکہ میں سینکڑوں سکالرز سے ملاقاتیں ہوتی رہی تھیں‘ اور ظاہر ہے کہ وہ بھی اپنے زخم سینہ چاک کرکے دکھاتے اور ہم بھی کچھ ایسا ہی کرتے اور اسباب اور عوامل‘ گھناؤنے کرداروں‘ ظلم و جبر‘ قتل و غارت اور کئی تاریخی حادثات کے بارے میں کھل کر باتیں ہوتیں۔ ان کا پہلا نام یاد ہے‘ مصطفی صاحب۔ چند دن لاہور میں رہے اور خوب دل کھول کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی باتیں کیں۔ ایک بات وہ بار بار کہتے اور جس کی گونج گزشتہ ہفتے ڈھاکہ پریس کلب میں قائداعظم محمد علی جناح کی برسی کی تقریب میں سنی گئی: اگر پاکستان نہ بنتا تو بنگلہ دیش کبھی نہیں بن سکتا تھا۔ یہ بالکل درست ہے کہ جغرافیائی اور تاریخی عوامل کے لحاظ سے مسلم بنگال کی اپنے طور پر بھارت سے علیحدگی کی دلیل کمزور تھی۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی28فیصد سے زیادہ ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی آبادی14فیصد سے کم ہوکر آٹھ فیصد رہ گئی ہے۔ یہ ایسے عوامل ہیں جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ کی طرح غیرمعمولی اثرات کی طاقت رکھتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات بنگلہ دیش کی وجودی ضرورت ہیں۔ ہم بھی اگر ماضی کے اس حصے کی اس کمزوری کا ذرا بھر ادارک کر سکتے تو سیاسی ہیرا پھیری‘ عوامی مینڈیٹ کی خلاف ورزی اور بندوبستی نظاموں کے خطرناک کھیل سے باز رہتے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہوں‘ ہاتھ میں تیز تلوارہو‘ سیاسی پیادے صف در صف آگے ہوں تو عوام کی طاقت گھوڑوں کی ٹاپ کی گرد میں سنائی نہیں دیتی۔ غائب تو وہ ہو ہی نہیں سکتی۔ گرد بیٹھتے ہی پہاڑ کی صورت کھڑی منہ چڑانا شروع کر دیتی ہے۔ ابھی تک یہ کشمکش‘ نمبر گیم اور کھیل جاری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved