ہمارے ہاں جب محرم الحرام کا مہینہ آتاہے تو حکومت کی طرف سے ایک لگا بندھا روایتی نوٹیفیکیشن جاری ہوتاہے کہ فلاں فلاں علماء ، خطباء اور ذاکرین اس مہینے میںفلاں شہر میں داخل نہیں ہوسکتے ۔ یہ کیوں ہوتاہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری زبانیں اچانک آتش بداماں ہوجاتی ہیں، ہمارے لب ولہجے میں زہر آلود تلوار کی سی کاٹ آجاتی ہے ، ہم نفرتوں اور عصبیتوں کی فصل اُگاتے ہیں اور مسلمانوںکو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بجائے باہم دست بہ گریباں کردیتے ہیں ۔اور اب تو حق وباطل کے فیصلے دلیل واستدلال کے بجائے خنجر کی نوک اور کلاشنکوف کی گولی سے ہونے لگے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ سب کچھ ناگزیر ہے؟ آئمۂ کِبار اور اہلِ بیتِ اَطہار کی تعریف سے تو ہر مسلمان کا ایمان تازہ ہوتاہے، رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارَک کے ساتھ کسی بھی چیز کو ادنیٰ نسبت حاصل ہوجائے تو وہ ہماری عقیدتوں کا مرکز بن جاتی ہے۔پس جن مقدَّس شخصیات کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے وجود کا حصہ قرار دیا ہے اور جن کی محبت کو اپنی محبت کا لازمی تقاضا قرار دیا ہے ، اُن کے بارے میں مسلمانوں کے دلوں میں احترام واکرام اور عقیدت ومحبت کے سوا کوئی اور چیز جگہ پاہی نہیں سکتی۔ مَحبتِ رسول عینِ ایمان ہے اور رسول اللہ ﷺ کی محبت اور ان مقدَّس شخصیات سے نفرت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ لیکن جب طنز و تعریض اور توریہ(Double Entender Hint)ہماری خطابت کا جوہر بن جائیں اور ہم اشارات وکنایات میں دوسروں کے جذبات کو مجروح کریں تو کوئی ہماری بات کیوں سنے گا اور کسی کے دل میں ہمارے لیے گنجائش کیسے پیدا ہوگی۔ جب دین مشن کے بجائے معاش بن جائے تو پھر ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی طرح ریٹنگ ہماری مجبوری بن جاتی ہے اوراگر مخصوص ذوق کے حامل سامعین سے ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملے پر تحسین مطلوب ہو تو پھر ڈرائیونگ سیٹ پر خطیب نہیں رہے گا بلکہ لگام سامعین کے ہاتھ میں ہوگی اور خطیب اپنی ریٹنگ کی شرح کو قائم رکھنے کے لیے ان کی دادوتحسین کو اپنی ترجیح اول سمجھے گا۔ اس سے کچھ لوگوں کی نفسانی تسکین تو یقینا ہوجائے گی مگر معاشرے میں بڑے پیمانے پر نفرت کی فضا پیدا ہوگی۔تو کیا ایسا ممکن نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا پر اور بڑے عوامی اجتماعات میں خطابات کے لیے خطبائے کرام خود ہی اپنے لیے کم ازکم معیارِ اَخلاق وضع کریں اور خود کو اس کا پابند بنائیں؟ اس زمینی حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے ہاں مسالک ومکاتبِ فکر کے کچھ تفردات اور امتیازات ہیں اور کسی انتظامی تدبیر یا سرکاری حکم نامے یا خوبصورت خواہش سے بیک جنبشِ قلم ان سب باتوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ، لیکن طرزِ خطاب اور اندازِ بیان میں اعتدال اور میانہ روی کو اپنانا یقینا ممکن ہے اور یہ عہدِ حاضر کا ایک ناگزیز تقاضا بھی ہے ۔ مسلکی تفر دات کے بیان کے لیے بہترین مقام کلاس روم یا چہار دیواری کے اندر مجالسِ درس ووعظ کا انعقاد ہے ۔ اس کے لیے عوامی اجتماعات اور الیکٹرانک میڈیا مناسب مقامات نہیں ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ خود رضا کارانہ طور پر یہ پابندی اختیار کریں کہ مخصوص مواقع پر مذہبی اجتماعات کے خطابات کو ایڈٹ کرکے نشر کریں ۔ ٹیلی وژن پروڈکشن میں ڈائریکٹر اور Pre Reviewکا شعبہ بھی اسی لیے قائم کیا جاتاہے۔ ٹیلی وژن چینلز کی مسابقت سے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں کہ موضوعات کم ہیں اور مقابلہ سخت؛ چنانچہ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ نیوز چینلز کو گھر کے تمام افراد(باپ بیٹا، ماں بیٹی، بہن بھائی ) کامن روم میں اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے ہیں ، ان میں متعہ اور حلالہ پر مناظرے کرائے جاتے ہیں اور اس کارِ خیر کے لیے علمائے کرام بھی دستیاب ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں کہا جاتاہے کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ،تو کیا کوئی باوقار شخص اپنی بیٹی یا بہن کے لیے ان چیزوں کا تصور کرکے خوشی محسوس کرے گا؟ سفرِ معراج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو عالَمِ برزخ کے مشاہدات کرائے گئے ، ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم سے ہوا ، جن کی زبانیں اور ہونٹ آگ کے انگاروں سے کاٹے جارہے تھے اور فوراً ہی وہ صحیح ہوجاتے ، اس طرح ان کے ساتھ یہ عمل ایک عذاب کی صورت میں مسلسل دہرایا جارہا تھا ، آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں، توجبریلِ امین نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے فتنہ پرور خطیب ہیں ۔اس سیاق وسباق میں کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم ذاتِ رسالت مآب ﷺ کی اتباع اور آپ کے اندازِ خطابت کو اپنا شِعار بنائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارَکہ، آپ کے اقوال وافعال اور اَحوالِ مبارَکہ کو ہمارے لیے اُسوہ وقُدوہ ، نمونۂ عمل اور Role Modelقرار دیا ہے تاکہ ہم ان کی اتباع کرکے اپنی نجات کا سامان کریں۔ آپ کا اندازِ گفتار انتہائی سہل ، متوازن ، اثرآفریںاور دل ودماغ میں اتر جانے والاتھا ، جس کے نتیجے میں صحابۂ کرام کی زندگیوں میں انقلاب برپاہوجاتاتھا۔ حدیثِ پاک میں ہے: ’’ رسول اللہ ﷺ کے کلام کا ہر لفظ اتنا جداجدا (اور واضح)ہوتا کہ جو بھی اسے سنتا ، اُس (کے الفاظ ومعانی) کو پوری طرح سمجھ لیتا‘‘۔ (سنن ابو داؤد:4806)۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اس طرح ٹھہرائو کے ساتھ بات کرتے کہ اگر کوئی سننے والا ، آپ کی زبانِ مبارَ ک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کو گننا چاہتا تو گن سکتاتھا۔ اسی طرح کلامِ ربانی قرآنِ مجید کا اندازِ بیان بھی خطابی (Oraterical)ہے ۔ اور قرآن اور صاحبِ قرآن کے اندازِ خطاب میں تاثیر کا عالَم یہ تھا کہ قریشِ مکہ لوگوں کو آپ سے دور رکھنے کے لیے کہتے کہ ان کے قریب نہ جاؤ، (معاذ اللہ) یہ تو کاہن (Soothsayer)ہیں ، ساحِر ہیں اور کبھی کہتے کہ یہ شاعر ہیں؛ چنانچہ جب طوفانِ نوح کے تھم جانے کے بارے میں سورۂ ہود کی آیت:44نازل ہوئی جس میں اللہ عزّوجلّ نے فرمایا :’’اور حکم دیا گیا اے زمین! اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان! تھم جا(اور یک لخت ) پانی زمین میں جذب ہوگیااور حکمِ الٰہی نافذ ہوگیا اور کشتی کوہِ جودی پر جا ٹھہری ‘‘۔ علامہ محمود آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھاہے :’’یہ آیت شانِ اعجاز کے بلند ترین مقام پرفائز ہے اور اس کے آگے عرب کے مایہ ناز خطباء سر نگوں ہوگئے ، فصاحت وبلاغت کے اتنے محاسِن کا کسی کلام میں جمع ہونا انسان کی طاقت سے باہر ہے‘‘۔ روایت میں ہے کہ عہدِ بنوعباس کا ایک مُلحِدفصیح وبلیغ ادیب ابن مُقَفَّع قرآنِ مجید کے مقابل اپنا کلام پیش کرنے کے لیے نکلا، راستے میں حفظِ قرآن میں مشغول بچوں کے مکتب کے پاس سے اس کا گزر ہوا اور اس نے بچوں کو یہی آیت پڑھتے ہوئے سنا، وہ وہیں دم بخود ہوگیا اور کہا کہ کسی بھی انسان کے لیے اس کلام کے مقابل کلام لانا ممکن نہیں ہے۔ ذرا سوچئے !کہ پانی چاروں جانب پہاڑوں کی بلندیوں کو چھو رہا ہے کہ اچانک زمین کو قادرِ مطلق کا حکم آتاہے کہ اے زمین !اپنے پانی کو نگل لے ، ’’نگل لینا‘‘ لقمے کو حلق سے اتارنے کے لیے آتا ہے اور یہ کام ایک لمحے میں ہوجاتاہے۔ مگر ایسا حکم تو صرف قادرِ مطلق ہی جاری کرسکتا ہے کہ زمین کو حکم ہو اورایک لمحے میں طوفانِ نوح کا سارا پانی زمین نگل لے ،یعنی آنِ واحد میں وہ پانی زمین میں جذب ہوجائے ۔عالَمِ اسباب میں انسان اپنی تمام ترسائنسی وفنی ترقی اور علمی و فکری صلاحیتوں اور ظاہری وسائل کے باوجود ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیا ہم نے بارہا مشاہدہ نہیں کیا کہ ہمارے ہاں سیلاب کا پانی مہینوںزمین پر کھڑا رہتاہے اور ہم کچھ بھی نہیں کرپاتے ۔ پس ہم سب پر لازم ہے کہ رحمۃا للعٰلمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے شِعارِ خطابت اور اندازِ تکلم کو اپنے لیے نمونۂ عمل اور رہنما بنائیں تاکہ نفرتوں اور عصبیتوں کے عفریت کو کچلنے میں کامیابی نصیب ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved