قیصرِ روم ہرقل کو نامۂ نبوی ملا تو اتفاق سے ان دنوں سردارِ مکہ ابوسفیان مع دیگر تاجرانِ مکہ شام آیا ہوا تھا۔ اسے بیت المقدس لایا گیا اور دربارِ شاہی میں قیصر سے ملاقات کرائی گئی۔ قیصر نے دیگر عرب تاجروں سے کہا کہ میں ابوسفیان سے سوال کروں گا‘ اگر یہ کوئی جواب غلط دے تو مجھے بتا دینا۔ ابوسفیان ان دنوں نبی کریمﷺ کا جانی دشمن تھا۔ اس کا بیان ہے کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میرے ساتھ والے میرا جھوٹ ظاہر کردیں گے تو میں بہت سی باتیں غلط بتاتا مگر اس وقت قیصر کے سامنے مجھے سب سچ ہی کہنا پڑا۔ یہ مکالمہ تاریخ میں یوں نقل ہے:
قیصر: ''محمد (ﷺ) کا خاندان اور نسب کیسا ہے؟ ابو سفیان: شریف وعظیم۔ یہ جواب سن کر ہرقل نے کہا ''سچ ہے! نبی شریف گھرانے کے ہوتے ہیں تاکہ اُن کی اطاعت میں کسی کو عار نہ ہو‘‘۔
قیصر: محمد (ﷺ) سے پہلے بھی کسی نے عرب میں یا قریش میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟۔ ابو سفیان: نہیں۔ یہ جواب سُن کر ہرقل نے کہا ''اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ اپنے سے پہلے کی نقالی کرتا ہے‘‘۔
قیصر: نبی ہونے کے دعویٰ سے پہلے کیا یہ شخص جھوٹ بولا کرتا تھا یا اس پر جھوٹ بولنے کی کبھی تہمت لگی۔ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل ''یہ نہیں ہو سکتا کہ جس شخص نے لوگوں پر جھوٹ نہ بولا‘ وہ خدا پر جھوٹ باندھے‘‘۔
قیصر: اس کے باپ دادا میں سے کوئی شخص بادشاہ بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہر قل بولا ''اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ نبوت کے بہانے سے باپ دادا کی گم گشتہ سلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔
قیصر: محمد (ﷺ) کے ماننے والوں میں مسکین ومفلس لوگ زیادہ ہیں یا سردار اور قوی لوگ؟ ابوسفیان: مسکین وحقیر لوگ۔ ہرقل نے اس جواب پر کہا ''ہر ایک نبی کے پہلے ماننے والے مساکین وغربا لوگ ہی ہوتے رہے ہیں‘‘۔
قیصر: ان لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے؟ ابوسفیان: بڑھ رہی ہے۔ ہرقل نے کہا ''ایمان کا یہی خاصہ ہے کہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور حدِ کمال تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔
قیصر: کوئی شخص اس کے دین سے بیزار ہو کر اس سے پھر بھی جاتا ہے؟ ابو سفیان: نہیں۔ ہرقل نے کہا ''لذتِ ایمان کی یہی صفت ہے کہ جب دل میں بیٹھ جاتی اور روح پر اپنا اثر قائم کر لیتی ہے تو پھر جدا نہیں ہوتی‘‘۔
قیصر: یہ شخص کبھی عہد وپیمان کو توڑ بھی دیتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ لیکن اس سال حدیبیہ کے مقام پر ہمارا ان سے ایک معاہدہ ہوا ہے‘ دیکھیے کیا انجام ہو۔ ابوسفیان کہتا ہے کہ میں صرف اس جواب میں اتنا فقرہ زیادہ کر سکا تھا مگر قیصر نے اس پر کچھ توجہ نہ کی اور یوں کہا ''بیشک نبی عہد شکن نہیں ہوتے۔ عہد شکنی دنیادار کیا کرتا ہے۔ نبی دنیا کے طالب نہیں ہوتے‘‘۔
قیصر: کبھی اس شخص کے ساتھ تمہاری لڑائی بھی ہوئی؟ ابوسفیان: ہاں۔ قیصر: جنگ کا نتیجہ کیا رہا؟ ابوسفیان: کبھی وہ غالب رہے (بدر میں) اور کبھی ہم (اُحد میں)۔ ہرقل نے کہا ''خدا کے نبیوں کا یہی حال ہوتا ہے لیکن آخرکار خدا کی مدد اور فتح اُنہی کو حاصل ہوتی ہے‘‘۔
اس کے بعد قیصر روم ہرقل نے کہا: نبی موعود کی یہی علامتیں ہم کو بتائی گئی ہیں۔ میں یہ تو ضرور سمجھتا تھا کہ نبی کا ظہور ہونے والا ہے‘ لیکن یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ عرب میں سے ہو گا۔ سنو ابوسفیان! اگر تم نے سچ سچ جواب دیے ہیں تو وہ ایک روز اس جگہ کا‘ جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں (شام وبیت المقدس)‘ ضرور مالک ہو جائے گا۔
ابوسفیان کے بقول‘ اس کے بعد نامہ مبارک (پھر سے) پڑھا گیا۔ اراکینِ دربار‘ وزرا‘ جرنیل اور مذہبی پیشوا (اب) اُسے سن کر بہت چیخے اور چلائے اور ہمیں دربار سے باہر نکال دیا۔ میرے دل میں اسی روز سے اپنی ذلت کا اور آنحضرتﷺ کی عظمت کا یقین نقش ہو گیا۔ اگرچہ ابوسفیان کی طرف سے عملاً اس حقیقت کا اعتراف قدرے تاخیر سے یعنی فتح مکہ کے موقع پر ہوا‘ مگر ان کی اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اسلام کے حق ہونے اور آنحضورﷺ کے غالب آنے کا قیصرِ روم کے دربار میں یقین ہو گیا تھا۔ اپنے درباریوں کے احتجاجی شور پر قیصر نے کہا ''تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں تو دل لگی کر رہا تھا‘‘۔ سب کچھ جان لینے کے باوجود وہ بدنصیب نورِ ہدایت سے محروم رہا۔
نامۂ مبارک بنام کسریٰ: رومی بادشاہت کی طرح اس دور میں ایرانی بادشاہت بھی بہت طاقتور اور خود کو سپرپاور سمجھتی تھی۔ خسرو پرویز اس زمانے میں ایران کا حکمران تھا۔ آپﷺ نے اس کے نام جو خط لکھا اس کا متن 'شرح المواھب‘ میں امام زرقانی نے یوں محفوظ کیا ہے: ''محمد اللہ کے رسول کی طرف سے کسریٰ‘ حاکم فارس کے نام! سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے‘ وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں ہے اور یہ کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تجھے اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق دعوتِ (اسلام) دیتا ہوں۔ اس لیے کہ میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں تاکہ جو لوگ زندہ ہیں انہیں (اللہ سے) ڈرائوں اور کفار پر اللہ کی حجت پوری ہو جائے۔ اسلام لے آئو‘ سلامت رہو گے‘ ورنہ تمام مجوس کے اسلام نہ لانے کا گناہ تجھ پر ہو گا‘‘ (سیرتِ خیر الانام‘ ص: 303)۔
ایران کا کسریٰ رومی قیصر کے برعکس بہت غصیلا‘ مشتعل مزاج‘ خودسر اور انتہائی سنگدل انسان تھا۔ اس نے آنحضورﷺ کا خط سنتے ہی اول فول بکنا شروع کر دیا۔ ایک جانب اس نے اس خط کو پھاڑ کر پھینک دیا اور دوسری جانب یہ جسارت کی کہ خود کو خدائی کا مقام دیتے ہوئے شانِ رسالت میں گستاخی کا ارتکاب کیا۔ اس نے سفیرِ رسول حضرت عبد اللہ بن حذافہؓ پر بھی ہاتھ اٹھانا چاہا مگر پھر دھمکی دیتے ہوئے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ تو اگر سفیر نہ ہوتا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔
قاصدِ نبوی حضرت عبداللہ بن حذافہؓ عظیم شخصیت کے مالک اور مضبوط ایمان کے حامل تھے۔ آپؓ کی سیرت میں بہت سے ایمان افروز واقعات ملتے ہیں۔ وہ کبھی موت سے نہیں ڈرے‘ انہیں اپنی جان کا کوئی ڈر نہ تھا لیکن ان کے دل پر آرے چل گئے جب اپنے آقا ومولاﷺ کے نامہ مبارک کی حرمت پامال ہوتے ہوئے دیکھی۔ واپس آکر آپؓ نے پورا قصہ آنحضورﷺ کی خدمت میں بیان کر دیا۔ رسول اکرمﷺ نے اپنے جانثار کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس طرح اس نے میرے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے اسی طرح اللہ اس کی حکومت کو بھی پارہ پارہ کر دے گا۔ چند سال قبل خسرو پرویز‘ ہرقل کے مقابلے پر شکست پہ شکست کھا چکا تھا۔ اب اس کے خلاف گھر کے اندر بغاوت ہوئی اور اسے اس کے اپنے ہی بیٹے شیروَیہ نے قتل کر دیا۔ گستاخِ رسول تو اپنے انجام کو جلد ہی پہنچ گیا مگر اس کی وسیع وعریض بادشاہت کے بھی ٹکڑے یوں ہوئے کہ حضرت عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کے ادوارِ خلافت میں اسلامی فوجوں کے سامنے فارس کے تمام قلعے اور شہر یکے بعد دیگرے شکست سے دوچار ہوتے چلے گئے تاآنکہ آخری کسریٰ یزدگرد بھی مارا گیا اور آنحضورﷺ کی ایک نہیں کئی پیش گوئیاں پوری ہو گئیں۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کسریٰ ہلاک ہو جائے گا اور اس کے بعد کوئی کسریٰ تخت نشین نہیں ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزدگرد کے بعد کوئی کسریٰ تاریخ میں کبھی نظر نہیں آیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved