تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-09-2024

بجلی کی کہانی … (5)

واقعات تو بہت ہیں لیکن فی الوقت قلم کا رُخ کسی اور جانب ہی رکھا جائے تو مناسب ہے۔ تب بورڈ کا رکن ہوتے ہوئے ان کہانیوں کو بیان کرنا اول تو conflict of interest کے زمرے میں آتا تھا۔ دوسرا‘ میں تب ان باتوں کا امین بھی تھا اور اخلاقی طور پر پابند بھی‘ تاہم اب ان قصوں کا بیان کرنا محض نمبر ٹانکنے اور بعد اَز مرگ واویلا کرنے کے مترادف ہے۔
آئی پی پیز نے EPC میں لاگت کو بڑھا کر جہاں ٹیرف زیادہ لے لیا‘ وہیں حاصل کردہ قرضے کی رقم‘ جو ای پی سی کا 80 فیصد تھی‘ کو دس سال کی مدت میں پے آف کرنے کی غرض سے کپیسٹی چارجز کی مد میں بھاری شرح سے پیسے لینا شروع کر دیے۔ یہ ادائیگیاں لامحالہ بجلی کی قیمت میں شامل ہو گئیں اور یہ قیمت بلوں میں لگا کر صارفین سے وصول کی جانے لگی۔ سارے آئی پی پیز نے‘ خواہ وہ غیر ملکی تھے یا مقامی‘ اپنے سارے قرض ڈالروں میں ظاہر کیے‘ اپنے معاہدوں میں ٹیرف ڈالروں میں منظور کرایا اور وصولیاں ڈالر کی شرح سے کرنا شروع کردیں۔ جب تک ڈالر کا ریٹ سو‘ ڈیڑھ سو روپے تک رہا معاملہ قابو میں رہا۔ پھر رضا باقر آ گئے اور انہوں نے مختلف حربوں سے ڈالر کی قیمت کو ایک حد تک قابو میں رکھنے کے عمل کو منسوخ کرتے ہوئے ڈالر کی روپے میں قدر کو کھلا چھوڑ دیا۔ انہیں علم تھا کہ ڈالر کی قیمت بہت اوپر چلی جائے گی مگر وہ اسی ذمہ داری کو نبھانے کیلئے آئے تھے۔ انہوں نے اپنا کام بخوبی سرانجام دیتے ہوئے پاکستانی معیشت کا کام تمام کیا اور چلتے بنے۔
غیر ملکی پاور جنریشن کمپنیوں نے Skimming the cream یعنی 'اوپر سے مکھن سمیٹو اور باقی لسی چھوڑ کر چلتے بنو‘ کے مشہور مارکیٹ فارمولے کے مطابق دس بارہ سال میں اس قوم کو خوب نچوڑا اور پھر بہت سی کمپنیوں نے اپنے پلانٹ مقامی سرمایہ داروں کو بیچے اور پتلی گلی سے صاف دامن بچا کر نکل گئیں۔ مظفر گڑھ کے نزدیک ایک امریکی کمپنی کے دو عدد پاور پلانٹ تھے۔ اس نے ان بجلی گھروں کی قیمت مع منافع کھری کی اور ایک پاکستانی سیٹھ کو دونوں پلانٹ فروخت کیے اور چل دی۔ فرنس آئل پر چلنے والے ان پلانٹس کی پیدا کردہ بجلی کی لاگت جب بہت بڑھ گئی تو ترجیحی فارمولے کے تحت اس سے بجلی کی خریداری کم کر دی گئی جس سے اس پاکستانی سیٹھ کی شرح منافع بھی کم ہو گئی۔ یعنی جو موج میلہ لگا ہوا تھا وہ تھوڑا سکڑ گیا۔ وہ صاحب اس پلانٹ کو کوئلے یا کسی دوسرے ایندھن پر شفٹ کرنے کی تجویز بمعہ فزیبلٹی لے کر وزارتِ پانی و بجلی کے پاس آ گئے۔ انہوں نے بڑے مؤثر طریقے سے پریزنٹیشن دی اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اپنے دونوں پلانٹس کو سستے ایندھن پر لے جائیں گے تو ان کی پیدا کردہ بجلی کی لاگت کم ہو جائے گی۔ وزارت میں بیٹھے ایک سمجھدار بندے نے (یہ پوری وزارت میں واحد شخص تھا جو پاور سیکٹر کا عملی تجربہ رکھتا تھا اور ڈیپوٹیشن پر آیا ہوا تھا‘ وگرنہ ساری وزارتِ پانی و بجلی بیور و کریٹس سے بھری پڑی تھی جنہیں پاور سیکٹر کی الف بے کا بھی علم نہیں تھا) سوال کیا کہ کیا اس کیلئے وہ وزارت سے نیا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں یا گزشتہ معاہدے کی توثیق (Extend)کرانا چاہیں گے؟ سیٹھ صاحب کہنے لگے: میں تو گزشتہ معاہدے کی ہی توثیق کیلئے آیا ہوں۔ مطلب یہ کہ آپ بجلی خریدیں یا نہ خریدیں‘ مجھے اس کے کپیسٹی چارجز ادا کرتے رہیں۔ یعنی جو معاہدہ اپنی مدتِ اختتام پر پہنچ کر ختم ہونے والا تھا‘ اسے نئے سرے سے زندہ کرانے آ گئے۔ اس سمجھدار نے سوال کیا کہ پھر حکومتِ پاکستان کو اپنے خرچے پر آپ کے پلانٹس کو سستے فیول پر تبدیل کرنے کے خرچے کی ادائیگی کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ اگلے دس سال تک آپ کے 80 فیصد قرضے کو بجلی کے بلوں کے ہاتھوں برباد ہونے والے صارفین کپیسٹی چارجز کی مد میں ایک بار پھر ادا کرنا شروع کر دیں۔ سیٹھ صاحب کہنے لگے کہ 'اک تے ایہہ بندہ ساڈا کم نئیں ہون دیندا‘ (ایک تو یہ بندہ ہمارا کام نہیں ہونے دیتا)۔
جب ڈالر کا ریٹ تین سو روپے کے قریب پہنچ گیا تو امریکی Cents میں کی جانے والی فی یونٹ کی رقم آسمان پر پہنچ گئی تب ان معاہدوں پر نئے سرے سے جانچ پڑتال کا شوروغوغا مچا۔ اس وقت وزارتِ بجلی کے سیکرٹری عرفان علی نے ان معاہدوں کے مندرجات کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں آئی پی پیز کی جانب سے ہونے والی خلاف ورزیوں کو بنیاد بنا کر معاہدوں کو منسوخ یا ان میں ترمیم کا بیڑا اٹھایا اور ان پر سنجیدگی سے کام شروع کردیا۔ ساتھ ہی انہوں نے بجلی چوروں کے خلاف بلا تخصیص کارروائی کا آغاز کر دیا۔ ریٹائرمنٹ کے قریب عرفان علی جاتے جاتے کوئی قابلِ ذکر کام کر جانے کے خیال سے اس کام میں جُت گئے۔ بجلی چوروں اور بجلی گھروں کے بینی فشریز کا تعلق کسی ایک پارٹی سے نہیں تھا‘ اس حمام میں سارے ننگے تھے۔ نہ تو معاہدے کسی ایک حکومت کا کارنامہ تھے اور نہ ہی اس کے بینی فشریز کا تعلق کسی ایک سیاسی پارٹی یا طبقے سے تھا۔ یہ سب اس طبقۂ اشرافیہ کے نمائندے تھے جس نے اس ملک کے سارے وسائل کا رُخ اپنی جانب کر رکھا ہے۔ اس ملک کے پسے ہوئے مقہور و مظلوم عوام کے خون سے تجوریاں بھرنے والے اس گروہ میں ہر پارٹی سے تعلق رکھنے والے شامل تھے مگر باوجود اپنے سیاسی اختلافات کے یہ گروہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ''یک جان سو قالب‘‘ جیسے نظریے پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ سارے مفاد پرست عرفان علی کے خلاف یکجا ہو گئے۔ میرٹ کے نعرے پر آئی ہوئی حکومت نے تھوڑا عرصہ بعد ریٹائر ہو جانے والے سیکرٹری بجلی کو او ایس ڈی بنا کر گھر بھیجنے کے ساتھ ہی اس واحد سمجھدار اور ٹیکنیکل شخص کی ڈیپوٹیشن ختم کرکے واپس اس کے ادارے میں بھجوا دیا اور ایک ایڈیشنل سیکرٹری کو‘ جسے بجلی کے معاملات کی کافی حد تک شُدبُد ہو چکی تھی‘ دوسرے محکمے میں بھیج دیا۔ اس طرح بیک جنبش قلم وزارتِ بجلی کی ساری Institutional memory صاف کر دی گئی۔ اس کی گلیاں سُنجیاں ہو گئیں اور آئی پی پیز کے مرزے یار مزے سے ان گلیوں میں اپنی اپنی صاحباں کے ساتھ موج میلے میں مصروف ہو گئے۔
وزارتِ بجلی ساری کی ساری بیوروکریٹس سے بھری ہوئی ہے اور آئی پی پیز سے معاہدوں کے دوران ان کی نالائقی اور بدنیتی کے امتزاج نے جو گل کھلائے تھے اسے ساری قوم بھگت ہی رہی ہے‘ ان معاہدوں میں لکھی جانے والی وہ چند شرائط‘ جو آئی پی پیز کو کسی حد تک قواعد کا پابند کرتی تھیں‘ ان کی نہ تو مانیٹرنگ کی گئی اور نہ ہی ان کی خلاف ورزی پر کوئی ایکشن لیا گیا۔ میں اپنی خوش گمانی کے باعث اس کی وجہ وزارت کے افسران کی بے ایمانی یا بدنیتی نہیں سمجھتا‘ تاہم یہ صاف صاف نالائقی پر مبنی رویہ تھا۔ ایک افسر جو پہلے وزارتِ ریلوے میں کام کر رہا تھا‘ اس سے قبل وزارتِ ماحولیات اور اس سے پہلے اوقاف کا ایڈمنسٹریٹر رہا‘ اس قسم کے لوگوں کیلئے ہی Jack of all trades, master of none کا انگریزی محاورہ بولا جاتا ہے۔ بجلی کے معاملات کو سمجھنے والے کائیاں‘ شاطر‘ ماہر اور تجربہ کار لوگوں کے مقابلے میں اپنی تعلیمی قابلیت‘ افسرانہ شان اور عہدے کی طاقت کے خمار میں مبتلا بیورو کریٹ اس اہلیت سے بالکل عاری ہیں جو اس انتہائی ٹیکنیکل اور پیچیدہ شعبے کو سمجھنے اور چلانے کیلئے درکار ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اس وزارت کے کرتا دھرتا ٹیکنیکل معاملات میں مشاورت کیلئے پاور سیکٹر کے دو چار سمجھدار اور نیک نام لوگوں کو اپنی مدد کیلئے‘ خواہ کنٹریکٹ پر ہی سہی‘ مگر اس سسٹم کا حصہ بنائیں۔ تاہم خیال رہے کہ یہ نام نہاد ماہرین اور مشیر اس قسم کے لوگ نہ ہوں جس طرح عمران خان نے اپنے زمانے میں تابش گوہر اور ندیم بابر جیسے لوگوں کو ان وزارتوں پر مسلط کر دیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے ذاتی مفادات ان وزارتوں سے جڑے ہوئے تھے اور وہ عوام یا حکومت کے مفادات کے تحفظ کے بجائے ذاتی مفادات کی نگرانی کرتے رہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved