تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-09-2024

قومی ترانہ اور امتِ مسلمہ

مذہبی سیاست کے دو نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ ایک کا تعلق ایران سے ہے۔ دوسرے کا افغانستان سے۔
ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای صاحب نے بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر امتِ مسلمہ کے سیاسی احیا کی بات کی۔ انہوں نے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا ذکر کیا اور 'امتِ مسلمہ‘ کو ان کے مصائب کی جانب متوجہ کیا۔ اس تذکرے میں انہوں نے بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ریاستی مظالم کو بھی بیان کیا جس پر وہاں کی حکومت سیخ پا ہے۔
دوسرا نمونہ اسی دن ہم نے پشاور میں دیکھا۔ طالبان کے سفارت کار ایک سرکاری تقریب میں شریک ہوئے مگر پاکستان کے قومی ترانے کے اعزاز میں کھڑے نہیں ہوئے۔ یہ رویہ بین الاقوامی تعلقات کے مروجہ آداب سے متصادم ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اس اقدام کا سبب ترانے میں موسیقی کا استعمال ہے۔ اگر اس میں موسیقی نہ ہوتی تو وہ پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں ضرور کھڑے ہوتے۔
ایران اور افغانستان کی سیاسی قیادت مذہبی طبقات کے پاس ہے۔ یہ معروف معنوں میں پاپائیت ہے۔ ایران کی مذہبی قیادت کا وژن مگر طالبان سے مختلف ہے۔ ایرانی علما کا سیاسی شعور گہرا ہے۔ اس کے پس منظر میں صدیوں کی تاریخ ہے۔ ایک سیاسی تحریک کو وقت کے ساتھ ایک مذہبی لباس پہنا دیا گیا۔ اس تحریک میں مغز کی حیثیت سیاست کو حاصل تھی اور پوست کی مذہب کو۔ اس طرح مذہب کی جو تعبیر سامنے آئی وہ سیاسی تھی۔ مذہب کو سیاسی تعبیر دینے کے لیے وہاں کے علما نے جو علمی و فکری کام کیا‘ وہ غیرمعمولی ہے۔ 'اخباری‘ علما کا طبقہ اگرچہ اس تعبیر سے متفق نہیں رہا مگر 'اصولیین‘ کا غلبہ رہا جو سیاسی تعبیر کے قائل تھے۔
اس تحریک نے جس علمی روایت کو جنم دیا‘ اس میں سیاسی شعور پختہ تر تھا۔ اصولیین کے اس مؤقف کو آیت اللہ خمینی صاحب نے نقطۂ کمال تک پہنچا دیا جب انہوں نے نائبِ امام کے تصورکو نیا مفہوم دیا اور ولایتِ فقیہ کو جدید عہد سے ہم آہنگ کر دیا۔ اسی تعبیر کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ 'امتِ مسلمہ‘ کا سیاسی تصور اس روایت کے اندر پوری قوت کے ساتھ سامنے آیا۔ ایران اگرچہ روایتی طور پر امتِ مسلمہ کے ایک اقلیتی گروہ کی نمائندگی کرتا ہے جس کی مذہبی تعبیر میں 'امت‘ ایک وِلن کے استعارے کے طور پر موجود ہے مگر جدید قیادت نے اس پیراڈائم کو بدل دیا۔ ایران کی قیادت نے آگے بڑھ کر امت کا عَلم اٹھا لیا۔ اس نے ایک مظلوم اقلیت کے بجائے اب امتِ مسلمہ کی اکثریت کی نمائندگی اپنے ہاتھ میں لے لی‘ جس میں وِلن کی حیثیت مسلم دنیا کی سیاسی قیادت کو دے دی گئی جو مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر خاموش ہے اور 'امتِ مسلمہ‘ کی سیاسی نمائندگی کی اہل ثابت نہیں ہوئی۔
امتِ مسلمہ کا سیاسی تصور‘ بطور ریاست ایران کے مفادات سے کبھی ہم آہنگ ہوتا ہے اور کبھی متصادم۔ بھارت سے ایران کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ ایران پر ایک الزام یہ رہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر یا بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز نہیں اٹھاتا۔ آیت اللہ خامنہ ای صاحب نے اس الزام کا عملی جواب دیا اور بھارت کے مظلوم مسلمانوں کی بات کی۔ بھارت کی حکومت نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا اور محلے کی لڑاکا عورتوں کی طرح جوابی الزام تراشی سے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی۔ خامنہ ای صاحب کے اس اقدام نے ان کی اخلاقی حیثیت کو مستحکم کیا ہے۔ انہوں نے امتِ مسلمہ کی سیاسی نمائندگی کی ہے۔ اس سے ایران کو وقتی طور پر بھارت کی ناراضی کا سامنا ہو گا لیکن وسیع تر تناظر میں ایران کو اس کا فائدہ ہو گا۔
دوسری طرف طالبان کی کوئی سیاسی اور علمی تاریخ نہیں ہے۔ وہ فقہ حنفی کی روایت سے تعلق رکھتے ہیں جس کی تقلید پر انہیں اصرار ہے۔ یہ روایت دین و دنیا میں تفریق کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ عباسیوں کے دور میں جب فقہ حنفی نے ایک منظم صورت اختیار کی‘ مسلمانوں میں سیاسی اور علمی قیادت کے دو الگ الگ مراکز وجود میں آ چکے تھے۔ علما کا کام صرف علمی راہنمائی تک محدود ہو چکا تھا۔ قضا اور دارالافتا علیحدہ ہو چکے تھے۔ علما اپنی رائے تو دے سکتے تھے مگرقوتِ نافذہ ان کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ بعد میں عثمانیوں نے اس روایت کو برقرار رکھا۔ ہارون الرشید کی طرح فقہ حنفی کی سرپرستی کی مگر علما کو امورِ سیاست میں شریک نہیں کیا۔
طالبان‘ ہنگامی طور پر سیاست میں آئے۔ ملکی خلفشار انہیں سیاست میں لے آیا۔ یہ نہیں ہوا کہ وہ ایرانی علما کی طرح مذہب کی کسی دینی تعبیر کے قائل تھے اور اس کے نفاذ کی جد وجہد کررہے تھے۔ وہ دینی مدارس میں پڑھتے تھے اور غیرارادی طور پر سیاست میں آ گئے۔ وہ ریاست کا سادہ سا تصور رکھتے ہیں جو صدیوں پرانا ہے اور جس کے بارے میں انہوں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ وہ مسلمانوں کی مثالی ریاست تھی۔ وہ اب اسی کو افغانستان میں متشکل کرنا چاہتے ہیں۔ سیاست اب کیا صورت اختیار کر چکی‘ امتِ مسلمہ کا سیاسی وجود کیا ہے‘ بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت کیا ہے‘ یہ سوالات شاید اس سنجیدگی کے ساتھ ان کے ہاں زیرِ بحث نہیں آئے۔طالبان نے اسی لیے امتِ مسلمہ کے کسی سیاسی تصور سے کبھی عملی ہم آہنگی کا اظہار نہیں کیا۔ ان کی تمام تر دلچسپی افغانستان کے حالات اور مفادات سے ہے۔ اس کے ساتھ وہ دین کے معاملے میں قدیم فقہا کی آرا ہی کو شریعت سمجھتے ہیں۔ تعلیمِ نسواں‘ موسیقی اور دیگر تہذیبی مسائل میں ان کا دینی فہم واضح ہے۔ قومی ترانے کے بارے میں ان کا مؤقف اس فہم کا تازہ ترین مظہر ہے۔
یہ دو رویے ہمارے سامنے ہیں۔ ان سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی سیاسی قیادت مذہبی طبقات کے ہاتھ میں آ جائے تو ریاست کی صورت کیا ہو گی۔ اس سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ جو معاشرہ دنیا سے کٹ جائے اس کا علمی و فکری ڈھانچہ کیا ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے طالبان‘ پانچ برس بعد بدل جائیں جیسے ایران کی مذہبی قیادت فنونِ لطیفہ کے باب میں آج ایک مختلف رائے رکھتی ہے۔ ان رویوں سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مذہبی ذہن اپنی ترجیحات کس طرح طے کرتا ہے۔
میرا احساس ہے کہ آج مسلم ممالک میں ایران کی قیادت کا سیاسی شعور سب سے پختہ ہے۔ میں اس وقت غلط اور صحیح کی بحث نہیں اٹھا رہا۔ میں صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ کون سیاسی حرکیات کو بہتر طور پر سمجھتا ہے۔ پالیسی ہمیشہ سیاسی حرکیات کی تفہیم پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر سیاسی قیادت سیاست کے فہم سے خالی ہے تو اس کی حکمتِ عملی میں بھی خلا ہو گا اور وہ حالات سے ہم آہنگ نہیں ہو گی۔ ایران سیاسی فہم کے باب میں ہم عصر مسلم قیادت سے بہتر جگہ پر کھڑا ہے۔ طالبان کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی تفہیمِ سیاست و ریاست ان کے لیے مسائل میں اضافے کا باعث بنے گی۔
اہم سوال یہ ہے کہ ایران کیا امتِ مسلمہ کے سیاسی تصور کو زندہ کر سکے گا؟ کیا امت ایران کی سیاسی قیادت کو قبول کر لے گی؟ کیا ایران اس مقصد کے لیے اپنے فہمِ تاریخ پر نظر ثانی کر سکتا ہے جس طرح اس نے اپنے بعض فقہی تصورات میں وسعت پیدا کی؟ کیا طالبان کے وژن میں اجتہاد کو جگہ ملے گی؟ ان سوالات کے جوابات آسان نہیں۔ تاہم یہ سوالات ایک تحقیق کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس وقت تو معلوم ہوا ہے کہ پاکستان نے افغانی سفارت کاروں کے اس فعل کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستانی سیاسی قیادت کا سیاسی شعور بھی اپنی جگہ تحقیق کا دلچسپ موضوع ہو سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved