میرا تعلق کنارے پر کھڑے ہو کر کھیل تماشا دیکھنے والے تماش بین قبیلے سے ہے۔ ہمارا زمانہ پُررونق تھا‘ سماجی فضا میں تازگی تھی‘ امید کی ہر صبح روپہلی تھی‘ سیاست میں گرمی سہی‘ مگر تپش نہیں تھی۔ خوشگوار ہوائوں سے دھرتی اجنبی نہیں تھی۔ ہر شہر‘ گائوں اور قصبے میں بہاروں کا رنگ غالب تھا۔ لوگوں میں سادگی‘ نفاست‘ ایمان داری اور خلوص تھا۔ دروغ گوئی‘ منافقت‘ دوغلاپن اور رشوت خوری بہت بڑے عیب سمجھے جاتے تھے۔ جمہوریت تو ایوب خان کے زمانے میں ''بنیادی‘‘ تھی‘ مگر آزادیوں کا دائرہ وسیع تھا۔ خوف کی کیفیت وہ نہیں تھی جو اب پکے جمہوری دور میں محسوس ہوتی ہے۔ سیاسی رہنمائوں میں جرأت مندی‘ سچائی اور صاف گوئی نمایاں تھی۔ بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام کی روایت ''پارسائی‘‘ کے اُس دور میں پڑی جس کی سیاسی پیداوار بھی آج اس کا حوالہ دیتے ہوئے کنی کتراتی ہے‘ مگر ایک سیاسی کلچر اس دہائی میں تشکیل پایا اور لوگ اس کی کرامات کے قائل ہو گئے۔ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو اور اُن سے قبل غلام محمد اور اسکندر مرزا وغیرہ کوئی کم نرگسیت پسند‘ ذاتی مفاد اور خود پسندی کا شکار نہیں تھے۔ منافقت کا کوئی پہلو کسی بھی شخص میں نکالنا چاہیں تو نکل سکتا ہے‘ مگر سب کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے جو بھی کیا (بھلے سب نے ملک کا بیڑا غرق ہی کیا) مگر سب کو معلوم تھا کہ وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ وہ اتنے سادہ اور معصوم نہیں تھے اور نہ ہی سیاسی جادوگری میں طفلِ مکتب‘ مگر کچھ آزادیاں تھیں اور لوگ بھانپ لیتے کہ ان کی اگلی چال کیا ہے‘ کیا ذرائع وہ استعمال کر رہے ہیں‘ اور اصل مقاصد کیا ہیں۔ حزبِ اختلاف کے سیاست دان‘ صحافی اور دانشور آواز اٹھاتے‘ مگر ان کی آوازوں کو اور ان کو دبانے کے لیے وہ ہتھکنڈے استعمال نہیں ہوتے تھے جو ہم گزشتہ چند سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ہمارے سماجی ماحول میں گھٹن‘ ناورا پابندیاں اور تشدد ابھی داخل نہیں ہوئے تھے۔ مباحثے ہوتے تھے‘ اختلاف تو صحت مند معاشرے کی علامت ہے‘ جو موجود تھا‘ مگر ہر طرف رونق میلوں کا ساماں تھا۔ ہر سطح پر تخلیقی عمل کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ ہر شہر‘ ہر کالج اور ہر جامعہ میں مشاعرے ہوتے تھے‘ ڈرامے ہوتے تھے‘ یہاں تک کہ دور دراز کے مڈل سکولوں میں بھی ہر سال کم از کم ایک ڈرامہ ہم طالب علم عوام کے سامنے پیش کرتے تھے۔ دو سال متواتر اس درویش نے ایک ڈرامے میں کردار ادا کیا۔ ہر ہفتے ایک نئی فلم کی نمائش ہوتی تھی۔ فلم بینی اس زمانے میں اہلِ ذوق کا مشغلہ تھی۔ حال ہی میں ناصر کاظمی صاحب کی ڈائری کے اوراق پڑھے اور اگر آپ کو فرصت ہو تو ضرور پڑھیے گا۔ ایک دور کی سماجی کیفیت آپ کے سامنے ہو گی۔ کوئی شاعر‘ ادیب‘ دکاندار‘ طالب علم اور نوجوان ایسا نہ تھاجو سینما گھروں میں جا کر فلم نہ دیکھتا ہو۔ کالج اور پنجاب یونیورسٹی کے زمانے میں شاید ہی کوئی ایسی نئی فلم ہو جو میں نے نہ دیکھی ہو۔ آج جس طرح خوف‘ مایوسی اور مخدوش مستقبل کے سائے میں ہم زندگی گزار رہے ہیں‘ اس سے ہم آزاد تھے۔ جنگی حالات میں بھی اتنا تنائو اور اتنے شدید جذبات نہیں ہوتے جتنے ہمارے ہاں سیاسی اور ثقافتی اختلافات پر پائے جاتے ہیں۔ اُس زمانے میں ''ایک گناہ اور سہی‘‘ جیسی فلمیں بھی بنتی تھیں۔ آج تو خوف آتا ہے کہ اگر فلم کے نام میں ''گناہ‘‘ شامل ہو تو کہیں فتووں‘ دھمکیوں اور حملوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میں نے یہ فلم دو مرتبہ دیکھی تھی۔ اس کا مرکزی کردار صبیحہ خانم نے ادا کیا تھا۔ ملک کی آج کل کی سیاست‘ خاص طور پر گزشتہ دو تین ہفتوں کی سیاسی کارروائیوں کے پیشِ نظر جی تو کر رہا تھا کہ کالم کا عنوان ''ایک گناہ اور سہی‘‘ رکھوں‘ مگر اپنی کمزور دلی ہر بار آڑے آ جاتی ہے۔ سوچا کہ ''ایک تماشا اور سہی‘‘ سے کچھ جان بخشی ہو جائے گی۔
اوپر ایک سیاسی روایت کا ذکر کیا ہے جسے ہم مرحوم ضیاء الحق سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کے دستِ شفقت کا فیض یافتہ لاہور کا سیاسی گھرانہ ہو یا ان کے سخت سیاسی مخالفین میں سے نواب شاہ کا سیاسی کنبہ ہو‘ اس روایت کی برکات کے اپنی عملی سیاست میں قائل نظر آتے ہیں۔ ضیاء الحق سے قبل ایسی کامیاب سیاست کسی نے نہیں کی تھی‘ اور وہ بھی وردی میں‘ اور وردی میں بھی وہ بندہ جس کے بارے میں عام قیاس تھا یا کم از کم ذوالفقار علی بھٹو کا خیال تھا کہ یہ تو ''مولوی‘‘ ہے‘ کہ دیکھنے میں بے ضرر ہے‘ اور اس سے کم خطرہ ہو گا۔ اس شام جس کی رات ضیاء الحق نے اپنے سیاسی باس کا تختہ الٹنا تھا‘ دونوں امریکی سفارت خانے میں یوم آزادی کی تقریب میں مدعو تھے۔ ضیاء الحق اپنے مخصوص انداز میں مہمانوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
اگلے روز ذوالفقار علی بھٹو مری کے ریسٹ ہائوس میں بند تھے۔ ضیاء الحق ان سے ملاقات کرنے چلے آئے۔ خود اعتمادی اور حوصلہ ہو تو ایسا۔ کہا کہ ''سر! ذرا حالات بہتر ہوں تو انتخابات کرائیں گے‘‘۔ کاش بھٹو سے جو اس ملاقات میں منسوب باتیں ہیں‘ وہ اگر نہ کرتے تو بہتر تھا۔ لیکن وہ صاف گو تھے۔ اُن پر ایک اور سیاسی رویے کی چھاپ تھی۔ دل کی بات چھپا نہ سکے۔ پھر اگلے روز جنرل صاحب نے جب ''میرے ہم وطنو!‘‘ والی تقریر میں 90 روز میں انتخابات کا وعدہ کیا‘ پھر جو کچھ ہوا‘ وہ آپ کے علم میں ہے۔ اور اگر نہیں تو پھر شاید جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کا بھی آپ حقیقی ادراک نہ کر سکیں۔
پاکستان کی تاریخ میں طاقتور افراد اور گھرانوں میں سے دو نے ایک ایک دہائی سے زیادہ عرصہ حکومت کی ہے‘ مگر جس ایک عشرے نے پاکستان کے سیاسی کلچر پر سب سے زیادہ اثر چھوڑا‘ وہ ضیاء الحق کی سیاست کا دور ہے۔ کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ ان کی اگلی چال کیا ہو گی‘ کبھی کسی کو اپنے پتے نہ دکھاتے۔ اصلی آمریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ سب آمر دنیا میں اکیلے تھے۔ سٹالن‘ ہٹلر‘ مائوزے تنگ ہوں یا ہمارے ضیاء الحق۔ ''بغل میں چھری اور منہ میں رام رام‘‘ میں کمال کی فصاحت و بلاغت ہے۔ ان آٹھ الفاظ میں ہماری سیاست کا نچوڑ نظر آتا ہے۔ شنید ہے کہ کوئی قانون بننا ہے‘ اور بے شک وہ کسی ایک یا چند افراد کے فائدے کیلئے ہی کیوں نہ ہو‘ اسے قومی مفاد کے گہرے رنگ میں رنگا جانا ہے۔ یہ میں صرف موجودہ حکومت کی بات نہیں کر رہا کہ ذاتی مفاد کی قانون سازی میں ایسی عجلت اور راز داری کہ کابینہ کے اراکین کو بھی پتا نہیں کہ پارلیمان میں ہمارے محترم نمائندوں کو صرف ہاتھ کھڑا کرنے کا حکم ملتا ہے۔
آئین میں ترمیم کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا‘ اور وہ بھی ایسی کہ مبینہ طور پر پچاس سے زیادہ دفعات میں ترامیم ہوں۔ سمجھیں کہ اتنی ہی تبدیلیاں‘ اور ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کیا ہیں۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ ایسا کیا جا سکتا ہے کہ ملک اور قوم کی ایسی کی تیسی۔ ہم تو وہ کریں گے جس میں ہمارا مفاد ہے۔ اور وہ کیا مفاد ہے‘ کچھ معلوم ہے یا ہم آپ کو بتائیں؟ کہاں ہماری آزادیوں کا دور اور کہاں آج کی مسموم‘ زہریلی فضا۔ ہم آپ کو نہیں بتا سکتے کہ ان ترامیم کا مرکزی کردار کون ہے‘ اُن کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور چھپے عزائم کی نوعیت کیا ہے۔ کوئی جمہوری ملک ہوتا تو مہینوں ایسی تجاویز پر بحث ہوتی‘ صرف ایوان میں نہیں بلکہ میڈیا پر اور سماجی حلقوں میں بھی‘ تاکہ قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ ضیاء الحق تو اللہ کو پیارے ہو گئے‘ مگر اپنے قیمتی سیاسی ورثے میں سے ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور ہمیں ان کی سیاسی وراثت کے وبال سے محفوظ رکھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved