آج پھر وہی روٹین کا مخمصہ درپیش ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایسی قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے‘ جس کی 77سالہ عمر ''انجینئرڈ‘‘ وسوسوں کی نذر ہو گئی‘ وہاں قومی استحکام نہیں بلکہ وسوسوں کا ہنگام ہی راج کرے گا۔ ایک تازہ ترین وسوسہ حضرتِ محمد علی جناح کے دیے ہوئے پاکستان کے مشرقی بازو سے شروع ہوا ہے۔ اس وسوسۂ تازہ نے دہلی سے لاہور تک ہلچل سی مچا دی۔ اسلام آباد کومے جیسی خاموشی کا شکار ہے‘ لیکن دہلی کی مودی سرکار اس بات پر حیران ہو گئی کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں یومِ قائداعظم کی تقریب منعقد ہوئی‘ جو قائداعظم کے مغربی پاکستان میں بھی منعقد نہ ہو سکی۔ اس تقریب کے بعد بنگال کے جن صحافیوں اور دانشوروں کو انڈین ٹی وی چینلزنے گفتگو کے لیے بلایا ان سب نے کہا کہ ہماری آزادی کے ہیرو محمد علی جناح ہیں جنہوں نے ہمیں فرنگی راج کے تسلط سے آزادی دلوائی۔
دوسرا وسوسہ یہ ہے کہ پچھلے 77سال میں ہمارے اقتدار کے قبضہ مالک ٹولے کو قائداعظم سے محبت کا صرف اور صرف ایک ہی دستاویز پسند آیا۔ وہی دستاویزی گارنٹی‘ جو بینک دولت پاکستان قائداعظم کی تصویر سمیت دن رات پرنٹ کرتا رہتا ہے۔ ایلیٹ مافیا کو خاص طور سے اس پرنٹنگ کا پانچ ہزار والا نوٹ قائداعظم سے محبت کی سب سے لازوال نشانی نظر آتا ہے۔ بالکل شاہجہاں کے تاج محل جیسا محبت کا لافانی شاہکار۔
تیسرا مخمصہ ذرا مزید باریک واردات والا ہے جسے سمجھنے کے لیے غور کریں۔ کیا دنیا میں کوئی دوسرا ایسا ملک ہے جہاں 60سے زیادہ ٹی وی چینلز‘ 30سے زیادہ ایف ایم ریڈیو اور آٹھ سے زیادہ پبلک بجٹ اور ٹیکس پیئرز کے پیسے سے چلنے والے چینلز‘ جن پر صرف اور صرف سیاست‘ سیاست‘ سیاست کا وظیفہ دہرایا جاتا ہو۔ بِلا ناغہ‘ بِلا توقف اور 24/7۔
ایک طرف سرکار آدھی رات کے وقت متفقہ آئین کو بدلنے کی نوٹنکی رچا رہی تھی۔ دوسری جانب آئی پی پیز کو ملنے والی بجلی کی پیداوار سے زیادہ کپیسٹی پیمنٹ 923ارب 81کروڑ تک جا پہنچی۔ سب سے زیادہ اضافہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کودیے گئے پیسوں میں ہوا۔ جن میں چائنہ حب کی پیمنٹ 40ارب اور تھر کول بلاک نمبر وَن کی پیمنٹ میں 93ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔ آئی پی پیز کے تین پاور پلانٹس ایسے بھی ہیں جنہوں نے ابھی فنی خرابیوں کی وجہ سے شریفوں والے دھیلے اور قصیرے کی بھی بجلی نہیں بنائی‘ مگر ان میں سے ایک 35ارب‘ دوسرا 77ارب اور تیسرا 19ارب لے اُڑا۔ یہ اس قدر بھاری سرکاری بھتہ ہے جو عوام نے اگلے 36سے 40برس تک ادا کرتے رہنا ہے۔ اسی دوران ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پتنگ بازی قابل سزا جُرم بن گیا۔ ملک بھر کی عدالتوں میں بڑے سرمایہ داروں نے تین ہزار 760ارب روپے کے سرکاری ٹیکسوں پر سٹے آرڈرز لے رکھے ہیں۔ دیہاتی کسان مرد اور عورتیں خودکشیاں کر رہے ہیں‘ بچے بیچنے کے لیے بازار میں لا رہے ہیں‘ لیکن قوم کو اُلوؤں کی ڈار سمجھا جا رہا ہے۔
شاید اسی لیے آج پھر سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وکالت نامہ چی گویرا سے شروع کروں یا ایڈولف ہٹلر سے اس کا آغاز کروں۔ 1973ء کے متفقہ دستور کے بانی کا پہلے ذکر کروں یا اس کے نام پر بننے والے قاتل و مقتول کے اتحاد کا۔ پی ڈی ایم نامی ایسا اتحاد جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے آئین کا ڈیتھ وارنٹ پیکیج جاری کر دیا۔ چی گویرا نے غاصبوں کے ایجنڈے کو وَن لائنر میں یوں بیان کیا تھا ''غلام قوموں کو اتنا ذلیل کرو کہ وہ جینے کو ہی ترقی سمجھ لیں‘‘۔ چی گویرا کا یہ قول مستقبل کی تمام نسلوں کے لیے ایسا آئینہ ہے جہاں ہر غلام اپنا اُترا ہوا چہرا بخوبی پہچان سکتا ہے۔ ایک اور منظر نامہ بھی ہے جس میں ہمارے نئے مِڈ نائٹ آئین کے پنجے اور ناخن واضح طور پہ پہچانے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں سال 1933ء میں واپس جانا پڑے گا جہاں جرمن ورکرز پارٹی کے لیڈر ایڈولف ہٹلر رجیم چینج کے ذریعے متحدہ جرمنی کے مسندِ اقتدار پر قبضہ جما چکے ہیں۔ نازی رجیم نے جرمن قوم کے عظیم مفاد میں ایک سُپر سپریم کورٹ بنائی جس کے ذریعے آزاد لکھنے والوں کے ہاتھ توڑنا‘ آزاد بولنے والی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند کر دینا اور متحدہ جرمنی میں نازی پارٹی کو سنگل پارٹی کے طور پر جرمن عوام سے قبول کروانے کا سادہ ایجنڈا آدھی رات کو بنایا گیا۔ ایڈولف ہٹلرنے نازی جرمنی کی عام عدالتوں کو پامال کرتے ہوئے جو متوازی عدالت بنائی اس کا نام Sondergerichte یعنی Special Courts رکھاگیا۔ اس ایک عدالت کے ذریعے جرمنی کے سارے دوسرے جوڈیشل سسٹم اور انصاف کے اداروں پر عملاً تالے پڑ گئے۔ فارم 47کے ذریعے چور تہائی والی حکومت نے ایک ایسا ہی آئینی پیکیج تیار کیا جس سے گوئبلز کا منہ اور ہٹلر کی روح‘ دونوں تڑپ اٹھے۔
اب آئیے آئین کے ڈیتھ وارنٹ پیکیج کے کچھ نتائج کی جانب جن کی وجہ سے رات کے شہباز عدلیہ پر شب خون مارنے نکلے تھے۔
عدلیہ پر رات کے شہبازوں کے شب خون کا پہلا نتیجہ: پاکستان میں Life Expectancy یعنی اوسط عمر 66 سال 10دن ہے۔ نصف شب کے پیکیج کے مطابق جس شخص کی اوسط عمر 66سال ہے‘ اس کو لازماً 68 سال نوکری کرنی پڑے گی۔ یعنی ایک سال 11ماہ اور 21دن اسے مر مر کر جینا پڑے گا۔
عدلیہ پر رات کے شہبازوں کے شب خون کا دوسرا نتیجہ: ملک میں نفرت‘ تشدد‘ تقسیم‘ بدترین پولرائزیشن‘ شدید ترین مہنگائی‘ ناقابلِ بیان محرومیاں‘ دولت کی تقسیم میں سرکار‘ دربار اور ریاست کا شہریوں سے ذلت آمیز سلوک۔ پھر وہ ملک جہاں نوجوان ڈگریاں تھامے نوکریوں کے لیے ہر روز مایوس ہو کر گھر لوٹتے ہیں اور اگلے دن در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے پھر گونگے اور بہرے سفارشی افسروں کے سامنے انٹرویو کی لائن میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وہاں کسی ایک آدمی یا کچھ لوگوں کے لیے اکبرِ اعظم سے زیادہ سہولتیں اور اورنگزیب عالمگیر سے زیادہ پروٹوکول اور مراعات صرف مزید تقسیم‘ بغاوت اور نفرت کو جنم دے سکتے ہیں‘ 25کروڑ لوگوں کی مایوسیاں ختم نہیں کر سکتے۔
عدلیہ پر رات کے شہبازوں کے شب خون کا تیسرا نتیجہ: اس کے دو حصے ہیں۔ پہلا وہ جہاں جمہوریت کی مالا جپنے والے نے ہمارے دوست کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کو آئینی ترمیم والا بند سیاہ لفافہ پکڑایا۔ وہ بھی سیاہ رات کے دو بجے۔ دوسرا وہ جہاں منہ لٹکائے ہوئے (ن) لیگی کہہ رہے ہیں آئینی پیکیج کا مسودہ ایک نہیں بلکہ پانچ مسودے گردش میں ہیں۔ پیکیج کی سیل پیک شدہ کہانی میرے پاس بھی ہے‘ پیکیج آئے گا تو ضرور کھولیں گے ۔اندازہ کریں! یہ ہیں وہ لوگ جنہیں 40سال سے ایٹمی ریاست اور قوم کی پاسبانی سونپی گئی۔
میں نے اس دورِ تہی دست میں کیا کیا دیکھا؟
سوچتا ہوں تو خیالات صدا دیتے ہیں
دفعتاً پڑتی ہے آئینۂ افکار پر چوٹ
للعجب! جادہ و منزل بھی دغا دیتے ہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved