تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     30-10-2013

ہمارا پانی اور بھارتی سپریم کورٹ

آخر کار وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف ضمیر کی آواز پر یہ کہتے ہوئے پھٹ پڑے کہ ’’بھارت پاکستانی دریائوں پر53 بجلی گھر اور سات ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس سے پندرہ سال کے اندر اندر پاکستان ایتھوپیا بن کر رہ جائے گا‘‘۔ جو کچھ خواجہ صاحب نے پچیس اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں فرمایا ،اس کی مکمل تفصیل دس ماہ قبل17 دسمبر2012ء کو یہ کالم نگار ’’ بھارت کے آبی حملے‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے کالم میں قوم کو خبردار کر چکا ہے کہ بھارت چناب کشن کنگا اور دریائے سندھ پر بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی ہر حد کو پار کرتے ہوئے 53 بجلی گھراور سات ڈیمز کی تعمیر میں تیزی سے مصروف ہے۔ اپنے اس کالم میں بجلی گھروں کے نام اور دوسری تفصیلات بھی درج کی گئی تھیں۔ شکر ہے‘ دس ماہ بعد خواجہ آصف کی رگوں میں دوڑنے والے خواجہ صفدر مرحوم کے خون نے جوش مارا۔ کیا اب بھی خواجہ صاحب کی جماعت بھارت کو سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کا شورمچانے والوں کا ساتھ دے گی ؟ ہلاکو خان جب بغداد کی گلیوں کو خون سے رنگین کر رہا تھا تووہاں کے ’’علما‘‘ فروعی قسم کے دینی معاملات پر مناظرہ کر رہے تھے۔ یہی صورت حال آج پاکستان کی ہے۔ عوام اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ بھارت کو سب سے پسندیدہ قوم کا درجہ دیا جائے یا نہیں؟ اس بحث کے حق میں دلائل دینے والوں کا کہنا ہے کہ جب بھارت نے کئی سال پہلے پاکستان کو سب سے پسندیدہ قوم کا درجہ دے دیا تھا تو ہمیں ایسا کرنے میں اعتراض کیوں ہے؟یہ دلیل رکھنے والے لوگوں کا کہنا بجا لیکن دوسرے فریق کی نیت اپنی خوراک کیلئے مدمقابل قوم کی ہڈیوں تک کو چبانے کی ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ ایک طرف اصرار کیا جا رہا ہے کہ بھارت کو پسندیدہ قوم قرار دیا جائے اور دوسری طرف وہی بھارت ہمیں ملنے والے پانی کے ایک ایک قطرے کو ہم سے چھین رہا ہے۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ پسندیدہ قوم ہمیں بھوک اور پیاس سے مار دے؟ بھارت سے دوستی اور امن کی بھاشا بولنے والے دانشوروں کو چاہیے کہ وہ بھارت کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو دیکھ لیں جس میں بھارتی حکومت کو حکم جا ری کیا گیا ہے کہ وہ اس منصوبے پر اپنے کام کی رفتار تیز کر تے ہوئے 2016ء تک بھارت کے تمام دریائوں کو آپس میں مربوط کرے۔ حکم میں لکھا گیا ہے کہ 2016ء کی مدت میں ایک دن کی توسیع بھی نہیں کی جائے گی! بھارت سرکار کا اس کے ہمالیہ اورPeninsular Rivers سے منسلک تیس دریائوں کو آپس میں جوڑنے کا یہ منصوبہ مستقبل میں اس کے شہریوں کی ضروریات کے ساتھ ساتھ بھارت کی زرعی اور توانائی ضروریات میں آسانی پیدا کرنے کیلئے بنایا گیا ہے جس پر چھپن کھرب روپے لاگت آئے گی جس سے ہر سال سینکڑوںMCF پانی سمندر میں گر کر ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور اس پانی سے بھارت کی ہر ریا ست کی ضروریات کو بخوبی پورا کیا جا سکے گا۔ ایک طرف بھارت کا یہ منصوبہ ہے جسے اس کی سپریم کورٹ مکمل کرانے جا رہی ہے تو دوسری طرف کالا باغ ڈیم کو دفن کرنے سے ہر سال پاکستان کا قیمتی پانی سمندر میں غرق ہو رہا ہے۔ پاکستانیوں کیلئے یہ رپورٹ بھی حیران کن ہو گی کہ دریائوں کو انٹر لنک (یعنی آپس میں ملانے) کے اس منصوبے پر بھارت کے پہلے سے جاری آبی منصوبوں سے پچاس گنا زیا دہ رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ حکم بین الاقوامی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہے اور اگر صاف صاف لفظوں میں لکھا جائے تو یہ پاکستانیوں کے قتل عام کا حکم ہے کیونکہ 1960ء میںورلڈ بینک کی معاونت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرائے جانے والے انڈس بیسن معاہدے کی رُو سے بھارت کے مغربی حصوں کے دریا کسی دوسرے دریا سے تو دور کی بات ہے کسی دوسریDistributary سے بھی لنک نہیں کئے جا سکتے۔ لہٰذا بھارتی سپریم کورٹ کا یہ حکم قانون اور انصاف کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے نیلم پر جو کشن گنگا ڈیم کا تنازعہ چل رہا ہے اس کیلئے پاکستان نے ہیگ میں عالمی عدالت برائے انصاف میں ثالثی کا جو کیس دائر کیا تھا اس میں پاکستان کی طرف سے انڈس بیسن معاہدے کے آرٹیکل1X اور کلازG کے تحت جو سب سے اہم دو نکات اٹھائے گئے ہیں ان میں عالمی عدالت برائے انصاف کے چیئرمین سٹیفن ایم شیوبل سے سوال کیا گیا تھا کہ بنارمد متی نالہ کی جو بھارت کے کشن گنگا دریا سے منسلک ہے ،اس کا رخ تبدیل کیا جانا کیا اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ 31 مارچ1960ء کے پاک بھارت معاہدے کی اس شق کو ضرور پڑھ لیں جس کے مطابق ’’بھارت اس بات کا پابند ہے کہ مغربی دریائوں کے پانیوں کو پاکستان کی طرف بہنے دے اور ان پانیوں کے بہائو میں کسی بھی قسم کی کوئی رکا وٹ ڈالنے کی اجازت نہ دے‘‘۔ دریائے جہلم وادی کشمیر سے گزرنے کے بعد وولر نام کی ایک مشہور قدرتی جھیل میں جا گرتا ہے جوسری نگر سے 55 کلو میٹر نیچے واقع ہے اور اس کا پانی بہتے بہتے مقبوضہ کشمیر میں ہی سو پور کے مقام پر دوبارہ دریا بن جاتا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ تمام دریا جموں و کشمیر اور کچھ دوسرے بھارتی علا قوں سے ہوتے ہوئے پاکستان پہنچتے ہیں۔ اگر بھارت کے تمام دریائوں کو آپس میں انٹر لنک کر لیا گیا تو پھر اس سے پیدا ہونے والے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے میں صاف لکھا ہے کہ ’’کسی بھی دریا کے پاٹ کے تمام چینل اور کھاڑیاں(Creek) اس میں شامل سمجھے جائیں گے اور وہ تمام تالاب اور جھیلیں جو دریا کے پاٹ کو آپس میں ملانے والے ہوں اور جو اس دریا کا حصہ ہوں وہ دریا کے پاٹ ہی کا حصہ سمجھے جائیں گے۔ وولر جھیل دریائے جہلم کا ہی حصہ ہے اس لیے معاہدے کی رُو سے جہلم کا پاٹ وری ناک اور چناب کا پاٹ چندرا اور بھاگا ندیوں کے سنگم تک متصور ہوگا۔ دریائے چناب کا سارا پانی چندرا اور بھاگا دریائوں کے سنگم تک پاکستان کا ہے۔ دریا کے بہائو کے مخالف سمت چناب کے کنارے کنارے چلتے جائیں تو پورے پنجاب اور مقبوضہ کشمیر سے گزرنے کے بعد بھارتی صوبے ہما چل پردیش کے ضلع چمبہ میں ٹانڈی کے مقام اور کیلانگ کے مقام پر چندرا اور بھاگا کو دریائے چناب میں گرتے ہوئے بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قانون اور عدل کی رُو سے بھارت کو ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آخر دنیا میں دوسرے بھی ایسے دریا ہیں جو ایک سے زیا دہ ملکوں میں بہتے اور وہاں کی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved