تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     21-09-2024

مولانا فضل الرحمن کا عظیم کارنامہ

پچھلے ویک اینڈ پر حکومتی اتحاد نے اپنے تئیں ''عدالتی اصلاحات‘‘ اور آئینی ترجیحات کیلئے سٹیج سجا لیا تھا۔ حکومت چٹ منگنی پٹ بیاہ بلکہ بغیر منگنی سیدھا بیاہ کیلئے بھاگ دوڑ کر رہی تھی‘ مگر حالت یہ تھی کہ جن ممبرانِ پارلیمنٹ کے ووٹوں سے یہ ترمیمی بل پاس ہونا تھا انہیں کچھ خبر نہ تھی۔ اسی طرح کابینہ کی منظوری کیلئے اجلاس ہوا اور نہ ہی وزیروں کو معلوم تھا کہ وزیراعظم کی بند مٹھی میں کیا ہے؟
مولانا اپنے آستانے پر آنے والے بڑے بڑے حکومتی ستونوں سے اپنی روایتی مسکراہٹوں کے ساتھ گرم جوشی سے ملتے تو رہے مگر انہوں نے ''ایمان بالغیب‘‘ لانے سے مکمل انکار کر دیا‘ اس کے بعد کی ڈرامائی کہانی سب کو معلوم ہے۔ 18 ستمبر کو مولانا نے آئینی ترامیم کا حکومتی مسودہ مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ حکومت کے فراہم کردہ مسودے کو قبول کرنا امانت میں خیانت ہے‘ میں اس خیانت کے لیے تیار نہیں۔ جمہوری و پارلیمانی روایات کے مطابق منظر عام پر لانے کے بجائے آئینی ترامیم کا مسودہ پس پردہ اور صدری نسخے کی طرح سینے سے لگا کر رکھا گیا۔
حکومت کے اپنے فراہم کردہ مسودے کے مطابق کیا ''عدالتی اصلاحات‘‘ آنے والی تھیں‘ پہلے دل تھام کر ان کی ایک جھلک دیکھ لیجئے اور پھر سیاست کے ساتھ جو ہونے والا تھا‘ اس کا خلاصہ بھی آپ کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ مخصوص اہداف کے حصول کے لیے آئینی ترمیم کے ذریعے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا کر 68 برس کر دینے کی تجویز تھی۔ دوسرا‘ ایک نیا فیڈرل دستوری کورٹ بنایا جانا تھا۔ تیسرا‘ یہ کہ ججز کے تبادلے ایک جگہ سے دوسری جگہ ''حسبِ ضرورت‘‘ کیے جا سکیں گے۔ ایک زمانے سے چیف جسٹس آف پاکستان اپنی سنیارٹی کی بنیاد پر آٹومیٹک طریقے سے مقرر ہو جاتا ہے مگر اس ترمیمی مسودے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پانچ سینئر ججز کے پینل میں سے وزیراعظم اپنی پسند اور ضرورت کے تحت جسے چاہیں گے‘ مقرر کر دیں گے۔
اسی طرح ججز کی تقرری کے طریق کار کو بھی اس مسودے میں یکسر بدل دیا گیا ہے۔ ججز کی تقرری کے اب تک رائج طریق کار کے مطابق عدلیہ کی کمیٹی نئے ججز کا تقرر کرتی ہے اور اپنی سفارشات کو پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتی ہے۔ اگر پارلیمنٹ کی کمیٹی اس کی منظوری دیتی ہے تو وہ جج مقرر ہو جاتا ہے۔ اس عدالتی کمیٹی میں چیف جسٹس آف پاکستان‘ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز‘ ہائی کورٹ کے دو سینئر ججز‘ ایک ریٹائرڈ سپریم کورٹ جج‘ وزیر قانون اور بار کونسل کا ایک نمائندہ شامل ہوتا ہے۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ یہ جامع عدالتی ادارہ ختم کرکے سارا معاملہ پارلیمنٹری کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے تاکہ وزیراعظم ہر طرح کا رِسک ختم کرکے صرف اپنے ''یس مین ججز‘‘ کا تقرر کر سکے۔
اسی طرح ججز کو ہٹانے کے سلسلے میں پہلے سے موجود پروسیجر کو بدل دینے کا پروگرام تھا۔ موجودہ طریق کار کے مطابق کسی جج کو مس کنڈکٹ کے جرم میں برخاست کرنے کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرتی ہے‘ اب یہ کام اس اعلیٰ عدالتی کونسل سے واپس لے کر سیاستدانوں کے سپرد کر دیا جانا تھا۔ اس ترمیم میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایک حکومتی کمیشن قائم کیا جائے گا جو ججز کی پرفارمنس کو مانیٹر کرے گا اور حسبِ منشا اُن کی رپورٹ لکھے گا۔ فیڈرل کورٹ کا نقشہ کیا ہو گا؟ یہ ایک سات رکنی عدالت ہو گی جس کے چیف جسٹس کی تقرری جناب وزیراعظم کریں گے۔ اس عدالت کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان پاور لیس ہو جائے گی۔ گویا اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو پروانۂ موت تھمانے کی مکمل تیاری ہو چکی تھی۔ اعلیٰ عدالتوں کی یہ حالت تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی نہیں کی تھی۔ جنرل پرویز مشرف بھی اعلیٰ عدالتوں کو سبق سکھانا چاہتے تھے مگر قضا و قدر نے اُن کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ لگتا یوں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاکستانی عدالتوں کو مصر اور ملوکانہ ریاستوں کی عدالتیں بنانا چاہتی ہے۔ میرے لیے یہ بھی باعثِ حیرت یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے برادرِ اصغر میاں شہباز شریف کو یہ اجازت کیسے دے دی کہ وہ اعلیٰ عدالتوں اور سیاسی ایوانوں کو پابہ زنجیر کریں اور اپنی پارٹی کے لیے صد سامانِ رسوائی اکٹھا کریں۔
اب آئیے ان آئینی ترامیم کے سیاسی اثرات کی طرف۔ اب تک کے سیاسی و پارلیمانی اصول و ضوابط کے مطابق فلور کراسنگ ایک بہت بڑا جرم گردانا جاتا ہے۔ فلور کراسنگ سے مراد ہے کہ کسی پارٹی کا کوئی رکنِ اسمبلی یا سینیٹ اپنی پارٹی کی مرضی و منشا کے برخلاف اپنا ووٹ کسی اور کو دے۔ اب نئی آئینی ترمیم کے مطابق کوئی رکنِ اسمبلی اپنی پارٹی لائن کی مخالفت کرتے ہوئے اگر کسی کو ووٹ دے گا یعنی فلور کراسنگ کرے گا تو اسے پارلیمانی خلاف ورزی نہیں سمجھا جائے گا اور اس کے ووٹ کو شمار کیا جائے گا۔
اب تک پارلیمانی روایات کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب اور وزیراعظم کے بارے میں اعتماد و عدم اعتماد‘ سب شو آف ہینڈز سے ہوتا ہے مگر 26ویں مجوزہ آئینی ترمیم کے بعد یہ انتخابات بھی خفیہ رائے دہی سے ہوں گے تاکہ حسبِ ضرورت ہارس ٹریڈنگ کی جا سکے۔ یہ بھی مقامِ حیرت ہے کہ سیاستدان اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی کیوں مار رہے ہیں۔ کل یہی عدالتی و سیاسی جکڑ بندیاں ان کے اپنے گلے پڑ جائیں گی۔ حکومت نے تو اپنی طرف سے عدلیہ کو زیرِ دام لانے کے لیے ایک نادیدہ جال بچھا دیا تھا مگر عدلیہ اس وار سے بچ نکلی ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ گزشتہ اتوار کی شب حکومت کو ایسی کیا ''بھاجڑ‘‘ تھی کہ وہ راتوں رات عدالت و سیاست دونوں کا گُھٹ بھرنے کو اتنی بے چین تھی؟ اس کی ایک اہم وجہ تو 12جولائی کا عدالتِ عظمیٰ کا وہ اکثریتی فیصلہ ہو سکتا ہے جس کے مطابق تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی وہ سیٹیں واپس مل جانی ہیں جو پہلے انہیں نہیں دی گئی تھیں۔ اگر خدانخواستہ یہ آئینی ترمیم منظور ہو جاتی تو نجانے کتنے سالوں تک عدالت و سیاست غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہتیں۔
یہی ہے مولانا فضل الرحمن کا عظیم کارنامہ کہ وہ آئین پاکستان کا حلیہ بگاڑنے والی 26ویں آئینی ترمیم کے راستے میں سدِّ سکندری بن کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے آئینی ترمیم کا حکومتی مسودہ مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ جب بدھ کے روز مولانا اسلام آباد سے جنوبی پنجاب کے دورے پر عازم سفر ہوئے تو میں نے انہیں مبارکباد کا پیغام ارسال کیا۔ جس کے جواب میں مولانا نے کال کی۔ میں نے مولانا محترم سے پوچھا کہ آئینی مسودے کا وہ کون سا نکتہ تھا جس کے بعد آپ نے حکومت کو ووٹ نہ دینے کا مصمم فیصلہ کر لیا تھا؟ مولانا نے کہا: پہلے تو کئی روز تک حکمران تشریف لاتے اور میٹھی میٹھی باتیں کرتے رہے اور آئینی ترمیم کا مسودہ دکھائے بغیر ہمارے ووٹوں کے طلب گار ہوئے مگر جب ہم نے مسودہ دیکھنے پر اصرار کیا تو اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ تو عدالت و سیاست کو غلام بنانے کی دستاویز ہے۔ مولانا نے کہا: حضرت! آغاز ہی آرٹیکل آٹھ پر حملے سے ہوا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل آٹھ میں درج ہے کہ مملکت کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہو۔ بنیادی حقوق سے متصادم ہر قانون کو کالعدم تصور کیا جائے گا۔
ہمارے سیاستدانوں اور مہربانوں کو خبر ہو کہ ساری پارلیمنٹ مل کر بھی بنیادی حقوق سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved