قوموں کی کہانیوں میں حقیقی آزادی کی طرف سفر ایک ایسی کہانی ہے جو اکثر جدوجہد‘ لچک اور ارتقاسے عبارت ہے۔ آزاد ملک سے مراد ایک ایسی سرزمین کا تصور ہے جہاں آزادی کا مطلب جبر کی عدم موجودگی ہے ۔اس کا مطلب کسی ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں مواقع‘ مساوات اور انصاف ہے۔ اس لیے ایک حقیقی آزاد ملک نہ صرف سیاسی آزادی پر استوار ہوتا ہے بلکہ انسانی حقوق‘ جمہوری شرکت اور قانون کی حکمرانی کا قیام اس کی لازمی شرائط ہوتی ہیں۔ تاریخی طور پر ایک آزاد ملک کا جنم اکثر انقلاب یا ظلم کے خلاف مزاحمت سے شروع ہوتا ہے۔ چاہے یہ بادشاہت‘ نوآبادیات یا آمریت کے خلاف بغاوت ہو۔آزادی کا آغاز عوام کے خود مختاری کے مطالبے سے ہوتا ہے۔ تاریخ میں آج تک جتنے بھی انقلاب رونما ہوئے خواہ وہ فرانسیسی انقلاب ہو یا آزادی کی امریکی جنگ‘ 1917ء کا سوویت یونین کا انقلاب ہو یا پھر 1949ء کا چینی انقلاب‘ یہ سب وہ انقلاب تھے جہاں افراد اور گروہوں نے آمرانہ حکمرانی کی مزاحمت کی اور خود ارادیت کی کوشش کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پرایک آزاد ملک کا عروج عوام کی مرضی کے بارے میں ہے کہ وہ ایک ایسا نظام قائم کریں جہاں وسائل اور طاقت کی منصفانہ تقسیم ہو‘ جہاں چیک اینڈ بیلنس ظلم کو روکے اور جہاں افراد کو بولنے اور اظہارِ خیال کی آزادی ہو۔ تاہم جیسا کہ تجربے سے ثابت ہو رہا ہے پاکستان جیسے ممالک میں آزادی ایک ایسا نازک معا ملہ ہے جسے برقرار رکھنے کے لیے ایک مضبوط آئینی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ حکمران اشرافیہ سمیت پاکستان میں ہر کوئی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ حقیقی آزادی کیا ہوتی ہے ؟ یعنی پاکستان جیسے ملک کے لیے آزادی کی آئینی بنیادیں کیا ہو سکتی ہیں؟
یہ معلوم حقیقت ہے کہ کسی ملک کو خود کو آزاد کہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے آئین میں بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی ضمانت شامل ہو۔آزادیٔ اظہار‘ آزادی سے جمع ہونے اور سوچنے کی آزادی کو اکثر ایسے نظام کا سنگِ بنیاد سمجھا جاتا ہے لیکن جب ہم اس سے تھوڑا آگے بڑھتے ہیں توعدلیہ کی آزادی ‘ مضبوط جمہوری اداروں کی موجودگی اور شہریوں کے لیے انتخابات کے ذریعے حکومت پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی اتنی ہی اہم نظر آتی ہے۔ ایک آزاد ملک ایک زندہ جاندار شے ہے ‘اس کا آئین لازمی طور پر عوام کی خواہشات و ضروریات کے موافق ہونا لازم ہے اور یہ اصل بنیادی اصولوں کو مجروح کیے بغیر لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی اجازت دیتا ہو۔ کامیاب ترین آزاد ممالک میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ حکومت کی کوئی ایک شاخ ضرورت سے زیادہ اثر و رسوخ نہیں رکھتی جیسا کہ اکثر ہمارے ہاں ہو جاتا ہے۔
آزاد ممالک میں احتساب کا ایک ڈھانچہ ہوتا ہے جس کے تحت اقتدار میں رہنے والوں کو بھی قانون کی پاسداری کرنی پڑتی ہے اور شفاف حکمرانی اور باخبر ووٹر کے ذریعے بدعنوانی کو روکا جاتا ہے۔ استعمارسے آزادی کا راستہ بڑا واضح ہے‘ اور اکثر واضح دکھائی دیتا ہے۔لیکن نوآبادیاتی حکمرانی سے ابھرنے والے ممالک کی آزادی کی کہانی اکثرپیچیدہ ہوتی ہے۔ نوآبادیات نے طویل عرصے تک قوموں سے ان کے وسائل‘ شناخت اور خودمختاری چھینی ہوتی ہے۔ نو آبادیا تی حکمرانی سے آزاد ہونے والے ممالک نے اکثر ایک طویل اور تلخ لڑائی کے بعد آزادی لی ہوتی ہے۔ ان کی نئی نئی آزادی اداروں کی تعمیرِ نو کی بھاری ذمہ داری بھی ساتھ لاتی ہے۔ شروع سے معیشتیں بنانا اور بہت سے معاملات میں نوآبادیاتی حکمرانی کی وجہ سے بڑھی ہوئی نسلی اور مذہبی تقسیم سے نمٹنا ایک انقلاب کے بغیر کوئی آسان کام بہرحال نہیں ہوتا۔ ایک آزاد ملک جو نوآبادیاتی نظام سے ابھرا ہواور جو کبھی نوآبادیاتی نہیں تھا‘ کے درمیان فرق مربوط قومی شناخت کی جدوجہد میں مضمر ہے۔ نئی آزاد قوموں میں اکثر خود مختاری کے تجربے کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ بدعنوانی‘ فوجی بغاوتوں یا آمریتوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ آزاد ممالک بہت سے پسماندہ یا نیم آزاد ممالک کے مقابلے میں بالکل مختلف منظر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرناروے جیسی قومیں سیاسی استحکام‘ معاشی خوشحالی اور مضبوط سماجی نظام کی طویل تاریخ کے ساتھ اپنے شہریوں کے لیے اعلیٰ سطح کی آزادی کو برقرار رکھنے میں ایک حد تک کامیاب رہی ہیں۔ ناروے کے معاملے میں اس کا آئین وسیع آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے اور اسے دنیا کی کامیاب ترین جمہوریتوں میں سے ایک بنانے میں ایک اہم عنصر رہا ہے۔ اس کی حکومت شفاف ہے‘ بدعنوانی کی سطح کم ہے اور اس کے شہری صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم اور سماجی تحفظ کے عالمی نیٹ ورکس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دوسری طرف نیم آزاد یا پسماندہ قومیں اکثر بدعنوانی‘ کمزور اداروں اور معاشی تفاوت کے ساتھ جدوجہد کرتی ہیں۔ بہت سے معاملات میں ان ممالک نے نوآبادیاتی حکمرانی کے بعد آزادی حاصل کی لیکن مستحکم سیاسی نظام کی تعمیر میں چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بنیادی ڈھانچے‘ تعلیم اور دولت کی تقسیم کا فقدان غربت کے چکروں کا باعث بنتا رہا ہے‘ جس سے آزاد اور منصفانہ معاشرے کو برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کچھ ممالک میں پاکستان کی طرح آئینی اعتبار سے جمہوریت تو موجود ہے لیکن انتخابی دھوکا دہی‘ اختلافِ رائے کے جبریا حکمران اشرافیہ کے ہاتھوں میں دولت اور طاقت کے ارتکاز کی وجہ سے اسے کمزور کیا جاتا ہے۔ آج جوناروے ایک ترقی یافتہ آزاد ملک کی مثال کے طور پرمسلسل دنیا کے ایک آزاد اور خوشحال ممالک میں شمار ہوتا ہے تو اس کامیابی کوکئی عوامل کے امتزاج سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ مکمل یا مثالی ہر گز نہیں ہے۔ اس کے بر عکس پاکستان کی سیاسی آزادی کی کہانی مسلسل جدوجہد کی ہے۔ 1947ء میں برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد پاکستان کا حقیقی معنوں میں آزاد ملک بننے کا سفر فوجی بغاوتوں‘ سیاسی بدعنوانی اور انتہا پسندی کی طرف سے نشان زد ہے۔ اگرچہ پاکستان ایک جمہوریہ ہے ‘ جس کا آئین بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس کا راستہ ہموار نہیں ہے۔ اپنے ابتدائی سالوں میں پاکستان جمہوری حکمرانی اور آمریت کے ادوار کے درمیان گھومتا رہا۔ اشرافیہ کا سیاست میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ ان جدوجہدوں کے باوجود پاکستان کا آئین بنیادی آزادیوں کو شامل کرتا ہے‘ جیسا کہ آزادیٔ اظہار ‘ حالانکہ یہ حقوق اکثر آزمائے جاتے ہیں اور ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ یہاں سیاسی جماعتیں اکثر آپس میں ٹکراتی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں سیاسی منظر نامے ٹوٹ جاتے ہیں۔ دنیا میں آزادی کا بیانیہ مشترکہ ہے لیکن ناروے اور پاکستان جیسے ممالک کے تجربات بتاتے ہیں کہ آزادی کئی شکلوں میں آتی ہے۔ ناروے اپنے مضبوط اداروں اور خوشحال معیشت کے ساتھ اس بات کی مثال پیش کرتا ہے کہ صحیح آئینی فریم ورک اور سیاسی کلچر والے معاشرے میں آزادی کیسے پروان چڑھ سکتی ہے۔
دوسری طرف پاکستان جیسا اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نبردآزما ملک آزادی کو برقرار رکھنے کی پیچیدگی کو واضح کرتا ہے۔ پھر بھی ان چیلنجوں کے باوجودپاکستانی عوام اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں‘ یہ جانتے ہوئے کہ آزادی کا اصل جوہر صرف زمینی قوانین میں نہیں بلکہ ان قوانین کو برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کی اجتماعی خواہش میں پایا جاتا ہے۔ آزادی بہرحال منزل نہیں بلکہ سفر ہے۔ کچھ کے لیے یہ سفر ہموار اور چھوٹا ہوتا ہے جبکہ دوسروں کے لیے یہ طویل اور رکاوٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔ لیکن آخر میں آزادی کی لڑائی کسی قوم کی کہانی کا قلب ہے جو اس کے ماضی‘ حال اور مستقبل کی تشکیل کرتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved