ڈر اس بات کا ہے کہ ہم اپنے ساتھ کیا کررہے ہیں اورکس سمت جا رہے ہیں۔ حالات دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اجتماعی طور پرکوئی تہیہ کیا ہوا ہے کہ نہ صرف اس ملک کو چلنے نہیں دینا بلکہ اسے پوری طرح تباہ کرنا ہے۔ ہر اطراف لگتا ہے کہ ہم انارکی کو دعوت دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنا حشرکر دیا ہے‘ تفصیلات میں جائیں توعزت مآب چیف جسٹس پر حرف آتا ہے۔ سیاست کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے اور قومی اسمبلی اپنا تماشا بنا رہی ہے۔ ترجیحات اوپر سے‘ اور انہی ترجیحات کی وجہ سے جو پہلے ہی کھلواڑ تھا‘ مزید کھلواڑ بنتا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر صاحب کو دیکھ لیں‘ انہی ترجیحات کے تحت وہ اپنا مذاق بنا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کا تو ذکر ہی نہ کیا جائے‘ اس کے حوالے سے جو کچھ ہوا ہے اور جوکچھ ہو رہا ہے تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
صرف یہ نہیں بلکہ ہر سطح پر ہم انارکی کی طرف جا رہے ہیں۔ انارکی کا مطلب ہے کہ ہر قاعدے قانون کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور لوگ زور زبردستی سے اپنی من مانیاں کریں۔ کاروبارِ مملکت کو دیکھیں تو جس کا زور ہے چلا رہا ہے‘ اپنی مرضی ہر چیز پر ٹھونسی جا رہی ہے۔ اور معاشرے کو دیکھیں تو وہاں بھی یہی اصول کارفرما لگتا ہے۔ یہ عمرکوٹ میں جو ہوا ہے کہ کسی ڈاکٹر شاہ نواز کمبہار پر توہین کا الزام لگتا ہے۔ وہ جان بچانے کیلئے کراچی بھاگ جاتا ہے۔ اُس کے خاندان پر دبا ؤ پڑتا ہے اور اُس کی فیملی والے خوداُسے پولیس کے حوالے کرتے ہیں۔پولیس کے حوالے ہوتا ہے توایک من گھڑت اِن کاؤنٹرکے ذریعے وہ شخص بے دردی سے مارا جاتاہے۔ جوپولیس والے اس واردات میں ملوث ہوتے ہیں اُن کو لوگ سراہتے ہیں‘ چہروں پر بوسے دیتے ہیں لیکن پھر بھی جنونیت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی۔ قبرسے لاش نکال کر اُسے آگ لگائی جاتی ہے۔ کوئی بتائے تو سہی کیسا ہمارامعاشرہ ہے؟اوریہ کوئی پہلا واقعہ نہیں‘ اس جیسے بہت ہوچکے ہیں۔ کسی افواہ پر توہین کا الزام لگ جاتاہے اور پھر معاشرے کے کچھ لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔مجموعی طور پر سارامعاشرہ ہمارا ایسا نہیں ہے لیکن جب جنونیت کی کیفیت پیدا ہو تو اکثر لوگ چپ ہو کر رہ جاتے ہیں اور ہجوم میں کچھ مخصوص لوگ جذ بات کو اس انداز سے ہوا دیتے ہیں کہ وہاں موجود لوگوں کی اکثریت ٹھنڈے دل سے اس واقعہ کو دیکھنے سے محروم ہو جاتی ہے۔ اورجنہیں ہم قانون نافذ کرنے والے ادارے کہتے ہیں ان سے تو اللہ کی پناہ۔ ایسے مواقع پر ان کا کردار اتنابزدلانہ ہوتا ہے‘ جو زیادہ اونچے نعرے لگا رہے ہوں اُنہی کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔یہ موضوع ایسا ہے کہ اس پر کھل کر بات نہیں ہوسکتی۔ ہمارا یہاں اجتماعی ماحول ایسا بن چکا ہے کہ فوراً سے پہلے کوئی نہ کوئی فتویٰ جاری ہوجاتا ہے اور پھر ممکنہ نتائج کوسامنے رکھ کر لوگوں کی اکثریت چپ ہو جاتی ہے۔
کیا معاشرے کی بات کریں‘ کیا ریاست کی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہرکوئی ایک انارکی والی کیفیت کی طرف پھسل رہاہے۔ معیشت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے‘ سیاست تباہ حال ہے‘ مختلف ادارے آپس میں گتھم گتھاہیں‘ عوام بیزار اور مایوسی اور بے یقینی کا شکار۔ لیکن لگتا ہے کہ کسی کو پروا نہیں۔ غریب اور لاچارطبقات اگر کُڑھ رہے ہیں تو آرا م میں بیٹھے طبقات مستقبل کو ایک طرف رکھ کر جائز و ناجائز طریقوں سے مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ہم سب کو نظر نہیں آرہا کہ سکیورٹی کی صورتحال کیسی ہوچکی ہے؟ حملے تو اب اتنے ہوتے ہیں کہ کسی شمار میں نہیں رہے۔جوان اور دوسرے اہلکار ان حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جنازے اٹھانے میں ہم ماہرہوتے جا ر ہے ہیں۔اور ایک جنازہ اٹھانے کے بعد شاید اگلی واردات کا انتظارہونے لگتا ہے۔ بانیانِ پاکستان نے بڑی امیدوں سے اس ملک کی تشکیل کو دیا ہوگا لیکن اگر آسمانوں سے نیچے نظردوڑا سکیں جو کچھ پاکستان میں ہورہاہے وہ دیکھ سکیں توکیا کہیں گے؟اب تو لگتا ہے کہ ہم اس ملک کے قابل نہیں تھے اور شاید آزاد حیثیت کیلئے بھی تیار نہیں تھے۔ آدھا ملک گنوا بیٹھے اورجو بچا ہے اُس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ کہیں تو جاکے یہ شکست و ریخت کا سفرختم ہو۔ انارکی کی طرف جاتے ہوئے قدم کہیں تو تھمیں۔
اور سیاسی میدان میں جو کشمکش جاری ہے اُس کے بارے میں کیا کہا جائے؟حکمران اور فیصلہ ساز ڈرے ہوئے ہیں۔ خوف میں مبتلا ہیں کہ نرمی دکھائی ‘ جیل کے دروازے کھلے تو پتا نہیں کون سا سیلاب ہرچیز کو بہا کے لے جائے گا۔دو سال سے زائد عرصے سے یہ کوششیں جاری ہیں کہ ڈر اور خوف کی بنیادی وجہ کو ختم کیاجاسکے۔ لیکن کوئی ترتیب بارآورثابت نہیں ہوئی‘ جن کو نیست و نابود کرنا مقصود تھا عوام کی عدالت میں سرخروکھڑے ہیں‘ہرگزرتے دن طاقتورسے طاقتورہوتے جار ہے ہیں۔ جیسے کسی شاہراہ پر ٹریفک جام ہو جاتی ہے ملک کی سیاسی حالت جام ہوچکی ہے۔ پہلے تو الیکشن کروانے نہیں تھے‘ کروا دیے تونتائج حلق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ زبردستی کی حکومتیں بٹھا دی گئی ہیں جن سے کوئی کام نہیں ہورہا کیونکہ پیچھے عوام کی طاقت نہیں ہے۔یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی؟ کب تک اس انتہا کے نکما پن کا شکار قوم رہ سکتی ہے؟ کبھی توصبرکا پیمانہ لبریز ہو جائے گااورپھرہم روتے پھریں گے کہ ہائے ہائے یہ کیا صورتحال بن رہی ہے۔
چیف جسٹس صاحب کی مدتِ تقرری تقریباً پانچ ہفتوں میں ختم ہو رہی ہے۔ باعزت طور پر اُن کو جانے دیں‘ آئینی طورپر جو بھی اُن کا جانشین بنتا ہے اُسے مسندسنبھالنے دیں۔ ڈر کاہے کا لگا ہوا ہے؟ جسٹس منصورعلی شاہ پر کیایہی اعتراض ہے کہ وہ آلہ کار نہیں بنیں گے؟ خدارا ‘اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کو کسی کا آلہ کار بننا چاہیے؟ حالت تو ہماری پہلے بھی اتنی مثالی نہ تھی لیکن قوم کا صحیح حشر توان پچھلے دو سالوں اورکچھ مہینوں میں ہوا ہے اوروہ اس لیے کہ آئین اور قانون کے تقاضوں سے روگردانی کی گئی اورمن مانیوں سے کام چلانے کی کوشش کی گئی۔ اگر جسٹس منصورعلی شاہ من مانیوں کی فضا کو کم کرسکیں تواُن سے خائف ہونے کے بجائے اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ہماری ریاست کا بنیادی مسئلہ کیارہا ہے؟ یہی کہ جو آیا اُس نے تمام آئینی تقاضوں سے اپنے آپ کو مبرااورآزاد سمجھا۔ کوئی نپولین ہوتا پھر تو ہم کہتے کہ من مانیاں تو کررہا ہے لیکن اس کے کمالات بھی دیکھیں۔ مگر یہاں تو کوئی نپولین نہیں آیا‘ جو آئے درمیانی صفات کے مالک ٹھہرے۔ اوران سب کا یہ امتیاز رہا کہ حالات کو ابتر کرکے رخصت ہوئے۔ جمہوریت کی الف ب کی ہمیں سمجھ ہوتی تو1971ء میں ملک دولخت نہ ہوتا۔ ہندوستان کے حالات سے کچھ تو ہم سبق لیں۔ ہمیں نیا ملک ملا اُنہیں ہمارے ساتھ آزادی نصیب ہوئی۔ ہندوستان کہاں پہنچ چکا ہے اورہم نے اپنا کتنا ستیاناس کرلیا ہے۔یہ تقابل ہمیں نظرنہیں آتا؟ہم بڑھکیں مارتے رہے یا دوسروں کی جنگیں لڑتے رہے۔ کبھی سینٹو اور سیٹو میں جا رہے ہیں‘ کبھی نام نہاد افغان جہاد کا علم ہاتھ میں تھاما ہوا ہے۔ بیرونی قوتوں کے اشاروں پر کبھی افغانوں کو مجاہدین کا مرتبہ دیا کبھی اُنہیں دہشت گردکہا۔ چھہتر‘ ستتر سال میں ہم جیسے لاچاروں کو اب تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہماری اپنی سوچ کیا ہے یا ہم کوئی اپنی سوچ رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔ ہماری قومی زندگی میں امریکیوں کا ہم پر ایسا سایہ رہا کہ وہاں سے کوئی اشارہ آیااور اُسی پر ہم نے لبیک کہا۔
زمانہ بدل چکا ہے ‘ پرانی باتیں نہیں چلیں گی ۔ پاکستانی تاریخ میں بہت زورزبردستی ہوچکی۔ اب آثار بتا رہے ہیں کہ زورزبردستی کے ہتھکنڈوں کوبرداشت کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں۔عوام کا موڈتو دیکھ لیں ‘ عوام کا راستہ روکنے کیلئے کنٹینربے سود ہوچکے ہیں۔ رکاوٹوں سے سنگجانی کا جلسہ رک گیا تھا؟ لاہور کا جلسہ رک گیا؟کچھ تو ہوش کے ناخن لیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved