صحافت میں آنے سے پہلے میں جب بھی بڑے لوگوں کے بارے میں سنتا تھا کہ انہوں نے بڑے عہدوں پر بیٹھ کر چھوٹی چھوٹی حرکتیں کی ہیں تو مجھے ایسی باتیں ہضم کرنے میں کچھ وقت لگتا تھا۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ ایک وزیراعظم یا بادشاہ‘ جس سے سب تحائف یا مدد کی توقع رکھتے ہیں‘ آخر وہ کیوں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگتا ہے کہ مجھے مہنگے مہنگے تحائف دو۔ مجھے لگتا تھا اس کے پاس تو خزانے کی چابی ہوتی ہے۔ ہم نے تو کہانیوں میں پڑھا تھا کہ بادشاہ لوگوں کا منہ اشرفیوں سے بھر دیتے تھے۔ اگر ان کے پاس کوئی اچھی خبر لاتااور انہیں فوری طور پر کچھ سمجھ نہ آتا کہ اسے کیا گفٹ کریں تو اپنے گلے میں پہنا ہوا ہیروں کا ہار اُتار کر اس قاصد کے گلے میں ڈال دیتے تھے۔ بادشاہ یا شہزادے کا جنم دن ہوتا تو خزانوں کے منہ کھول دیے جاتے اور عوام کی جیبیں بھر دی جاتی تھیں۔ بادشاہ ہونے کا مطلب ہی یہی تھا کہ اس کے پاس بے پناہ اختیارات اور دولت ہوتی تھی۔ وہ سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا۔ یہ بھی تصور تھا کہ اس کے پاس بہت دولت ہے اور وہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہی پیدا ہوا ہے۔ وہ اَن داتا سمجھا جاتا تھا۔ سب اسی سے مانگتے تھے ‘وہ کسی سے کچھ نہیں مانگتا تھا۔
جمہوریت کی وجہ سے بادشاہ رہے اور نہ ہی دولت بانٹنے والے سخی حکمران۔ جمہوریت کی وجہ سے بادشاہوں کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ روایات بھی دم توڑ گئیں۔ جمہوریت نے اب آپ کو وزیراعظم دے دیے ہیں جنہیں لوگ خود چنتے ہیں اور اپنا حکمران بناتے ہیں۔ وزیراعظم اتنا طاقتور نہیں ہوتا جتنے بادشاہ ہوتے تھے‘ جو کسی کو جوابدہ نہیں تھے۔ پوری رعایا انہیں جوابدہ تھی۔ لہٰذا وہ افورڈ کرسکتے تھے کہ خزانوں کو جس طرح چاہیں خرچ کریں‘ لٹائیں یا خیرات کریں یا انعامات میں بانٹ دیں۔ وزیراعظم کو یہ عیاشیاں میسر نہیں۔ وہ ان لوگوں کو جوابدہ ہے جنہوں نے اسے ووٹ دیا۔ اپنی پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے۔ قانون اور عدالت کو جوابدہ ہے۔ بادشاہوں کے دور میں بادشاہ تو نائب اللہ سمجھا جاتا تھا‘ جس سے کوئی سوال نہیں ہوسکتا تھا۔ وزیراعظم پھانسی بھی لگ جاتے ہیں‘ انہیں جیل بھی ہوجاتی ہے اور عمر قید بھی اور وزیراعظم آفس سے برطرفی بھی۔ بادشاہ تو تاحیات رہتے تھے۔ بادشاہت کا خاتمہ تین صورتوں میں ہوتا تھا۔ یا بادشاہ کو خدا اپنے پاس بلا لے یااُسکا بیٹا یا کمانڈر اسکے خلاف بغاوت کردے یا کوئی دشمن اسکی فوج کو شکست دے کر اسکے ملک پر قبضہ کر لے۔ وزیراعظم کو یہ عیاشی بھی میسر نہیں۔ اگرچہ یہ بات اچھی بھی ہے کہ بادشاہ کی طرح وزیراعظم کو تبدیل کرنے کیلئے اسکا سر قلم نہیں ہوتا۔ الیکشن میں شکست یا اپنی مدت پوری ہونے کے بعد وہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ اکثر وزیراعظم کرپشن کی وجہ سے عدالتوں میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں۔ جہاں اُن پر دیگر الزامات لگتے رہے ہیں وہاں توشہ خانے میں لوٹ مار کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں جن پر مقدمے بھی بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں دیکھیں تو یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف سے عمران خان تک سب پر توشہ خانہ سے تحائف لینے پر مقدمات بنے اور عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ صدر زرداری پر بھی توشہ خانہ کا کیس ہے۔ بینظیر بھٹو پر کسی پرائیویٹ پارٹی سے نیکلس لینے کا الزام تھا جس پر انہوں نے سوئٹزر لینڈ میں مقدمہ بھی بھگتا۔
اگرچہ تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے خالی ہاتھ بادشاہ سے اس کے دربار میں نہیں ملنا کیونکہ یہ بھی بے ادبی کہلاتی ہے۔ لہٰذا جب بھی بادشاہ کے دربار میں امیر لوگ پیش ہوتے یا دوسرے ممالک کے سفیر ملنے جاتے تو وہ مہنگے تحائف ساتھ لے جاتے تھے۔ ان تحائف سے ہی اندازہ ہوتا تھا کہ اس ملک نے بادشاہ کو کتنی اہمیت دی ہے۔ یہ بات آج بھی رائج ہے کہ جب دوسرے ممالک کے سربراہانِ مملکت ہمارے ہاں تشریف لاتے ہیں تو بڑی احتیاط سے تحائف انہیں پیش کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب ہمارے صدر ‘ وزیراعظم اور وزرا باہر جاتے ہیں تو یہ بھی تحائف کی قیمت اور قدر دیکھتے ہیں۔ اگرچہ ویسٹرن ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ وہ تحائف نہیں دیتے۔ اگر دیں گے بھی تو وہ سووینیرز وغیرہ ہوں گے لیکن عرب ممالک ہمارے پاکستانی لیڈروں کو سونے‘ ہیرے‘ جواہرات سے لاد دیتے ہیں۔ سعودی عرب نے سب سے زیادہ عیاشی کرائی ہے ہمارے لیڈروں کو۔مجال ہے کسی وزیراعظم کی بیگم صاحبہ کو سعودی دور میں ایک‘ ایک کروڑ سے کم کے ہیرے جواہرات یا سونے کا سیٹ ملا ہو۔
اس ساری گفتگو کا پس منظر دراصل وہ خبر ہے جو برطانیہ سے آئی ہے کہ نئے برطانوی وزیراعظم کی بیگم صاحبہ کو وہاں ایک بزنس مین نے ایک لاکھ پاؤنڈز مالیت کے گفٹس دیے ہیں۔ ان تحائف کی مالیت پاکستانی تقریباً چار کروڑ روپے کے برابر ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ تحائف کی لوٹ مار صرف ہمارے ہاں ہے‘وہ مغربی ممالک‘ جن کی ہمارا ہر سیاستدان مثال دیتا ہے ‘وہاں اس طرح کے کام نہیں ہوتے۔ بھلا مدر آف آل ڈیموکریسیز کا سربراہ کیسے اپنی بیگم کو اجازت دے سکتا ہے کہ وہ کسی کاروباری سے ایک لاکھ پاؤنڈز کے تحائف اور کپڑے جوتے گفٹ کے نام پر لے۔ یقینا بیگم صاحبہ نے اپنے وزیراعظم خاوند کو اس بابت بتایا ہوگا۔ خاوند کی منظوری سے ہی وہ ایک لاکھ پاؤنڈز کے تحائف قبول کیے گئے۔ اب یہ برطانیہ میں سکینڈل بنا ہوا ہے کہ کچھ تحائف جن میں کپڑے بھی شامل تھے انہیں ڈکلیئر نہیں کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ بڑے بڑے بزنس مین بھلا کیسے وزیراعظموں کی بیگمات کو ٹارگٹ کر کے انہیں کرپٹ کرتے ہیں اور ان کے ذریعے وزیراعظم تک رسائی حاصل کرتے ہیں؟ پاکستان میں بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ یہاں بھی وزیراعظم کی بیگمات تحائف کی لوٹ مار میں پیش پیش رہی ہیں۔ کیا ان بیگمات کو احساس نہیں ہوتا کہ وہ یہ سب کچھ لے کر کیا کرلیں گی؟ کیا ان کے لیے خاتونِ اول کا خطاب اتنا اہم نہیں جتنی کسی پراپرٹی ٹائیکون کی تحفہ میں دی گئی ہیرے جواہرات کی انگوٹھی ہے جس کی قیمت وہ کسی اور شکل میں وصول کرتا ہے۔ مفت کا لنچ تو دنیا میں نہیں ہوتا۔ یقینا ان تحائف کے پیچھے بڑے کاروباری مفادات ہوتے ہیں۔ ان بیگمات کو یہ چیزیں اپنے خاوند کی عزت سے زیادہ پیاری ہیں ؟ آخری اتنی لالچ کیوں؟ خدا نے آپ کو بادشاہ بنا دیا اور بادشاہ کا ہاتھ دینے والا ہوتا ہے لینے والا نہیں۔ پھر ان سب کو علم ہے کہ آج کے میڈیا اور جمہوری دور میں کوئی خبر چھپانا ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ اب آپ کوئی غلط کام صبح کرتے ہیں‘ دوپہر تک وہ ٹوئٹرپر پھیل کر ٹرینڈ بن چکا ہوتا ہے۔ حیران ہوتا ہوں پھر بھی جان بوجھ کر ہیرے جواہرات کے لالچ میں آپ ایسے مہنگے گفٹ لے کر بدنام ہوجاتے ہیں۔ مہنگے گفٹس لینے والا وزیراعظم اور اس کی بیگم بھی نہیں سوچتے کہ بدنامی ہوگی۔ویسے یاد آیا کہ بیگمات کے ذریعے بادشاہوں اور وزیراعظم تک رسائی اور کام لینے کا رواج بہت پرانا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو پہلے بھی ایک دفعہ یہ واقعہ لکھا تھا کہ ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز کی جرمن بیوی بارے مشہور تھا کہ اس کا گورنر پر بڑا اثر تھا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے کاروباری لوگ یہ قیمتی راز جانتے تھے کہ اگر گورنر جنرل سے کام نکلوانا ہے تو خاتونِ اول کو مال کھلانا ہوگا۔ اُسے تحائف دینا ہوں گے۔ گورنر وارن کی بیگم ہر کام کے عوض تگڑے گفٹس لیتی تھی۔اگر ہندوستان کے گورنر جنرل کی بیوی بھی یہی کام کرتی تھی تو پھر آج کے پاکستانی وزرائے اعظم کی بیگمات ہوں یا برطانوی وزیراعظم کی بیگم‘ان سے کیا گلہ کریں‘ لالچ ہمیشہ انسانی ضمیر اور کردار کو شکست دیتا آیا ہے۔
وہ پرانے زمانوں کے قصے سب جھوٹ تھے کہ بادشاہ کا ہاتھ لینے والا نہیں دینے والا ہوتا ہے۔ بادشاہ بھکاری نہیں اَن داتا ہوا کرتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved