سیاسی جلسے جلوس کارکنان کو بیدار اور متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جلسوں سے کارکنان کو سیاسی عمل میں فعال کردار ادا کرنے اور سیاسی تبدیلی کے لیے متحد ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں جلسوں کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں پی ٹی آئی کا جلسہ تھا۔ اس سے قبل آٹھ ستمبر کو اسلام میں جلسہ کیا گیا۔ پی ٹی آئی لاہور میں مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں جلسہ کرنا چاہتی تھی مگر انتظامیہ نے کاہنہ کے علاقے میں 43شرائط کے ساتھ جلسے کی اجازت دی‘ جن میں سرفہرست جلسہ دوپہر تین بجے شروع کرکے شام چھ بجے ختم کرنا تھا۔ انتظامیہ کی جانب سے یہ شرط بھی شامل کی گئی کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں کی گئی تقریر پر معافی مانگیں گے۔ اس وقت‘ جب یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں‘ خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کارکنان کے قافلے لاہور جلسہ میں شرکت کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ان قافلوں میں شرکا کی تعداد اسلام آباد والے جلسے سے کم بتائی جاتی ہے۔ لاہور جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے خیبرپختونخوا کے عوام پر تکیہ کرنے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ شاید پی ٹی آئی قیادت کی امیدیں خیبرپختونخوا ہی سے وابستہ ہیں‘ جس کے وسائل اور افرادی قوت سے سیاسی ساکھ کی بحالی کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی جانب سے لاہور جلسہ کیلئے وزرا اور ممبرانِ اسمبلی کو ہزاروں کارکنان لانے کی ہدایت کی گئی۔ شنید ہے کہ وزیراعلیٰ کی طرف سے وزرا کو دو‘ دو ہزار‘ ممبرانِ اسمبلی کو ایک‘ ایک ہزار‘ تنظیمی عہدیداروں کو پانچ‘ پانچ سو اور یو سی عہدیداروں کو 100کارکن اپنے ہمراہ لاہور جلسہ میں لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لاہور جیسے شہر میں جلسے کے لیے اگر پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا سے افرادی قوت کی ضرورت پیش آ رہی ہے تو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی اعتبار سے پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے؟
خیبر پختونخوا میں 2013ء سے پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے۔ مسلسل گیارہ سال سے صوبے میں حکومت کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کے عوام نے ایک ہی پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا‘ اس سے قبل خیبر پختونخوا کے عوام کے بارے مشہور تھا کہ وہ مسلسل دوبار کسی جماعت کی حمایت نہیں کرتے‘مگر پی ٹی آئی کو انہوں نے مسلسل تیسری بار منتخب کیا ہے۔ عوامی اعتماد کے اظہار کا تقاضا تھا کہ پی ٹی آئی بحیثیت حکمران جماعت عوام کے اعتماد پر پورا اترتی‘ ترقیاتی منصوبوں اور خدمت کی صورت میں عوام کو صلہ دیا جاتا‘باقی صوبوں کی نسبت خیبر پختونخوا کے عوام کا معیار ِزندگی بلند ہوتا۔ جب ہم خیبرپختونخوا کا دیگر صوبوں سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ صوبہ ترقی میں دوسروں سے پیچھے نظر آتا ہے۔ اس موازنے کے بعد عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے جن نمائندوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجا تھا ان کی ترجیح عوامی مسائل سے زیادہ پارٹی معاملات کیسے ہو سکتے ہیں؟ اندازہ کریں کہ جن عوامی نمائندوں کو اپنے حلقے کے عوام کے پاس ہونا چاہیے اور جس وزیراعلیٰ نے صوبے کے مسائل پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہے‘ وہ پچھلے کئی ماہ سے جلسے جلوسوں میں مصروف ہیں۔ ایسی صورتحال میں صوبے کا کوئی پرسان حال نظر نہیں آتا ۔ صوبے کے وسائل پر سب سے پہلا حق عوام کا ہے مگر ان وسائل کو بے دردی سے سیاسی مقاصد میں جھونکا جا رہا ہے۔
اس وقت خیبرپختونخوا کو مالی بحران اور دہشت گردی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ مشکلات اور چیلنجز تو دیگر صوبوں کو بھی درپیش ہیں لیکن وہاں کی حکومتیں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ تعلیم اور صحت کی بہتری‘ توانائی اور زراعت میں کسانوں کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ان کے اقدامات قابلِ تقلید ہیں۔ اسی طرح وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سندھ کے عوام پر بجلی بلوں کا بوجھ کم کرنے کیلئے انہیں سولر سسٹم فراہم کر رہے ہیں۔ 2022ء کے سیلاب میں جن لوگوں کے گھر منہدم ہو گئے تھے انہیں نئے گھر تعمیر کر کے دیے جا رہے ہیں جبکہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی اپنے صوبے کے کسانوں کیلئے وفاقی حکومت سے پیکیج حاصل کر چکے ہیں۔ بلوچستان نے وفاق سے 28ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہ حاصل کیا ہے جس سے بلوچستان کا کسان خوشحال ہو جائے گا۔ اس منصوبے پر 55ارب روپے کی لاگت آئے گی جس میں 70فیصد وفاقی اور 30بلوچستان حکومت کا حصہ ہو گا۔ منصوبے کا آغاز جولائی 2024ء میں ہو چکا ہے‘ اس کی تکمیل کی مدت تین ماہ رکھی گئی تھی‘ اب یہ منصوبہ تکمیل کے قریب ہو گا۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی ان صوبائی حکومتوں کے برعکس ہمیں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا کوئی مثالی منصوبہ دکھائی نہیں دیتا جو وفاق کے تعاون سے شروع کیا گیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وفاق کے ساتھ بلاوجہ مخاصمت کا رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت شکوہ کرتی ہے کہ وفاق نے مختلف مدات میں خیبر پختونخواکے اربوں روپے کے فنڈز روک رکھے ہیں۔ وفاق کی جانب سے صوبے کو فنڈز کی فراہمی پر ہم نے انہی سطور میں کئی بار آواز بلند کی ‘ تاہم وفاق سے فنڈز حاصل کرنے کا ایک قانونی طریقہ کار موجود ہے‘ اسے اپنانے کے بجائے اگر جلسوں میں وفاقی حکومت کو مطعون کیا جائے گا تو فنڈز کا معاملہ حل نہیں ہو گا۔ خیبرپختونخوا حکومت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے تعلقات خوشگوار ہوں تو اپنے حصے سے زیادہ فنڈز کا حصول بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ سیلاب میں پنجاب اور سندھ کو اضافی فنڈز مہیا کیے گئے تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خیبرپختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کیلئے بھی 10ارب روپے کی گرانٹ کا اعلان کرتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ مل کر متاثرین کی بحالی کیلئے کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ وفاق کی جانب سے سب سے زیادہ فنڈز سندھ کو جاری ہوئے‘ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سندھ میں سیلاب سے نقصان زیادہ ہوا تھا جبکہ دوسری وجہ یہ تھی کہ سندھ نے بڑی مہارت سے وفاقی حکومت سے فنڈز حاصل کیے۔ خیبرپختونخوا حکومت ایسی مہارت کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ خیبرپختونخوا کا بڑا حصہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ سکیورٹی چیلنجز کی ذمہ داری صرف صوبائی حکومت یا صرف وفاق پر نہیں ڈالی جا سکتی ہے‘ یہ ذمہ داری بیک وقت دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ چونکہ صوبہ براہِ راست متاثر ہوتا ہے اس لیے صوبے پر کسی قدر زیادہ ذمہ داری ڈالی جا سکتی ہے مگر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صوبائی حکومت نے سکیورٹی معاملات کی تمام تر ذمہ داری وفاق پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر لیا ہو۔ اسی طرح صوبے کے عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنا خالصتاً صوبائی معاملہ ہے‘ اس مقصد کیلئے وزیراعلیٰ سے لے کر دیگر صوبائی عہدیداران یکسوئی کے ساتھ خود کو عوامی خدمت کیلئے وقف کر دیں۔ وفاق سے فنڈز کے معاملے کو متعلقہ فورم پر خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔
سیاسی جلسوں میں دن رات مصروف قیادت کو یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ کوئی جماعت عوام کے حقوق کو پس پشت ڈال کر محض جلسوں کی بنیاد پر نمایاں مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو جماعت عوامی خدمت کو ترجیح بنا لیتی ہے تو پھر اسے عوام کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ عوام خود ہی ہر مشکل میں اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved