مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت اور بھارتی سپریم کورٹ کی ملی بھگت سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے نام نہاد انتخابات کا پہلا مرحلہ دس لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوجیوں کی سنگینوں کے سائے میں مکمل ہو گیا ہے۔ مودی حکومت کا جعلی الیکشن کا ڈھونگ رچانے کا مقصد پانچ اگست 2019ء کے غیرقانونی اقدام کو جواز فراہم کرنا اور مقبوضہ کشمیر میں ہندو وزیراعلیٰ لا کر مسلم شناخت کا خاتمہ کرنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی کل 90سیٹیں ہیں‘ ان میں 43جموں اور 47کشمیر کی ہیں۔ ووٹنگ کا دوسرا مرحلہ 25 ستمبر اور تیسرا یکم اکتوبر کو ہو گا‘ جبکہ نتائج کا اعلان آٹھ اکتوبر کو کیا جائے گا۔ لیفٹیننٹ گورنر مقبوضہ کشمیر کو انتخابات سے قبل کئی مزیداختیارات دے دیے گئے ہیں‘ اس لیے انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ کا کردار برائے نام ہوگا۔ اہم معاملات پر فیصلوں کا اختیار بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس ہی رہے گا۔
یہ انتخابات ایسے ماحول میں ہو رہے ہیں جب کشمیری آزادی پسند قیادت پابندِ سلاسل ہے جبکہ حریت رہنماؤں کو اپنا سیاسی موقف تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں الیکشن اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ افسوس کہ یو این او سمیت حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے بھارتی جارحیت و بربریت پر چپ سادھتے ہوئے ہندو دہشت گردوں کو ہٹ دھرمی اور من مانی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت نہرو نے لال چوک سری نگر میں کھڑے ہو کر کشمیری عوام سے وعدہ کیا تھا کہ کشمیر کے بھارت سے الحاق کی کوئی بنیاد نہیں بلکہ کشمیریوں سے آزادانہ رائے شماری کے ذریعہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی کہا تھا کہ یہ الحاق عارضی ہے‘ لیکن پانچ اگست 2019ء وہ سیاہ دن تھا جب فسطائی مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370اور 35اے کو منسوخ کردیا۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک عشرے بعد ہونے والے ان ریاستی انتخابات کیلئے وادی کے آبادیاتی تناسب پر شب خون مارا گیا۔ مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے 44لاکھ غیر کشمیری ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے گئے اور انہیں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی نشستوں میں بھی غیرمتناسب اضافہ کیا گیا۔ نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں جموں میں چھ جبکہ وادیٔ کشمیر میں صرف ایک نشست کا اضافہ ہوا۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم آبادی 68.3فیصد اور ہندوؤں کی 28.2فیصد تھی۔ 2022ء کے حد بندی کمیشن نے مسلم اکثریتی آبادی والی وادیٔ کشمیر‘ جہاں ریاست کی 56.15فیصد آبادی رہتی ہے‘ کے حصہ میں اسمبلی کی 47نشستیں اور جموں کی 43.85فیصد آبادی کو‘ جہاں ہندو اکثریت میں ہیں‘ 43 نشستیں دے دیں۔ یعنی وادیٔ کشمیر کا ایک ووٹر جموں کے 0.8ووٹر کے برابر کر دیا گیا۔ جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سیٹوں کی تعداد 25سے بڑھا کر 31کر دی گئی تاکہ اقلیتی آبادی کی نمائندگی میں مزید اضافہ ہو۔ اس 90رکنی اسمبلی میں اب 28فیصد ہندو آبادی کو 34.44فیصد نشستیں حاصل ہو جائیں گی۔ جموں ڈویژن میں گو کہ ہندو اکثریت میں ہیں مگر مسلمانوں کی آبادی بھی 34.21فیصد ہے۔ غیرمنصفانہ حد بندی کے ذریعے اس علاقہ کے مسلم اکثریتی حلقوں کو 12سے کم کرکے اب 9 کر دیا گیا ہے۔ جموں میں‘ نئے ہندو اکثریتی آبادی کے حلقے بنائے گئے جبکہ اس سے تین گنا زیادہ مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں کو اسمبلی میں جگہ نہیں دی گئی۔ جموں کے پونچھ اور راجوری کے مسلم اکثریتی اضلاع کو مقبوضہ کشمیر کے اننت ناگ کے لوک سبھا حلقہ میں شامل کر دیا گیا۔ مزید یہ کہ انتخابات کے بعد لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا پانچ اراکین کو مخصوص نشستوں کیلئے نامزد کرے گا جس سے اسمبلی اراکین کی تعداد 90سے بڑھ کر 95ہو جائے گی۔ یہ اراکین دو خواتین‘ دوکشمیری پنڈت اور ایک 1947ء میں پاکستان سے آیا ہندو مہاجر ہو گا۔
مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے جعلی انتخابات میں ہندو اقلیتی طبقے کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچانے اور مسلم اکثریتی آبادی کو بے اختیار‘ لاچار اور بے بس بنانے کا گھنائونا منصوبہ بے نقاب ہو گیا ہے جبکہ مسلم ووٹ کو تقسیم کرنے کی سازش پر عمل کرتے ہوئے باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کھڑی کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی 19 جبکہ جموں کی سبھی 43سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد ہے‘ دوسری طرف محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی ہے اور تیسری طرف انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی ہے‘ جس کا جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد ہے۔ انتخابات سے نو دن قبل ممتاز کشمیری سیاستدان شیخ رشید انجینئر کو عبوری ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی نے بھارت میں آخری بار 1987ء میں الیکشن لڑا تھا جس کے بعد اس پر پابندی لگ گئی تھی۔ حالیہ الیکشن میں جماعت اسلامی کے نو امیدوار کھڑے ہیں۔ نیشنل کانفرنس پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 90میں سے 51سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ کانگریس 32پر۔ اپریل کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی 29 اسمبلی حلقوں میں جیتی تھی۔ اس وقت کشمیر میں جنگ جیسا ماحول ہے۔ انتہا پسند مودی کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کے استعمال سے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادیاں سلب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مودی حکومت نے وادی کو نازی عقوبت خانے میں تبدیل کر رکھا ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے استبدادی ہتھکنڈوں سے کشمیر ی میڈیا کو دبوچ رکھا ہے۔ جموں کے دور دراز دیہاتی و سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر مسلمانوں کو جائیدادوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ بھارتی حکام پہلے ہی سید علی گیلانی شہید‘ شبیر احمد شاہ‘ آسیہ اندرابی اور جماعت اسلامی کے کئی حریت رہنماؤں سمیت کئی آزادی پسندوں کی جائیدادیں ضبط کر چکے ہیں۔ گجرات کا قصائی مقبوضہ کشمیر کو مسلمانوں کیلئے دوسرا روہنگیا بنانے کے گھناؤنے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
پاکستان نے علاقائی و عالمی امن کی خاطر بھارت سے مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے لیکن اُڑی اور پلوامہ میں دہشت گردی کا ڈھونگ رچا کر انڈین فوج نے نہ صرف سرحدی کشیدگی کو پروان چڑھایا بلکہ کشمیریوں پر بھی مظالم کا سلسلہ تیز کر دیا تاکہ حقِ خودارادیت کی آواز کودبایا جا سکے۔ اب مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں بھی پاکستان کی مخالفت کے نام پر ووٹ لیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آٹھ ستمبر کو بھارتی وزیر دفاع اور معروف بی جے پی لیڈر راجناتھ سنگھ نے جموں کا دورہ کیا اور کہا: ''ہم نے تو اپنے کشمیریوں کو راضی کر رکھا ہے۔ انہیں ہم سے اور ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہے‘ مگر پرلی طرف کا (آزاد) کشمیر ہمارے کشمیری بھائیوں کو بھڑکاتا رہتا ہے۔ کشمیریو! آپ نے اسمبلی کے انتخابات میں ثابت کرنا ہے کہ بھارت میں رہنا آپ کے لیے کس قدر مفید ہے‘‘۔ 6ستمبر 2024ء کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کشمیریوں کے دل لبھانے کے لیے 25نکاتی منشور میں بھی پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسندوں کے خلاف زبان درازی کی۔ پاکستان کے خلاف جس دریدہ دہنی سے کام لیا جا رہا ہے اس سے مودی کے ان مکروہ عزائم کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ وہ الیکشن کے ذریعے وادی میں نیا کھیل کھیل رہا ہے۔
دوسری جانب کشمیری حریت پسندوں کی کارروائیوں نے بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ یہ جنگجو مضبوط عزم کے ساتھ ساتھ ہندوستانی فوجی کارروائیوں کا براہِ راست مقابلہ کرنے کے لیے جدید ترین اسلحہ سے لیس نئی قوت بن کر سامنے آئے ہیں۔ لہٰذا اب ہمیں بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے زبانی جمع خرچ نہیں‘ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved