ملکی معیشت میں تین فصلیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ گنا‘ کپاس اور گندم۔ ملکی سیاست اور معیشت ان کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ فی الحال ای سی سی نے ایک لاکھ چالیس ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ پاکستان ادارۂ شماریات کے مطابق جنوری 2025ء تک چینی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ہر سال انہی مہینوں میں ای سی سی چینی برآمد کرنے کی اجازت دیتی ہے اور کرشنگ سیزن سے دو ماہ پہلے چینی کی قلت ظاہر کر دی جاتی ہے۔ ہر سال مخصوص مہینوں میں چینی کی قلت ظاہر کر کے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جاتا ہے اور اربوں روپے منافع کمایا جاتا ہے۔ پہلے اعداد وشمار میں اضافی چینی دکھا کر چینی برآمد کر کے پیسہ کمایا جاتا ہے اور پھر قلت ظاہر کر کے درآمد کرکے پیسہ بنایا جاتا ہے۔ ہر سال معاملے کی تحقیقات کے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن ذمہ داران کا تعین آج تک نہیں ہو سکا۔ وزیراعظم نے پہلے چینی برآمد کرنے سے روکا تھا لیکن بعد ازاں منظوری دے دی گئی۔ جب حکومتی اتحادی اور وزرا شوگر ملوں کے مالک ہوں اور وزیراعظم کی فیملی بھی اس کاروبار سے جڑی ہو تو وزیراعظم زیادہ عرصے تک مخالفت نہیں کر سکتے۔ ان کی کمائی کا سیزن بھی یہی ہوتا ہے۔ اب دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس سال حالات بدلتے ہیں یا ماضی کی طرح عوام کو ایک مرتبہ پھر اربوں روپے کا چونا لگایا جاتا ہے۔
ٹیکس اہداف حاصل نہ کرنا بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ایف بی آر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ستمبر کے اختتام پر تقریباً 150 ارب روپے شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو پچھلے ماہ کے شارٹ فال (100 ارب روپے) سے زیادہ ہے۔ وزیراعظم نے تقریبا 34 ارب روپے ایف بی آر کو جدید ٹیکنالوجی اور سٹاف سے آراستہ کرنے کے لیے مختص کیے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار نجی آڈیٹرز کو بھرتی کرنے کے لیے اشتہار دیے جا رہے ہیں۔ ایف بی آر اور وزیراعظم کوشش تو کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ زراعت اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں نہ لانا ہے۔ اب بھی منصوبہ بندی یہ کی جا رہی ہے کہ جو لوگ ٹیکس ریٹرنز فائل کر رہے ہیں ان کا آڈٹ کر کے مزید ٹیکسز اکٹھے کیے جائیں۔ ایک کروڑ سے کم آمدن ظاہر کرنے والوں کے لیے گاڑی خریدنے پر پابندی لگانے کی تجویز دی جا رہی ہے جبکہ نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا کوئی قابل عمل اور متاثر کن منصوبہ سامنے نہیں آ سکا۔
چین کے 75ویں یوم تاسیس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ حکومت سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے جا رہی ہے جس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا۔ یہ بیان ایسے موقع پر دیا گیا ہے جب پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ کرنے جا رہا ہے اور چین کے پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ اس وقت تک چین پاکستان میں سی پیک کے تحت تقریباً 30 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکا ہے جبکہ چینی آئی پی پیز کو عدم ادائیگیاں وجہ تنازع بنی ہوئی ہیں۔ چین جانتا ہے کہ پاکستان کے پاس قرض ادا کرنے کا کوئی جامع منصوبہ نہیں ہے۔ ان حالات میں چین کن منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہامی بھرے گا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ سی پیک فیز ون میں سرمایہ کاری انرجی اور سڑکوں کی تعمیر پر ہوئی تھی۔ انفراسٹرکچر بنانے اور انرجی کی ضرورت پوری کرنے میں تو یہ اہم تھے لیکن ان منصوبوں سے ایسی کوئی آمدن پیدا نہیں کی جا سکی جس سے ملکی معیشت کو سہارا مل سکتا۔ تقریباً 30 ارب ڈالر قرض سے آمدن صفر ہے اور سود کی ادائیگی ایک بوجھ بن کر سامنے آ رہی ہے۔ ان منصوبوں پر شرح سود بھی دیگر قرضوں سے زیادہ ہے۔ سی پیک فیز ٹو میں زیادہ منصوبے معدنیات‘ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق ہو سکتے ہیں لیکن ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے فنڈز کیسے اور کن شرائط پر ملیں گے‘ اس حوالے سے تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔ پاکستان کی نسبت افریقہ اور دیگر ممالک کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان چین کا ہمسایہ اور دیرینہ دوست ہے مگر چین کو مالی فوائد اس وقت افریقہ میں نظر آ رہے ہیں۔ حال ہی میں چین نے پاکستان کو کول پاور پلانٹس مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کی اجازت دی تھی۔ وزیراعظم کا دعویٰ تھا کہ اس سے سالانہ دو ارب ڈالرز بچائے جا سکتے ہیں‘ لیکن اس حوالے سے بھی کچھ مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی میں کچھ تبدیلی کی جاتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے جامشورو پاور پلانٹ یونٹ کو سو فیصد مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ شاید مقامی کوئلے کے استعمال سے پلانٹ کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ اسی لیے ایشیائی ترقیاتی بینک نے منع کر دیا ہے۔ اگر چینی قرض سے بننے والے پلانٹس پر بھی مقامی کوئلے کے استعمال سے نقصان پہنچنے کا خدشہ بڑھ گیا تو چین سے مدد لینے کا فائدہ نہیں ہو سکے گا۔ وزیر پٹرولیم نے چینی صنعتکاروں کو پاکستان میں توانائی اور پٹرولیم میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ چین اس حوالے سے کیا ردعمل دیتا ہے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
پاکستان سی پیک فیز ٹو کا اعلان کر تو چکا ہے لیکن اس وقت حکومت کی اصل توجہ آئی ایم ایف قرض کے حصول پر مرکوز دکھائی دیتی ہے۔ وزیر خزانہ 25 ستمبر کو آئی ایم ایف بورڈ اجلاس سے سات ارب ڈالر پروگرام کی منظوری کی توقع لگائے ہوئے ہیں۔ وہ امریکہ دورے پر وزیراعظم کے ساتھ ہوں گے اور آئی ایم ایف کی ٹاپ مینجمنٹ سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر اس ہفتے آئی ایم ایف قرض کی منظوری ہو جاتی ہے‘ جس کے کافی امکانات ہیں‘ تو پاکستان کے پاس معاشی ایکٹوٹی بڑھانے کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔ ابھی تک بیشتر معاشی اعداد وشمار مثبت آ رہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور شرح سود میں کمی کی وجہ سے مہنگائی کم ہو رہی ہے اور ستمبر میں یہ مزید کم ہو سکتی ہے۔ اگست میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 75 ملین ڈالر سے پلس رہا ہے۔ روپیہ مستحکم ہے۔ زرمبادلہ ذخائر 26 ماہ کی بلند ترین سطح پر آ گئے ہیں۔ روشن ڈیجیٹل اکاونٹ میں بھی استحکام دکھائی دے رہا ہے۔ آئی ٹی برآمدات اوسطا 300 ملین ڈالرز ماہانہ پر برقرار ہیں۔ ٹریژری بلز کی تمام بولیاں مسترد کی گئی ہیں‘ جس کا مطلب ہے کہ حکومت قرض کے لیے زیادہ بے چین نہیں ہے۔ منی بجٹ سے متعلق افواہیں گردش کر رہی تھیں لیکن وزیراعظم نے اس امکان کو فی الحال مسترد کر دیا ہے۔ ممکن ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد درآمدات پر سے ٹیکسز کم کیے جائیں اور بزنس ایکٹوٹی بڑھانے کا ماحول بنایا جائے کیونکہ ٹیکس اہداف حاصل کرنے کے لیے شرح نمو کم از کم تین فیصد اور لارج سکیل مینوفیکچرنگ ساڑھے تین فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بینک بھی منافع برقرار رکھنے کے لیے آسان شرائط پر قرض دے سکتے ہیں۔ وزارتِ خزانہ نے بھی بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے عام آدمی اور صنعتکاروں کو قرض دیے جائیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ چیلنجز کے باوجود معیشت آہستہ آہستہ ٹریک پر آ رہی ہے۔ حکومت سرمایہ کاری میں بہتری اور کاروبار کو آسان بنانے کے لیے کچھ نئے منصوبے لانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے چار رکنی کابینہ کمیٹی برائے ریگولیٹری اصلاحات تشکیل دی ہے جو 25 دسمبر 2024ء تک سفارشات پیش کرے گی۔ سرمایہ کاری کے لیے پہلے بھی کئی کمیٹیاں بنی ہیں۔ ان سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے۔ البتہ پہلے حالات مختلف تھے‘ آئی ایم ایف کا بڑا پروگرام حاصل کرنے کے بعد سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور سرمایہ کاری کے لیے بنائی گئی کمیٹی قابلِ عمل تجاویز کے ساتھ سامنے آ سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved