فضا گھٹ سے بحرین کی پرانی سڑک کم وبیش ویسی ہی ہے۔ مزید دکانوں‘ مزید ہوٹلوں کے اضافے کے سوا کوئی خاص فرق نہیں۔ ہر کچھ فاصلے کے بعد کچھ زیرِ تعمیر عمارات ریور بیڈ میں نظر آتی ہیں‘ جو بظاہر قوانین کے خلاف ہیں۔ ستمبر کا موسم خوشگوار ٹھنڈک لیے ہوتا ہے۔ اگرچہ سیاحوں کا زیادہ ہجوم نہیں تھا لیکن سڑک پر ٹریفک اچھی خاصی تھی۔ اس بار ہمارا ارادہ باغ ڈھیری کی طرف جانے کا تھا جو دریا کے دوسرے کنارے سرسبز باغوں میں گھری ایک خوبصورت بستی ہے۔ بحرین روڈ پر خوازہ خیلہ ایک معروف پہاڑی بستی ہے اور اس کے تنگ بازار سے ہوکر جانا ہمیشہ ایک مشکل کام لگتا ہے۔ ایک تو بازار تنگ اور اکہری سڑک۔ دوسرا دونوں کناروں پر ریڑھیوں کی مسلسل قطار۔ وہ جو مصرع ہے کہ 'بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں‘ تو خوازہ خیلہ میں اگر آپ کو کچھ خریدنا بھی نہ ہو تب بھی ٹریفک جام میں رکنا آپ کی مجبوری ہے۔ بازار میں تنہا ٹریفک کا سپاہی کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف کی ٹریفک روکنے پر مجبور ہے۔ خوازہ خیلہ سے دائیں ہاتھ کا راستہ بحرین اور کالام اور بائیں ہاتھ کا ا راستہ باغ ڈھیری کی طرف جاتا ہے۔ ہم اس راستے پر کچھ آگے نکلے تو کھلی شاداب وادی نے ہمارا ستقبال کیا۔ سڑک بتدریج نیچے اترتی اور دریا کی طرف جاتی تھی۔ اس وادی میں آڑو‘ آلو بخارا‘ سیب‘ خوبانی اور ناشپاتی وغیرہ کے باغات ہیں لیکن ان دنوں سب سے زیادہ وہ پھل درختوں پر لدا نظر آیا جس کا اصل نام تو علم نہیں لیکن اسے عرفِ عام میں جاپانی پھل کہا جاتا ہے۔ یہ ابھی کچا تھا لیکن اس کے لدے ہوئے درخت رسیلے نظارے کا کام کرتے تھے۔
باغ ڈھیری کے تنگ بازار سے گزر کر اُس پل پر آئے جو دریا پار لے جاتا ہے۔ گویا ابھی تک ہم دریائے سوات کے دائیں کنارے پر تھے اور ہمیں بائیں کنارے پر جانا تھا۔ دریا پار کیا اور گھومتی‘ بل کھاتی اونچی نیچی سڑک پر اس ریستوران کی تلاش میں چلتے گئے جس کا پتا کسی نے بتایا تھا۔ آخر وہاں پہنچے تو اس پُرفضا جگہ کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی اور دل سیراب ہو گیا۔ اس ریسٹورنٹ میں کمروں کے سامنے ایک خوبصورت لان اور یہ کہہ لیجیے کہ اس کا پائیں باغ دریا کی طرف کھلتا ہے۔ یہاں دریا تیز‘ پُرشور اور جھاگ اڑاتا چلتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا زمردی رنگ اتنا واضح اور اتنا حسین ہے کہ اس سے نظریں ہٹائی نہیں جاتیں۔ ہم یہاں مغرب سے کچھ دیر پہلے پہنچے جب طلائی ٹکیہ غروب ہونے کو تھی اور پگھلے سونے کا رنگ زمردی رنگ میں گھل رہا تھا۔ سرسبز پہاڑ‘ کھیت اور باغ منظر کو مبہوت کن بناتے تھے۔ باغ ڈھیری کے ایک خنک جھونکے نے ہمارا استقبال کیا اور سرگوشی میں کہا کہ ''بس روشنی گل ہونے میں یہ دس پندرہ منٹ ہیں۔ چاہو تو تصویریں بنا لو‘ چاہو تو منظر کو تکتے رہو‘‘۔ ایسا فیصلہ مشکل ہوتا ہے۔ وہ فراق کا شعر ہے نا!
وہ مخاطب بھی ہیں‘ قریب بھی ہیں؍ ان کو دیکھیں کہ ان سے بات کریں
لیکن دونوں میں سے ہر فیصلہ غلط لگنے لگتا ہے۔ دریا کو ٹک نظر بھر کر دیکھنا شروع کیا تو ایسا لگا کہ قیمتی منظر ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔ لمحے محفوظ کیے تو محسوس ہوا کہ کیمرے میں تو یہ پورا منظر سما ہی نہیں سکتا۔ یہ تو صرف آنکھوں کا کمال ہے کہ وہ وہ تمام تر جزئیات کے ساتھ منظر کی تجسیم کر دیتی ہیں۔ چنانچہ ایک متحرک منجمد منظر آنکھوں میں بساتے رہے جب تک شام نے سرمئی چادر نہیں ڈال دی۔
چائے اور تازہ پکوڑوں کے لیے ہرے بھرے لان میں بیٹھے تو سامنے ناشپاتی کا لدا ہوا درخت تھا۔ ریسٹورنٹ کے عملے کو آفرین کہ انہوں نے ہماری فرمائش پر بڑی بڑی موٹی تازہ ناشپاتیاں توڑ کر نمک اور چاٹ مسالے کے ساتھ پیش کر دیں۔ یہ بڑے سائز کی ناشپاتی نہیں بلکہ وہ قسم تھی جسے ناخ کہتے ہیں۔ ایسی رسیلی‘ میٹھی اور منہ میں گھل جانے والی ناخ مجھے کم ہی یاد ہے۔ اللہ ان باغوں کو ثمربار رکھے۔ اس جگہ گزارے چند گھنٹے تادیر یاد رہیں گے۔ واپسی پر ایک تو وہ نیا راستہ لیا جا سکتا تھا جو ایک طرح سے بائی پاس سڑک ہے اور جو کانجو سے گزر کر مینگورا جاتی ہے۔ مینگورا کے پاس ایک بار پھر دریا عبور کر کے دائیں کنارے آنا پڑتا ہے۔ اندازہ نہیں تھا کہ رات کے سناٹے میں یہ سڑک کتنی محفوظ ہو گی‘ اس لیے خوازہ خیلہ والے راستے ہی سے واپسی کرنا پڑی۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی سیاحت ہے‘ وہاں دھوکے باز بھی موجود ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کے پی حکومت نے سوات میں کوئی سیاحتی مرکز یا رہنمائی کا دفتر بنایا ہے یا نہیں۔ بظاہر ایسا کچھ نہیں ہے اور ناواقف سیاح بہت پریشان ہوتے ہیں۔ لوگ سالہا سال رقم جوڑتے ہیں‘ بہت پُرجوش ہوکر آتے ہیں لیکن بااعتماد سیاحتی کمپنیوں کی عدم موجودگی انہیں کڑوے تجربات سے گزارتی ہے۔ اگر کے پی ٹورازم محکمہ اپنا انتظام نہیں کر سکتا تو کم از کم کچھ لائسنس یافتہ کمپنیوں کا ہی نام دیدے جو لوگوں کو سوات سے بددل نہ کریں۔ میری ملاقات لاہور کے ایک گھرانے سے ہوئی جو مالم جبہ سے ہوکر آیا تھا اور سخت مایوس تھا۔ اس کے خیال میں مالم جبہ جانا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ ظاہر ہے علاقے سے ناواقف لوگ مقامی ڈرائیوروں اور سیاحتی کمپنیوں پر انحصار کرتے ہیں اور آخر میں نتیجہ کچھ ایسا ہی نکلتا ہے۔ لیکن کچھ گزارشات سیاحوں سے بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب آپ وقت نکال کر‘ پیسے خرچ کرکے سیاحت کو نکلتے ہیں تو معلومات بھی لے کر چلیں۔ کچھ بنیادی معلومات تو ضرور لیں جو نیٹ پر مل جاتی ہیں۔ آپ کی متعلقہ علاقے سے جتنی کم واقفیت ہو گی‘ اتناہی آپ کے لٹنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ دوسرا یہ کہ ان مقامات پر تمام پالیسیاں سیاحت کے گرد نہیں گھوم سکتیں کیونکہ وہاں لوگوں کے دیگر کاروبار اور روزگار بھی ہیں۔
اگلے دن فضا گھٹ میں دریا کنارے اترا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بیشمار لوگ چھلنیاں لیے دریا کے پتھر اور ریت چھان رہے ہیں۔ ان میں بڑی عمر کے لوگ‘ جوان اور بچے سب شامل تھے۔ یہ منظر میں نے پہلی بار دیکھا۔ یہ مقامی لوگ دریا میں زمرد کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تلاش کرتے ہیں اور انہیں جوہریوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اب یہ قسمت ہے کہ زمرد کا بہت چھوٹا ریزہ ملے یا بڑا ٹکڑا۔ صرف زمرد ہو یا پتھر بھی ساتھ ہو۔ یا کچھ بھی نہ ملے۔ لیکن عام طور پرکچھ زمرد ان ریت چھاننے والوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ سیاحوں کو یہ ٹکڑے فروخت کر دیتے ہیں۔ اس میں دھوکا بھی ہوتا ہے۔ میں نے دریا کنارے اپنی چھلنی بغور دیکھنے والے سے پوچھا کہ آج کچھ ملا؟ اس نے ایک دو ٹکڑے دکھائے اور ایک نسبتاً بڑا ٹکڑا جیب سے نکال کر دکھایا جس میں سبز زمرد کے ساتھ سرمئی پتھر لگا ہوا تھا۔ زمرد کا معاملہ یہ ہے کہ ڈھائی ہزار سال پہلے بھی سوات کا یہ زمرد نکالا جاتا رہا اور رومن زیورات میں بھی اس کی موجودگی بتاتی ہے کہ یہ زمرد کتنی دور تک سفر کرتا تھا۔ زمرد کی یہ کان فضا گھٹ کے پہاڑو ں میں موجود ہے اور 1958ء میں اس کی ازسرنو دریافت ہوئی تھی۔ سوا ت کا زمرد اپنے گہرے سبز رنگ‘ شفافیت اور قدرتی طور پر شش پہلو کرسٹل کی وجہ سے الگ پہچانا جاتا اور بہت قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سات سو ملین قیراط کا زمرد اس کان میں موجود ہے۔ ایک زمانے میں زمرد کی تین کانیں تھیں۔ شموزئی اور شانگلہ میں بھی ایک ایک کان تھی جبکہ اب فضا گھٹ کان پر ہی کام ہوتا ہے۔ زمرد کا ٹکڑا اگر اعلیٰ کوالٹی کا اور بڑا ہو تو اس کی قیمت فی قیراط دس ہزار ڈالر تک پہنچ جاتی ہے کیونکہ سوات کا زمرد اچھے معیار کا ہے۔
اس دریا میں‘ ان پتھروں میں‘ ان چٹانوں میں اللہ نے لوگوں کے رزق کے کیسے کیسے سبب بنا رکھے ہیں۔ تھوڑی سی زمین کھودیں اور فصل اگا لیں‘ باغ لگا لیں۔ ذرا سی اور زمین چیریں‘ پتھروں کا پردہ ہٹائیں تو اندر گہرے سبز رنگ کا جھلملاتا شش پہلو زمرد آپ کو دیکھ رہا ہو گا۔ تو اس وادی کو زمردی وادی کیسے نہ کہیں؟ اس دریا کو زمردی دریا کیوں نہ پکاریں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved