آپ نے نوٹ کیا ہے چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً دنیا کی سبھی اقوام کو لگتا ہے کہ وہ بڑی عظیم قوم ہیں۔ پاکستانیوں کو زیادہ لگتا ہے کہ ان کے اندر بہت خوبیاں ہیں‘ بڑا ٹیلنٹ ہے‘ وہ دنیا پر راج کرسکتے ہیں‘ یورپ‘ امریکہ کو اپنے قدموں میں جھکا سکتے ہیں لیکن بھکاریوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں اور اس کے ذمہ دار اُن کے حکمران ہیں۔ انہیں یہ بات کس نے بتائی ہے کہ وہ عظیم قوم ہیں؟ یہ بات بھی انہی لیڈروں اور حکمرانوں نے بتائی ہے کہ وہ بہت عظیم قوم ہیں۔ لیکن وہ خود کو اس گروہ میں شامل نہیں کرتے جو بقول انکی پسماندگی ‘ غربت اور جہالت کا ذمہ دار ہے۔ وہ صرف اپنے مخالف حکمران یا سیاستدان کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں عظیم قوم نہیں بننے دیا ورنہ اس وقت پاکستان ایک سپر پاور ہوتا اور وہ لیڈر اس کے سربراہ ہوتے اور وہ سب اس عظیم قوم کے فرد۔
انسانی تاریخ کو پڑھیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ ہر وہ بندہ جو اپنے جیسے لوگوں کو آزادی اور عظمت کے نام پراپنا غلام بنانا چاہتا تھا اس نے اپنی قوم کو یہی کہانی سنائی اور بار بار سنائی کہ وہ دوسری قوموں سے برتر ہیں‘ وہ دوسری قوموں پر راج کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں‘ ان کا خون دوسری قوموں سے الگ ہے‘ یہ ان کا پیدائشی حق ہے کہ وہ دنیا میں شائن کریں اور حکومت کریں۔ ہر انسان یہ سن کر خوش ہوتا ہے کہ وہ عظیم انسان ہے اور کسی بڑے مقصد کے لیے پیدا ہوا ہے۔ یہ احساسِ برتری کا تصور اسے سکون دیتا ہے۔ جب اسے کوئی بتاتا ہے کہ اگر سب اسے فالو کریں تو وہ انہیں عظیم قوم بنا سکتا ہے تو وہ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اس کے فالوورز ملک کے اندر ان لوگوں کے دشمن بن جاتے ہیں جو ان کے فلسفۂ عظمت یا ان کے لیڈر کے خبطِ عظمت کے تصور سے اختلاف کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا لیڈر مہان ہے جو انہیں عظمت کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے لیکن کچھ شیطانی اور بدی کی قوتیں اس کا راستہ روک رہی ہیں۔ ان سب کا گرو انہیں روز بتاتا ہے کہ انہیں عظیم قوم بننا ہے‘ انہیں آزاد ہونا ہے۔ مگروہ لیڈر یہ نہیں بتاتا کہ عظیم کیسے بننا ہے اور دنیا فتح کیسے کرنی ہے؟ اس کے نزدیک بس دنیا سے لڑنا ہے‘ عظمت کا یہی نشان ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے پاپولر لیڈرز اپنی قوموں کو جنگوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ تاریخ میں انسانوں کی بربادی کبھی بھی اَن پاپولر لیڈرشپ کے ہاتھوں نہیں ہوئی کیونکہ اَن پاپولر لیڈر بڑے فیصلے کرنے سے ڈرتا ہے۔ وہ خطرناک فیصلوں کے نتائج سے ڈرتا ہے۔ اسے خوف رہتا ہے کہ اگر اس نے کوئی بڑا فیصلہ کیا اور نتیجہ غلط نکلا تو نہ صرف اس کے نتائج بھیانک ہوں گے بلکہ اس کھیل میں خود اس کی رہی سہی حکومت یا حکمرانی بھی چلی جائے گی‘ لیکن ایک پاپولر لیڈر ایسا نہیں سوچتا۔ وہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دیتا ہے کہ وہ عظیم قوم تو ضرور ہیں لیکن عظمت کا یہ سفر صرف اس کی قیادت میں طے کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب کرپٹ‘ نااہل اور گنہگار ہیں۔ وہ اکیلا ایماندار اور نڈر ہے۔ اپنے فالوورز کا چوائس درست ثابت کرنے کے لیے وہ روزانہ کی بنیاد پر ان کی Ego اور خبطِ عظمت کے احساس کو فیڈ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ انہیں عظمت کی کہانیاں سناتا ہے۔ ان کے آبائو اجداد کے ہزاروں برس پرانے قصے سنائے گا جب وہ گھوڑے پر سوار ہو کر دنیا کو فتح کرتے تھے۔ یوں وہ ایک ایسی دنیا اپنے فالوورز کے ذہنوں میں تخلیق کردیتا ہے جس کا کوئی وجود نہیں تھا‘ اگر کچھ وجود تھا بھی تو وہ آج کی دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔ یوں وہ سب ایک ایسی تصوارتی دنیا میں رہنا شروع کر دیتے ہیں جو آج سے ہزاروں سال کے فاصلے پر ہے۔ وہ اکیسویں صدی میں رہ کر بھی خود کو دسویں یا بارہویں صدی کے زمانوں کا حصہ سمجھتے ہیں جس میں‘ ان کے گرو کے خیال میں‘ وہ دنیا کے لیڈر‘ دنیا کی سپر پاور تھے اور پوری دنیا پر اُن کا راج تھا۔
آپ نوٹ کریں آپ کو اکثر پاپولر لیڈرز یا گرو یہی ترانہ پڑھتے ملیں گے کہ ان کے آبائو اجداد یا ان کی تہذیبیں کتنی عظیم تھیں اور وہ سب آج اکیسویں صدی میں کتنی گھٹیا زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اُس ڈارک ایجز کے انسانی دور کو ایک پُرکشش عیاشی بنا کر پیش کریں گے جب دنیا میں اوسط عمر چالیس برس تھی۔ جب لوگ گھوڑے‘ اونٹ‘ گدھے پر یا پیدل سفر کرتے تھے‘ جب چھوٹی چھوٹی بیماریوں سے مر جاتے تھے‘ قحط اور بھوک کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جاتے تھے۔ جب زندگی غیرمحفوظ تھی‘ جس کا دل چاہتا گھوڑے نکالتا اور چڑھ دوڑتا کہ شہروں اور زرعی معاشروں سے سب کچھ لوٹ لے۔ طاقتور آئے اور لوگوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ لڑکیوں کو اٹھا کر حرم میں ڈال لیا۔ لوٹ مار کے بعد غلے سے ہاتھی لادے ۔ اگلے سال پھر یہی لوٹ‘ یہی مار دھاڑ دوبارہ شروع ہوجاتی۔ انسان مارے جاتے‘ گائوں کے گائوں جلادیے جاتے۔ لیکن ان کے گرو نے گھوڑوں اور تلواروں کی لڑائی کو ایسا رومانٹک بنا دیا کہ لوگوں نے سپر سونک جہازوں اور آر ٹی فیشل انٹیلی جنس کے دور میں بھی گھوڑے اور تلواریں نکال کر نمائش شروع کر دی کہ ان سے ہی وہ دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔ یہ وہ ذہنی عیاشی ہے جو ان قوموں کے لیڈر اور گرو اپنے لوگوں کو فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایسا نشہ ہے جو شراب‘ چرس‘ ہیروئن اور آئس بھی فراہم نہیں کرسکتے۔ ان چیزوں کا نشہ تو زیادہ سے زیادہ بارہ گھنٹے چڑھتا ہوگا لیکن ان لیڈروں کا پلایا ہوا قرونِ وسطیٰ کے ادوار کی سرداری کا نشہ عمر بھر ذہن پر سوار رہتا ہے۔
یہ باتیں آپ اپنے اردگرد آج بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ اپنے ہمسائے بھارت میں دیکھیں‘ یہی نشہ وہاں مودی صاحب اور ان کی پارٹی نے لوگوں کو پلایا کہ کبھی وہ دنیا کی عظیم تہذیب تھے اور پوری دنیا میں علم یہیں سے پھیلا۔ آج کے ہر سائنسی کارنامے کو وہ ہزاروں سال پہلے کے کسی جوتشی یا سادھو سے جوڑ دیتے ہیں۔ امریکہ چلے جائیں تو وہاں ٹرمپ آپ کو یہی نعرہ مارتا ملے گا کہ میں امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائوں گا۔ وہ چار سال امریکہ کا صدر رہا‘ اب وہ ایک بار پھر صدر بننا چاہتا ہے مگر نعرہ وہی ہے کہ امریکہ کو عظیم بنانا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ ہمارے جیسی قوموں نے امریکہ کی طرح عظیم بننا ہے جبکہ امریکی کہتے ہیں کہ ہم کبھی بہت عظیم تھے اور پوری دنیا پر بم مارتے تھے لیکن اب ہم کلنٹن‘ اوباما اور جو بائیڈن کی وجہ سے عظمت کے مینار سے نیچے آ گرے ہیں‘ برباد ہوگئے ہیں‘ اس لیے ٹرمپ دوبارہ صدر بنے تاکہ ہم پھر سے عظیم قوم بن کر سب پر ڈنڈے برسائیں اور اپنی عظمت ثابت کریں۔ جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا تو وہ بھی یہی ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ بہت عظیم قوم ہے جو امریکہ تک کو ٹکردے سکتی ہے‘ جواباً دو ایٹم بم کھا لیے۔
اپنے ہاں دیکھیں تو پہلے بھٹو صاحب نے پاکستان کو عظیم مسلم قوت بنانے کا نعرہ مارا کہ پاکستانی دنیا بھر کے مسلمانوں کو لیڈ کریں گے۔ نواز شریف نے نعرہ لگایا کہ ہم ایشین ٹائیگر بنیں گے اور وہ خود امیرالمومنین بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ جبکہ عمران خان ان سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے کہا: میں ریاست مدینہ بنا کر تمہیں عظیم قوم بنائوں گا۔ دنیا بھر کے فیصلے پاکستان میں ہوں گے‘ آپ دنیا کو لیڈ کریں گے‘ ان کی باتیں سن کر مجھے تاریخ کے وہی کردار یاد آ تے ہیں جنہوں نے اپنی اپنی قوموں کو بانس پر چڑھا کر مروادیا۔ ان کے اندر جعلی عظمت کی اتنی پھوک بھر دی کہ جب وہ غبارے پھٹے تو دوسری قوموں کو کیا نقصان ہوتا‘ خود یہ سب بھی الٹے لٹک گئے۔ کوئی پھانسی لگ گیا تو کوئی جلاوطن ہو گیا اور کوئی اڈیالہ پہنچ گیا۔ یہ تینوں اپنے اپنے دور کے مقبول عوامی لیڈر تھے۔ ملک و قوم کو عظیم بنانا چاہتے تھے۔ ان تینوں کا مقصد ایک ہی تھا آپ سب عظیم صرف اُس وقت بنیں گے جب میں تمہارا تاحیات وزیراعظم بنوں گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved