تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     25-09-2024

دلیپ کمار اور پشاور کا عشق

دلیپ کمار بلاشرکتِ غیرے بالی وُڈ کا سب سے بڑا اداکار تھا جس نے ایک طویل عرصے تک بالی وُڈ پر حکمرانی کی۔ سب سے زیادہ ایوارڈ وصول کیے اور لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ فلمی دنیا کے آسمان پر جگمگانے والا یہ ستارہ 11 ستمبر 1922ء کو پشاور کے ایک تاریخی علاقے قصہ خوانی بازار میں پیدا ہوا۔ اس کا نام یوسف خان رکھا گیا۔ اس کے والد غلام سرور خان پھلوں کے کنٹریکٹر تھے اور ان کے پھلوں کے باغات تھے۔ ان کے گھر کے قریب ہی کپور خاندان رہتا تھا۔ بشیش ورناتھ کپور سے آغا جی کی دوستی تھی۔ وہی بشیش ورناتھ جن کا بیٹا پرتھوی راج کپور اور پوتے راج کپور‘ ششی کپور ر اور شمی کپور تھے۔ دلیپ کمار کی والدہ عائشہ بی بی ایک خاموش طبع خاتون تھیں۔ گھر میں دادی کا حکم چلتا تھا۔ یہ ایک بڑا گھرانہ تھا۔ غلام سرور خان صاحب کے گیارہ بچے تھے‘ یوسف خان کا نمبر چوتھا تھا۔ یہی یوسف خان بعد میں دلیپ کمار بنا۔ اپنی سوانح عمری ''Dilip Kumar: The Substance and the Shadow‘‘ میں دلیپ کمار پشاور میں اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے لکھتا ہے کہ اسے پھولوں کا شہر پشاور یاد ہے جو ٹیولِپس کا شہر تھا‘ رنگوں‘ خوشبوؤں اور خوبانیوں کا شہر۔ اسے گلابوں کے پھولوں والی گلی یاد ہے جہاں شام کو لوگ پھول خریدنے آتے تھے۔ اسے مسجد مہابت خان اور کنٹونمنٹ کا علاقہ بھی یاد ہے۔ پشاور میں موسم سرما میں شدید سردی ہو جاتی اور پہاڑ دھند میں چھپ جاتے۔ فجر کی نماز کے لیے یخ پانی سے وضو کرنا آسان نہ تھا۔ گرمیوں میں لُوکے تھپیڑے چلتے اور دوپہر میں کام کرنا آسان نہ ہوتا۔ دلیپ کو یاد ہے جب سردیوں میں گھر والے آگ کے گرد بیٹھتے اور باتیں کرتے۔ وہ بھی غور سے ان کی باتیں سنتا۔ تب ایک روز ان کے دروازے پر ایک ملنگ آیا اور ننھے یوسف خان کو دیکھ کر اس نے داد ی کو بتایا کہ یہ بچہ غیر معمولی ہے۔ اسے بُری نظر سے بچانا ہو گا۔ دادی اس کی باتوں سے ڈر گئی اور یوسف کے سر کے سارے بال منڈوا دیے اور اس کے ماتھے پر سیاہ ٹیکہ لگایا تاکہ وہ نظرِ بد سے بچا رہے۔ یوسف خان سکول میں الگ تھلگ رہتا تھا۔ وہ ایک شرمیلا اور Introvert بچہ تھا لیکن پڑھائی میں وہ بہت اچھا تھا‘ خاص طور پر اسے انگلش میں بہت دلچسپی تھی۔
دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو یوسف کے والد غلام سرور خان نے سوچا کہ بہتر ہو گا کہ وہ کاروبار کے لیے کہیں اور شفٹ ہو جائیں۔ وہ پہلے پونا اور پھر بمبئی گئے اور کچھ عرصہ بعد بچوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ یوسف کو Barnesسکول میں داخل کرایا گیا پھر وہ خالصہ کالج آگیا۔ اسے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اسی کالج میں راج کپور بھی پڑھ رہا تھا۔ وہی راج کپور جس کے والد پرتھوی راج اور دادا بشیش ورناتھ دلیپ کے والد غلام سرور خان کے دوست تھے اور جو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ان کے ہمسائے تھے۔ یوسف کو سپورٹس میں دلچسپی تھی اور وہ کرکٹ اور فٹ بال باقاعدگی سے کھیلتا تھا۔ سپورٹس کے ساتھ ساتھ اسے اردو اور انگریزی ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ بڑا ہو کر کرکٹر یا فٹ بالر بنے گا۔ اس کے برعکس راج کپور کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے والد پرتھوی راج کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا فلمی دنیا میں جائے گا اور اپنی اداکاری سے لوگوں کو متاثر کرے گا۔ فلم کی دنیا میں جانے کا خیال یوسف کو کبھی نہیں آیا۔ اس کے گھر کا ماحول روایت پسند تھا اور اس نے زندگی میں کبھی سینما میں فلم نہیں دیکھی تھی۔ اسے یاد ہے بس ایک بار انہیں جنگ کے حوالے سے ڈاکیومنٹری دکھائی گئی تھی اور اگر کبھی اس کے دل میں خیال آتا بھی تو اس کے سامنے اپنے والد آغا جی کا رعب دار چہرہ آجاتا جو فلموں کے سخت مخالف تھے اور فلموں میں کام کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ کالج کا زمانہ ختم ہوا تو راج کپور حسبِ توقع فلموں کی دنیا میں چلا گیا اور بعد میں اس کے بھائی ششی کپور اور شمی کپور نے بھی اداکاری کے شعبے کو اپنایا۔ جب آغا جی کو پتا چلا کہ بشیش ورناتھ کے پوتے فلم کی دنیا میں جا رہے ہیں تو انہوں نے بشیش ورناتھ کو کہا: افسوس تمہارے بیٹے اور پوتوں نے نوٹنکی کو جوائن کر لیا ہے۔ شروع شروع میں بچے اپنی دادی سے ملنے پشاور میں واقع قصہ خوانی حویلی میں آیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ کچھ برس جاری رہا۔ وہ تعطیلات میں لاہور آتے اور خوب لطف اٹھاتے۔ پھر ہندوستان کی تقسیم ہو گئی۔ سرحد کے دونوں طرف سے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نئی منزلوں کی تلاش میں نکل پڑے ۔ یوں 1947ء کے بعد یوسف کا اپنے آبائی گھر سے رشتہ کٹ گیا۔
بمبئی میں والد پھلوں کا کاروبار کرتے تھے۔ اتفاق سے پشاور میں ان کے ہمسائے پرتھوی راج کا خاندان بھی یہیں تھا۔ دونوں میں مشترکہ چیز پشتو زبان تھی۔ آغا جی کو پشتو کے علاوہ اُردو‘ پنجابی اور فارسی پر بھی دسترس تھی اور بمبئی آکر تو انہوں نے گجراتی اور ہندی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ آغا جی کی شخصیت بہت دلچسپ تھی‘ ان کی کوئی رسمی تعلیم نہیں تھی لیکن ان کے دوستوں میں ڈاکٹر‘ پروفیسر اور وکیل شامل تھے۔ آغا جی گھر سے باہر تو خوب محفل آرائیاں کرتے تھے لیکن گھر میں لیے دیے رہتے۔ البتہ جب وہ یوسف کو انگریزی پڑھتے اور بولتے دیکھتے تو بہت خوش ہوتے۔ ان کے بیٹوں میں یوسف سب سے ہونہار تھا۔ ایک بار دلیپ نے انہیں یہ کہتے سنا کہ میرا بیٹا فروٹ نہیں بیچے گا‘ یہ قانون کی تعلیم حاصل کرے گا‘ اس میں بڑا آدمی بننے کی صلاحیت ہے۔ اب آغا جی کے کاروبار پر دوسری عالمی جنگ کے اثرات کے سائے پڑ رہے تھے۔ ان کا کاروبار متاثر ہو رہا تھا اور آمدنی میں کمی آرہی تھی۔ اس کا اثر ان کے مزاج پر بھی پڑ رہا تھا۔ اُنہی دنوں کسی بات پر یوسف کا آغا جی سے جھگڑا ہوا تو یوسف نے چپکے سے گھر چھوڑ دیا۔ اس وقت اس کی جیب میں صرف 40 روپے تھے۔ وہ پونا جانے والی ٹرین پر بیٹھ گیا۔ اس کی منزل کیا تھی‘ اسے خود اس کا علم نہیں تھا۔ پونا اُتر کر اچانک اسے ایک ایرانی کیفے نظر آیا۔ یوسف کیفے کے اندر چلا گیا اور فارسی میں اس سے کہا کہ وہ شاپ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنا چاہتا ہے۔ دکان کا مالک اسے فارسی میں بات کرتے دیکھ کر خوش ہوا اور ایک اور دکان کا پتا بتا دیا جسے اینگلو انڈین میاں بیوی چلاتے تھے۔ یہ دکان قریب ہی تھی یوسف وہاں چلا گیا اور وہاں جا کر انگریزی میں اپنا تعارف کرایا۔ دکان کے مالک نے اس کا سر سے پیر تک جائزہ لیا اور آنے کا مقصد پوچھا۔ یوسف نے بتایا کہ اسے نوکری کی تلاش ہے۔ دکان کے مالک نے کہا کہ وہ ایک کینٹین کے ٹھیکیدار کو جانتا ہے اور وہ اس سے یوسف کی نوکری کی بات کر سکتا ہے۔ اس رات وہ ایک معمولی سے ہوٹل کے سستے سے کمرے میں رہا اور اگلے روز کینٹین کے ٹھیکیدار کے پاس پہنچ گیا۔ ٹھیکیدار کا نام تاج تھا‘ اس نے یوسف کو ایک پین اور کاغذ دیا اور اس سے کینٹین منیجر کے نام ایک خط لکھوایا کہ وہ کینٹین کے لیے ایک لڑکے کو اسسٹنٹ رکھنا چاہتا ہے۔ کینٹین منیجر کو واقعی ایک اسسٹنٹ کی تلاش تھی۔ یوسف کو روانی سے انگریزی بولتے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور اسے نوکری پر رکھ لیا۔ یوں یوسف کو ایک اجنبی شہر میں نہ صرف نوکری مل گئی بلکہ رہائش کا بھی معقول انتظام ہو گیا۔ یوسف کا کام پھلوں‘ سبزیوں‘ انڈوں‘ دودھ‘ پنیر اور مکھن وغیرہ کے سٹاک کا حساب رکھنا تھا اور کچن اور اس کے سارے ماحول کو صاف رکھنا تھا۔ پُول کے اندر پانی کی صفائی کے انتظام کی نگرانی بھی کرنا تھی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved