تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     31-10-2013

مہذب آدمی

پندرہویں صدی کے تاتاریوں نے آدمیت کے ساتھ جو کیا سو کیا‘ مگر آج کا مہذب آدمی؟ اس کے بارے میں کیا کہا جائے؟ قدامت پسند‘ وحشی‘ بنیادپرست… اور کیا؟ اور کیا؟ کس روانی اور رسان کے ساتھ ہمارے لکھنے والے یہ اصطلاحات استعمال کرتے ہیں‘ مہذب اقوام‘ مہذب معاشرے اور مہذب آدمی! یہ خوش اطوار‘ شائستہ اور قابلِ تقلید آدمی کون ہے؟ سب سے بڑھ کر تو امریکی۔ ریاست ہائے متحدہ؟ جس کی بنیاد پانچ کروڑ ریڈ انڈینز کی لاشوں پر رکھی گئی؟ وہ لوگ جو سات کروڑ کالوں کو غلام بنا کر لائے اور ان میں سے کم از کم ایک تہائی بحری جہازوں میں دم توڑ گئے۔ وہ انکل سام‘ جس نے دوسری عالمی جنگ کے ہنگام ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے‘ جب جاپان ہتھیار ڈالنے پر پوری طرح آمادہ تھا۔ سوویت یونین؟ ستر برس تک جس کے قصیدے ہم پڑھتے اور سنتے رہے۔ وہ سرخ جنت‘ جس کی ترقی پسند اور روشن خیال افواج نے صرف افغانستان میں تیرہ لاکھ افغانیوں کو خاک و خون میں نہلا دیا اور اتنے ہی پشتونوں‘ ازبکوں اور تاجکوں کو اپاہج کر ڈالا۔ ہزاروں برس سے آباد چلے آتے دیہات کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ ایک عشرے تک دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کا شکار کھیلتی رہی۔ کھلونا بموں سے کمسن چرواہوں کا قتل عام کرتی رہی۔ مائوزے تنگ اور چو این لائی کا چین؟ ایک کروڑ مار ڈالے گئے اور کسی کو ان پر رونے کی اجازت نہیں تھی۔ آسٹریلیا؟ جہاں قدیم اقوام کے چند ہزار افراد ہی زندہ بچے۔ سیاہی مائل‘ گندم گوں‘ جن کی اب کوئی شناخت نہیں۔ تعلیم میں پسماندہ‘ صحت میں پسماندہ‘ ذہنی طور پر پچھڑے ہوئے لوگ۔ اکثر بادہ نوشی کے جال میں الجھے‘ پھڑپھڑاتے زخمی پرندوں کی طرح۔ اب ایک اور مہذب ملک دنیا کے نقشے پر ابھر رہا ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت‘ پاکستان کا پڑوسی‘ موہن داس کرم چند گاندھی کا بھارت۔ ہزاروں بھوکی مائیں‘ جہاں غیر ملکیوں کے لیے کرایے کے بچے جنتی ہیں۔ ہر سال لاکھوں کسان جہاں خودکشی کرتے ہیں۔ شرح ترقی‘ پڑوسی پاکستان سے دو گنا ہے مگر دس کروڑ سے زیادہ شہری ایسے ہیں‘ جو ڈاک کا پتہ بھی نہیں رکھتے۔ فٹ پاتھوں پر وہ پیدا ہوتے‘ فٹ پاتوں پر وہ پروان چڑھتے اور وہیں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے مراکز میں سے ایک مرکز کراچی بھی ہے۔ پوری قوم کو‘ جس نے ڈپریشن میں مبتلا کر رکھا ہے۔ فساد کی لہر تیز ہو جائے تو کتنی لاشیں روزانہ گرتی ہیں؟ ایک بے گناہ کا قتل بھی‘ ظاہر ہے کہ المناک ہے مگر کتنی لاشیں… زیادہ سے زیادہ دس بارہ؟ جدید جمہوریت کے پُو سے دمکتے بھارت کے دارالحکومت دہلی میں روزانہ 25 آدمی بھوک سے مرتے ہیں۔ شہر کی بلدیہ کا عملہ مقرر ہے‘ جو ان کی لاشیں اٹھا کر مرگھٹ پہنچاتا ہے۔ کیا ان کے لیے مذہبی رسوم ادا کی جاتی ہیں؟ لازماً لازماً‘ ایک ایسے اہم مقدس فریضے سے گریز کیسے ممکن ہے؟ یہ تو بھارت کے چمکتے چہرے پر ایک بدنما داغ ہوگا۔ اس بدترین شہر‘ فساد زدہ کراچی میں ایک بوڑھا آدمی بستا ہے‘ اس کا نام ادیب رضوی ہے۔ اعدادو شمار تو سامنے نہیں مگر سب جانتے ہیں کہ صرف اس ایک آدمی کی جدوجہد سے گردے کے ہزاروں مریض شفا پاتے ہیں۔ جب کبھی ٹی وی پر وہ نمودار ہوتا ہے اور خال ہی ایسا ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ کچھ دیر کے لیے اس درماندہ اور دکھی دنیا کو قرار مل گیا ہے۔ دور کسی آنگن سے‘ کسی بچے کے ہنسنے کی صدا آتی ہے۔ کسی سہاگن کی شائستہ آواز‘ لوری گاتی ہوئی کوئی ماں۔ بھائی کے لیے رات کا کھانا پکاتی ایک آسودہ بہن۔ وہ بوڑھا آدمی عبدالستار ایدھی بھی اسی شہر کا مکین ہے۔ نیم خواندہ‘ ناتراشیدہ۔ مگر… نوبل پرائز کے لیے اس کا نام کبھی تجویز نہ کیا جائے گا۔ ایسا گنوار اور نوبل پرائز؟ لاہور کے ڈاکٹر امجد ثاقب کا بھی نہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے‘ کچھ پڑھے لکھے لوگ‘ معلومات کا باہم تبادلہ کر رہے تھے کہ اخوت کا بجٹ اب کتنا ہے۔ اپوزیشن کے ایک معروف سیاست دان‘ ایک صوبائی وزیر‘ ایک اخبار نویس۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم کتنے لوگوں کو اب تک روز گار عطا کر چکی؟ ستر ہزار؟ ایک لاکھ؟ دو لاکھ؟ غیر سودی قرضے۔ واپسی کی شرح 97.86فیصد۔ اس کے باوجود نوبل انعام کے مستحق بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس ہیں، جن کا بینک، ترجیحاً خواتین کو قرضے دیتا ہے۔ شرح سود؟20سے 39فیصد۔ مہذب آدمی کی ایک کہانی پاکستان کے قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والی نبیلہ نے واشنگٹن میں کانگریس کے ارکان کو سنائی۔ ڈروں طیارے کے حملے میں نبیلہ کی دادی قتل کر دی گئی تھی۔ نبیلہ نے انہیں بتایا کہ اس دن کے بعد سے نیلا آسمان اسے اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے کہ اگر بادل ہوں تو ڈرون طیارے نمودار نہیں ہوتے۔ گھروں میں سہمے ہوئے نیلی آنکھوں والے بچے، چار دیواری سے باہر نکل سکتے ہیں۔ درختوں کے نیچے کھیل کود سکتے ہیں۔ کھیتوں میں بھاگ دوڑ سکتے ہیں۔ تازہ ہوا میں سانس لے سکتے ہیں۔ کانگریس کے ارکان سے نبیلہ کے والد شفیق الرحمن نے کہا: میری بیٹی کا چہرہ ایک دہشت گرد کا چہرہ نہیں ہے۔ شفیق الرحمن نے یہ بھی کہا: واپس جا کر، پاکستانیوں کو میں بتائوں گا کہ امریکیوں نے ہماری بات سنی۔ مہذب آدمی کی یہی نشانی ہے۔ وہ دوسروں کی بات سنتا ہے۔ توجہ، انہماک اور ہمدردی کے ساتھ۔ اس قدر ہمدردی کے ساتھ کہ نبیلہ نے اپنی کہانی سنائی تو مترجم خاتون آنسوئوں کے ساتھ رو پڑی۔ مہذب معاشرے کے مہذب ملک اور مہذب قوم سے تعلق رکھنے والی اس معزز خاتون کے آنسو ایک بڑی خبر ہیں، جو دنیا کے تمام اخبارات میں چھپی ہو گی۔ جہاں تک ڈرون حملوں میں گردو غبار ہو جانے والے گھروں کا تعلق ہے‘ ان کے مکین بھی شاید گریہ کناں ہوتے ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی دھاڑیں مار مار کر روتا اور بلکتا ہو‘ ممکن ہے کوئی بیاہتا دیواروں سے سر ٹکراتی ہو۔ ممکن ہے کسی ماں کی خالی گود چیختی ہو۔ ممکن ہے کوئی بوڑھا باپ شب بھر جاگتا ہو۔ اس میں مگر کون سی خبریت ہے؟ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ طاقتور لوگوں کے قدموں تلے کمزور کچلے ہی جایا کرتے ہیں۔ اس میں پھر خبر کی کون سی بات ہے؟ نبیلہ اور اس کے باپ کو جنہوں نے شاید کبھی کوئی ہوائی اڈہ بھی نہ دیکھا ہوگا‘ سات سمندر پار کون لے گیا؟ وہی مہذب لوگ جنہوں نے جہاز بنائے‘ ہوائوں پہ جن کی حکمرانی ہے اور جو اب این جی اوز بناتے ہیں۔ شاید عصر رواں کے قارون جارج سورس کا کوئی نمائندہ‘ شاید کسی نئے نمرود کا‘ شاید کسی فرعون کا۔ مہذب لوگ ہی برباد قوموں سے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے‘ ان کے آنسو پونچھتے ہیں۔ ع ہوائیں اُن کی‘ فضائیں اُن کی‘ سمندر اُن کے‘ جہاز اُن کے ہمارے دانشور اگر ان کے قصیدے نہ لکھیں تو اور کس کے لکھیں؟ اب آدمی اگر سوال کرے کہ پندرہویں صدی کے تاتاریوں نے جو کیا سو کیا مگر آج کا مہذب آدمی؟ تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ قدامت پسند، وحشی، بنیاد پرست …اور کیا ؟ اور کیا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved