میں گزشتہ ہفتے تین چار روز تک محوِ سفر رہا۔ اس دوران ٹی وی سکرین اور سوشل میڈیا سے قصداً دور رہا تاکہ مظاہرِ فطرت کی جلوہ آرائیوں سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ بے خبری کا بھی اپنا مزہ ہے۔ میں جب کبھی موٹروے پر سفر کرتا ہوں تو جمالِ فطرت سے ہم کلام ہونے کی لذت سے بہرہ مند ہوتا ہوں۔ اس رومانی و روحانی تجربے میں ہمیشہ یہ طالب علم اپنے قارئین کو بھی شریک کرتا ہے۔ لاہور سے اسلام آباد تک کا موٹروے انسانی مہارت اور قدرتی حسن کا منفرد شاہکار ہے۔ اُجلی‘ سنہری اور روپہلی صبح کو سڑک کے دونوں طرف تاحدِ نگاہ پھیلی ہوئی فضائے سبز گوں میں مٹیالی پگڈنڈیوں کا حسن دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ:
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
ان لہلہاتی فصلوں‘ پھلتی پھولتی کھیتیوں‘ پابہ گل اور سر بہ فلک اشجار کے درمیان کچے پکے گھروں کے مکینوں کے بارے میں سوچتا ہوں کہ وہ کتنے خوش قسمت ہیں۔ یہ دیہاتی‘ شہروں کی ہاؤ ہُو اور شور و غل سے دور‘ خالص دودھ دہی استعمال کرتے اور حرص و ہوس اور طمع و لالچ جیسی بیماریوں سے دور رہتے ہوں گے۔ میرا بھی علامہ کی طرح دل چاہتا ہے کہ ان لہلہاتی کھیتیوں میں ایک جھونپڑا ہو کہ جہاں جب دنیا کی محفلوں سے دل اُکتا جائے تو دوچار روز آ کر سبز فضا‘ نیلگوں آسمان اور اُڑتی ہوئی سفید کونجوں کے مناظر سے دل کو شاد کیا جائے۔
اپنے شہر سرگودھا جانا ہمیشہ باعثِ صد مسرت ہوتا ہے مگر اس بار ایک بات میں نے شدت سے محسوس کی ہے کہ شہر کی گلیاں کوچے اور چوک چوبارے تو اپنی جگہ پر موجود ہیں مگر اُن میں اب وہ پہلی سی کشش نہیں جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ آپ کے اپنے شہر کی اصل جاذبیت وہ ہم نشیں ہوتے ہیں جن کے ساتھ آپ کا بچپن‘ لڑکپن اور جوانی گزری ہوتی ہے۔ جب وہ دوست کسی اور دنیا میں جا کر آباد ہو جاتے ہیں اور آپ چراغ لے کر بھی جائیں تو کوئی یار پرانا ملتا ہے نہ کوئی آشنا تو بندہ اپنے شہر میں اجنبی بن جاتا ہے اور اپنے ہی شہر کی شامیں بہت اداس محسوس ہوتی ہیں۔ بقول شاعر:
شام آتے ہی پرندے شور مچاتے ہیں
تو دوستوں میں گزرے پل یاد آتے ہیں
دو روز سرگودھا میں عزیز و اقارب کے ساتھ بسر کرنے کے بعد میں ہفتے کے روز اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تو تقریباً بارہ بجے دن کے قریب میں نے بچشمِ خود چکوال سے ذرا آگے ایک ایسا منظر دیکھا کہ جو آج تک کبھی موٹروے پر نہ دیکھا تھا۔ پہلے تو ڈرائیور نے بتایا کہ چکوال انٹر چینج سے ٹریفک کو موٹروے پر نہیں آنے دیا جا رہا۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک طویل کنٹینر کو اسلام آباد سے لاہور آنے والے موٹر وے ٹریک پر آڑا ترچھا کر کے یوں کھڑا کر دیا گیا ہے کہ اس کے بعد موٹروے سے لاہور کی طرف سوئی بھی نہ جا سکے۔ کنٹینر کے ساتھ پولیس کی بھاری نفری بھی نظر آئی۔ عین اسی وقت پنجاب کی ایک وزیر باتدبیر خاتون نہایت طمطراق سے کہہ رہی تھیں کہ ہم نے کوئی راستہ روکا ہے نہ کسی شاہراہ پر کنٹینر لگا کر اسے بند کیا ہے۔ میں نے دل سے کہا کہ آج اپنے وعدے پر قائم رہنا ہے اور حسین و جمیل مناظرِ فطرت کے البم سے اس تکلیف دہ سیاسی منظر کو ڈیلیٹ کر دینا ہے اور ذہن کو سیاست نگری کی طرف بھٹکنے نہیں دینا۔
اس عالم میں ہم اسلام آباد جا پہنچے۔ وہاں ایک اہلِ علم سے ڈیڑھ دو گھنٹے نہایت پُرلطف علمی و ادبی اور فکری و نظری گفتگو ہوئی۔ پروفیسر صاحب نہ صرف صاحبِ علم و دانش ہیں بلکہ زراعت کا بھی شغف رکھتے ہیں۔ وہ پھولوں اور پھلوں کی کاشت‘ ان کی نگہداشت اور اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ مل کر پودوں اور درختوں کی اپنے ہاتھوں سے آبیاری کرتے اور خوش ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب سے ملاقات کی مہک سے ابھی تک دل و دماغ معطر و منور ہیں۔ اس مہک کو میں ابھی اپنے سینے میں تھام کے رکھنا چاہتا ہوں مگر ان شاء اللہ آپ کے ساتھ ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں اور موصوف کے کتابی خزانے بھی شیئر کروں گا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں ایک غیرسیاسی تقریب میں بھی شرکت کی اور سیاسی دوستوں سے گریزاں رہا۔
اسلام آباد میں چند گھنٹے بسر کر کے میں رات گئے سرگودھا لوٹ آیا۔ اتوار کی شام لاہور اپنے گھر پہنچ کر اس خیال سے تین چار روز کے اخبارات پر ایک نظر ڈالی تاکہ اہم خبروں کا تسلسل تو معلوم ہو جائے۔ اس اخبار بینی کے دوران 20 ستمبر کے اخبار میں ایک خبر کی سرخی پڑھ کر میرے منہ سے ارتجالاً یہ الفاظ نکلے ''Oh, No‘‘۔ ڈھاکہ سے خبر تھی کہ ڈھاکہ کی جہانگیر نگر یونیورسٹی کے کیمپس میں عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم کو نامعلوم لوگوں نے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شمیم احمد نامی طالب علم حسینہ واجد کے سٹوڈنٹ ونگ کی قیادت کا اہم عہدیدار تھا۔ شمیم احمد وسط جولائی میں کیمپس کے اندر حسینہ واجد کے خلاف مظاہرے کرنے والے طلبہ و طالبات پر حملے کرنے میں پیش پیش تھا۔ اس مہینے عوامی لیگ کے مخالفوں کی طرف سے یہ دوسرا طالب علم تھا جسے ردعمل کے طور پر مار ڈالا گیا۔
کاش! حسینہ واجد کے خلاف کامیاب مظاہروں کے بعد قائم ہونے والی حکومت ظلم کا بدلہ براہِ راست ظلم سے لینے کی روایت کا یکسر خاتمہ کر دیتی اور اپنے گروپ کے طلبہ پر یہ پابندی عائد کر دیتی کہ کوئی طالب علم کسی دوسرے پر ہرگز اس طرح براہِ راست حملہ آور نہیں ہو گا اور نہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسینہ واجد نے اپنے چودہ‘ پندرہ سالہ دورِ اقتدار میں ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی اور ماورائے عدالت قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا‘ تاہم ڈاکٹر محمد یونس جیسے نوبیل انعام یافتہ شخص کے دور میں انتقام در انتقام کا کلچر بنگلہ دیش سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جانا چاہیے۔ بالخصوص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر پرانا حساب کتاب برابر کرنے اور موقع پر کسی کو موت کے گھاٹ اتارنے والے کو تو بطور قاتل قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔ڈاکٹر محمد یونس قانون کی حکمرانی والی حکومت قائم کریں۔
میں نے 23 ستمبر سمیت مزید اخبارات پر نظر ڈالی تو ندامت سے میری جبین عرق آلود ہو گئی۔ خیال آیا کہ ''اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت‘‘۔ چند روز قبل ایک ذہنی مریض ڈاکٹر شاہ نواز کنبھار کو عمر کوٹ میں ایک پولیس مقابلے میں قتل کر ڈالا گیا۔ ہمارے ہاں سیاسی‘ سماجی اور مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے۔ مشرقی پاکستان میں 1971ء کے فوجی آپریشن کے بعد ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کا جان لیوا صدمہ برداشت کرنا پڑا‘ مگر آج 53برس گزرنے کے باوجود ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس نصف صدی میں کسی جمہوری یا غیر جمہوری حکومت نے ایک روز کے لیے بھی قانون کی حکمرانی نہیں چلنے دی۔ آج بھی حکومت خم ٹھونک کر سپریم کورٹ کے سامنے کھڑی ہو گئی ہے اور روز نئی سے نئی حیلہ جوئی کر رہی ہے۔ یہ راستہ انارکی کی طرف لے جائے گا۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ ہر طرف قانون شکنی جاری ہے۔ ہم اہلِ سیاست اور مقتدرہ سے دست بستہ عرض کریں گے کہ Oh, No Please‘ اب بس کیجیے اور سب کو اکٹھا کیجیے۔ آئندہ آئین پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کا عہد کیجیے۔ اسی میں ہم سب کی نجات ہے‘ اسی میں ملک و قوم کا بھلا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved