سعودی عرب عالم اسلام کا ایک ممتاز ملک ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اس ملک کے ساتھ اس اعتبار سے خصوصی وابستگی ہے کہ ''حجازِ مقدس اور حرمین شریفین‘‘ کی زیارت کے لیے مسلمانوں کو سعودی عرب کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر سے حج وعمرہ کرنے والے لوگ سعودی عرب جاتے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں مناجات کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اسی طرح مسجد نبوی شریف میں نمازوں کو ادا کر کے اپنے ایمان کو جِلا دیتے اور نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس سے اپنی وابستگی کی تجدید کرتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ حجازِ مقدس اور حرمین شریفین کا سفر لوگوں کی زندگیوں میں بہت بڑا انقلاب برپا کرتا ہے اور لوگ بالعموم عمرہ وحج کی ادائیگی کے بعد اپنی زندگی اور اپنے نظام الاوقات کو ازسرِنو مرتب کرتے ہیں۔ حرمین شریفین کی زیارت کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی کثیر تعداد میں لوگ روانہ ہوتے‘ عمرہ اور حج کرتے اور حرمین شریفین کی خوبصورت یادوں کو لے کر وطن واپس آتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور اس بات کا مشاہدہ کیا کہ عمرہ اور حج کی ادائیگی کے بعد لمبے عرصے تک انسان کا دل ودماغ حرمین شریفین کی یادوں میں کھویا رہتا ہے اور مکہ ومدینہ شریف کی جدائی کے اثرات انسان پر رِقت طاری کیے رکھتے ہیں۔
پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے اور دیرینہ تعلقات ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کو معاشی اور سیاسی حوالے سے جب بھی کبھی تعاون کی ضرورت پڑی‘ سعودی عرب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ 2005ء میں پاکستان کے بالائی علاقوں میں بڑا ہولناک زلزلہ آیا اور اس زلزلے کی وجہ سے ہزاروں لوگ وفات پا گئے۔ بیشمار گھر منہدم ہو گئے اور ہزاروں لوگ چاردیواری سے محروم ہوگئے۔ بالاکوٹ کا پورا شہر ملیا میٹ ہو گیا۔ اس مشکل وقت میں سعودی عرب نے زلزلہ زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے بھرپور انداز سے معاونت کی اور سعودی عرب میں سرکاری سطح پر باقاعدہ ایک فنڈ بھی قائم کیا گیا جس میں سعودی باشندوں نے دل کھول کر رقم جمع کرائی۔ پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے سعودی عرب پاکستان کو گاہے گاہے امدادی پیکیج بھی دیتا رہتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنی معاشی ساکھ کو بہتر بنانے کا موقع ملتا ہے۔ پاکستان پر ایٹمی دھماکوں کے بعد جب بین الاقوامی دبائو اور پابندیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو اس وقت سعودی عرب نے پاکستان کی مسلسل معاونت کی اور کئی مہینوں تک پاکستان کو مفت تیل فراہم کیا جس سے پاکستان کو اس بحران سے نکلنے میں مدد ملی۔ پاکستان کے لاکھوں افراد سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں اور وہاں سے زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں جس سے ملکی معیشت کو تقویت ملتی ہے اور بہت سے گھرانوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوتا ہے۔
پاکستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کرتی ہے اور سعودیہ سے تعلیم کے زیور سے آراستہ پیراستہ ہونے کے بعد وطن پلٹتی ہے۔ بہت سے لوگ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ‘ جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ اور جامعۃ الامام ریاض سے فراغت حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آکر تدریسی فرائض سرانجام دیتے ہیں جبکہ فارغ التحصیل علماء کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب ہی میں دعوت وتبلیغ کے شعبے سے وابستہ ہو کر اللہ کے دین کی نشر واشاعت کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ کئی علماء اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے سعودی عرب کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح ان جامعات سے فارغ التحصیل پاکستانی علماء یورپ کے بہت سے ممالک میں بھی درس و تدریس اور خطابت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی تنازعات کے حل کے لیے بھی سعودی عرب نے ہمیشہ مثبت اور مصالحتی کردار ادا کیا اور سیاسی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان جب تنازعات عروج پر پہنچ گئے تھے تو اس وقت ان تنازعات کے حل کے لیے سعودی سفارتخانے نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر جب پاکستان میں کرب کی لہر دوڑ گئی تھی‘ اس وقت سعودی فرمانروا اور سعودی حکومت نے بھی اس سانحہ پرگہرے رنج وغم اور تاسف کا اظہار کیا تھا۔ مسئلہ کشمیر اور دیگر بہت سے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ سعودی عرب کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ رہی ہیں۔ سعودی عرب کا سفارتخانہ پاکستان میں جہاں سعودی عرب کی نمائندگی کرتا ہے وہیں سعودی عرب سے آنے والے معزز مہمانوں کی آمد کے موقع پر سعودی سفارتخانے میں خصوصی نشستوں کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں بڑے پروگراموں کا انعقاد بھی کرتا ہے۔
جب ائمہ حرمین پاکستانی سرزمین پر تشریف لاتے ہیں تو لوگ ان کی آمد پر ان کے پیچھے نماز ادا کر کے روحانی فرحت حاصل کرتے ہیں اور ان کے دل میں اطمینان کی ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ماضی قریب میں امام کعبہ شیخ صالح بن حمید اور امام مسجد نبوی شیخ صلاح البدیر پاکستان تشریف لائے تو سعودی سفارتخانے نے علماء اور دینی رہنمائوں کی خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا۔ مجھے بھی ان دونوں عظیم ائمہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور میں نے جہاں ان کو غیر معمولی علم اور بصیرت کا حامل پایا‘ وہیں ان کے دلوں میں پاکستان اور پاکستانیوں کی غیرمعمولی محبت بھی دیکھی۔ ائمہ حرمین کی پاکستان سے محبت کی وجہ اسلام اور ایمان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان عظیم شخصیات میں پائے جانے والے جذبۂ اخوت کو دیکھ کرانسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس کے دل میں ان کے لیے پائی جانے والی قدر ومنزلت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ائمہ حرمین کے علاوہ رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری اور نمائندگان بھی پاکستان آتے رہتے ہیں اور مختلف جماعتوں کے دفاتر کا دورہ کرتے اور دینی اداروں اور شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہیں‘ جس سے سعودی عرب اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔
سعودی عرب ہر سال اپنے قومی ڈے کے موقع پر اسلام آباد میں پُروقار تقریب کا انعقاد کرتا ہے جس میں ملک کی نمایاں مذہبی وسیاسی اور سماجی شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر پاک سعودی دوستی کے تناظر میں گفتگو ہوتی ہے اور ملک کے حالات اور مستقبل کے حوالے سے بھی تبادلۂ خیال کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی سعودی سفارتخانے نے 23 ستمبر کو اپنے قومی ڈے کے موقع پر اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ایک پُروقار تقریب کا انعقاد کیا جس میں ملک کی نمایاں مذہبی اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔ صدر مملکت آصف علی زرداری‘ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز‘ وفاقی وزیر چودھری احسن اقبال‘ مولانا فضل الرحمن‘ پروفیسر ساجد میر اور دیگر بہت سی سیاسی اور مذہبی شخصیات اس موقع پر موجود تھیں۔ مجھے بھی اس پروگرام میں شرکت کا موقع ملا اور بہت سے دوست احباب کے ساتھ گرم جوشی کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر سعودی سفیر نواف المالکی مہمانوں کا خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرتے رہے اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بہت ہی خوبصورت انداز میں پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کی اہمیت اور نتائج پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کے وڈیو پیغام کو بھی چلایا گیا اور صدرِ مملکت آصف زرداری نے بھی پاک سعودیہ تعلقات کی اہمیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔
تقریب میں موجود تمام شرکا دل سے تمنا کر رہے تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پاک سعودیہ تعلقات کو ہمیشہ احسن طریقے سے برقرار رکھے اور آنے والے ایام میں ان تعلقات میں مزید پختگی اور استحکام پیدا ہو۔ یہ تقریب بہت سی خوبصورت یادوں کو اپنے جلو میں لیے اختتام پذیر ہوئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved