ہمارے ملک میں 2012ء کا قانونِ توہینِ عدالت نافذ العمل ہے۔ اس کی دفعہ 1 کی ذیلی دفعہ 2 میں کہا گیا ہے: ''اس قانون کے تحت جو بھی شخص توہینِ عدالت کا ارتکاب کرتا ہے‘ اُسے قید کی سزا دی جائے گی جو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قیدِ محض ہو سکتی ہے یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکتی ہیں‘‘۔ قانونِ توہینِ عدالت کو تین اقسام میں بیان کیا گیا ہے: (1) دیوانی توہین: عدالت کی جانب سے صادر کیے گئے کسی حکم‘ فیصلے یا اقرار کی قصداً تضحیک یا خلاف ورزی کرنا‘ (2) فوجداری توہین: انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا یا اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے جج یا گواہ کو لالچ یا دھمکی وغیرہ دینا‘ (3) عدالتی توہین: عدالت کے بارے میں شرمناک یا تضحیک آمیز گفتگو کرنا یا کسی جج کے ذاتی کردار کو تنقید کا نشانہ بنانا۔
اس کی دفعہ 3 میں توہینِ عدالت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: ''جو بھی کسی عدالت کے کسی حکم‘ ہدایت یا عمل کی نافرمانی کرتا ہے یا اُسے نظر انداز کرتا ہے جس کا وہ قانونی طور پر اطاعت کرنے کا پابند ہے یا عدالت کو دیے گئے جائز معاہدے کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کرتا ہے یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے کسی عدالت یا قانونی انتظامیہ کی بے عزتی یا بدنامی کا ارادہ کیا گیا ہو‘ قانون کے عمل یا کسی عدالتی کارروائی میں مقررہ وقت میں مداخلت یا رکاوٹ ڈالنے یا خلل ڈالنے یا عدالت کے اختیار کو کم کرنے یا جج کو اس کے عہدے کے حوالے سے بدنام کرنے یا عدالت کے حکم یا ضابطے میں خلل ڈالنے کا ارادہ کیا گیا ہو‘ تو یہ توہینِ عدالت ہے‘‘۔ اس کی ذیلی دفعات میں اُن امور کا ذکر کیا گیا ہے جو توہینِ عدالت سے مستثنیٰ ہیں۔
ہر وہ کام جو کسی جج یا عدالت کی توہین کا باعث ہو‘ توہینِ عدالت ہوگا۔ عدالتیں توہینِ عدالت پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کر سکتی ہیں۔ عدالتی توہین جس جج کے خلاف کی گئی ہو‘ وہ اُس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتا‘ بلکہ اُسے چیف جسٹس کے سپرد کرے گا جو اُسے خود سنیں گے یا کسی اور جج کے سپرد کریں گے۔ عدالت توہینِ عدالت کے مرتکب فرد کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دے سکتی ہے‘ توہینِ عدالت کے مقدمے کی کارروائی کھلی عدالت میں کی جاتی ہے اور ان مقدمات کا ریکارڈ دوسرے مقدمات سے الگ رکھا جاتا ہے۔ قانونِ توہینِ عدالت کی سیکشن 5 کے تحت توہینِ عدالت کے مرتکب شخص کو چھ مہینے تک قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں‘ دیوانی توہینِ عدالت کی صورت میں قید کی سزا نہیں ہو گی‘ ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
عام نظامِ عدل کا طریقہ یہ ہے: ماتحت عدالت میں مقدمہ دائر ہوتا ہے‘ وہیں پر ٹرائل ہوتا ہے‘ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ٹرائل اور سزا کا آخری مرحلہ ہے‘ اُس کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ اپیلٹ کورٹس ہیں۔ یعنی اگر فریقِ مقدمہ یہ سمجھتا ہے کہ عدالت سے اُسے انصاف نہیں ملااور اُسے جو سزا سنائی گئی ہے‘ وہ منصفانہ نہیں ہے یا اُس کے فریقِ مخالف کا بری کیے جانے کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے‘ تو وہ حصولِ انصاف کیلئے مرحلہ وار پہلے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے رجوع کرتا ہے‘ یہ دونوں فورم اُس کے پاس حصولِ انصاف کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ مگر چونکہ توہینِ عدالت میں جج خود مُدعی ہوتا ہے‘ اس کیس کو ٹرائل کورٹ کے پاس نہیں بھیجا جاتا‘ بلکہ ساری کارروائی براہِ راست عدالت میں ہوتی ہے‘ اس لیے عالی مرتبت جج صاحبان کو اس میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ جج صاحب پر جذبات غالب آ جائیں اور وہ مغلوب الغضب ہو کر کوئی نارروا فیصلہ کر لیں۔
ہم اس پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور دائود و سلیمان کو یاد کیجیے جب وہ ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے‘ جب کچھ لوگوں کی بکریوں نے رات میں اس کھیت کو چَر لیا تھا اور ہم اُن کے فیصلے کو دیکھ رہے تھے‘ سو ہم نے اس کا فیصلہ سلیمان کو اچھی طرح سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو قوتِ فیصلہ اور علم عطا فرمایا‘‘ (الانبیاء: 78 تا 79)۔ اس کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے: ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: دو آدمی حضرت دائود علیہ السلام کے پاس اپنا مقدمہ لے کر آئے‘ اُن میں سے ایک کھیت اور دوسرا بکریوں کا مالک تھا‘ کھیت کے مالک نے کہا: اس شخص نے رات کو اپنی بکریاں میرے کھیت میں چھوڑ دیں اور انہوں نے میرے کھیت کو تاراج کر دیا‘ حضرت دائود علیہ السلام نے اس امر کا جائزہ لیا کہ کھیت کا نقصان اور بکریوں کی مالیت برابر ہے‘ سو انہوں نے ساری بکریاں کھیت کے مالک کو دے دیں۔ پھر یہ مقدمہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس گیا‘ تو آپ نے دیکھا: کھیت کا نقصان اور بکریوں کی مالیت برابر ہے‘ تو آپ نے فیصلہ دیا: ایک سال تک کھیت کا مالک بکریوں سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں کا مالک کھیت میں فصل کاشت کرے اور جب فصل پک کر تیار ہو جائے‘ تو بکریوں کا مالک اپنی بکریوں کو لے جائے اور کھیت کا مالک اپنی فصل کو سنبھال لے‘‘۔ ظاہر ہے دونوں انبیائے کرام کا فیصلہ اُن کے اجتہاد پر مبنی تھا‘ حضرت دائود علیہ السلام کا فیصلہ بھی غلط نہیں تھا‘ وہ فیصلہ اپنی جگہ ٹھیک تھا‘ مگر حضرت سلیمان علیہ السلام کا فیصلہ ''اَحسن‘‘ تھا‘ اس سے معلوم ہوا کہ فیصلہ حَسن سے اَحسن میں بدلا جا سکتا ہے اور اس میں پہلی عدالت کی توہین نہیں ہوتی۔
حدیث مبارک میں ہے: ''حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں: ہم بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے‘ آپﷺ (غزوۂ حنین) کے مالِ غنیمت کو تقسیم فرما رہے تھے کہ بنو تمیم کے ''ذُو الْخُوَیْصِرَہ‘‘ نامی شخص نے کہا: یا رسول اللہ! انصاف کیجیے! (یعنی اُس نے آپﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا)‘ آپ ﷺ نے فرمایا: تم پر افسوس ہے‘ اگر میں نے عدل نہ کیا تو (اور) کون عدل کرے گا‘ (آپﷺ نے مکرر فرمایا:) تُو ناکام ونامراد ہو‘ اگر میں نے عدل نہ کیا (تو پھر کون کرے گا)‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھے اجازت دیجیے‘ میں (اس گستاخ کی) گردن اڑا دوں۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو‘ یہ ایک ایسا گروہ ہے کہ (بظاہر) تم ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے‘ یہ قرآن پڑھیں گے‘ لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا‘ (یہ بظاہر بڑے دین دار نظر آئیں گے‘ لیکن) یہ دین سے اس تیز رفتاری کے ساتھ نکل جائیں گے جیسے تیر اپنے شکار کو زخمی کر کے اس تیزی کے ساتھ نکل جاتا ہے کہ اس پر خون کا کوئی دھبہ بھی نظر نہیں آتا‘‘ (بخاری: 3610)۔
رسول اللہﷺ ریاستِ مدینہ کے سربراہ بھی تھے اور قاضی القضاۃ بھی تھے‘ اس خارجی نے آپﷺ کے عدل پر اعتراض کیا‘ یہ آج کل کی اصطلاح میں توہینِ عدالت تھی‘ لیکن آپﷺ نے انتہائی ناگواری کے باوجود اُسے اس توہین پر کوئی سزا نہیں دی‘ بلکہ حضرت عمر فاروقؓ کو بھی اقدام سے روک دیا۔ بعض صورتوں میں رسول اللہﷺ نے بظاہر اپنی توہین کرنے والے کو دینی حکمت کے تحت معاف فرما دیا‘ یہ آپﷺ کاحق تھا‘ لیکن اسلامی ریاست میں اسلامی عدالت پر توہینِ رسالت کے مجرم کو سزا دینا لازم ہے۔اس پر اجماع ہے کہ حاکم پر عدل کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ''اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو‘‘ (النسآء: 58)۔ (2) ''بیشک اللہ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘ (النحل: 90)۔ (3) ''اور جب تم کوئی بات کہو تو انصاف کے ساتھ کہو‘ (خواہ فریقِ معاملہ) تمہارے قرابت دار ہوں‘‘ (الانعام: 152)۔ (4) ''المائدہ کی آیات: 44‘ 45 اور47 میں فرمایا: ''جو اللہ کے نازل کیے ہوئے (احکام) کے موافق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ کافر ہیں‘ ظالم ہیں اور فاسق ہیں‘‘۔ مفسرین نے ان تین آیات میں تطبیق یوں کی ہے: (الف) اگر وہ اللہ کے حکم کو ردّ کریں تو کافر ہیں‘ (ب) سرکشی کی بنا پر نافذ نہ کریں تو ظالم ہیں‘ (ج) اور اگر عملی کوتاہی کی بنا پر نافذ نہ کریں تو فاسق ہیں۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved