تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     27-09-2024

سب اچھا ہے

ہمیں تو کوئی فکر نہیں‘ نہ ہی اس قوم کو۔ ہم خوش ہیں کہ تہہ خانے میں ڈیرہ ڈالے چین کی زندگی گزار رہے ہیں‘ اور وہ بھی اداس نہیں جو کونوں‘ کھدروں‘ صحرائوں اور جھونپڑیوں میں سیاسی جنگوں سے دور وقت گزارتے ہیں‘ اور حالات کا گلہ نہیں کرتے۔ اطمینان تو مطمئن رہنے سے ہی ملتا ہے۔ سیاسی بے چینی کی طرف دیکھیں تو شکایتوں کے دفتر کھل جاتے ہیں۔ اس لیے ہم سیاسی جادوگروں اور کرشمہ سازوں کی رنگ بازیوں اور ملک کی تباہی کی فکر نہیں کرتے۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ ہماری قوم بھی اب بے فکری کی چادر تان کر سکون کی نیند سو رہی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو ہم سب لوگ‘ شمال سے لے کر جنوب اور مشرق سے لے کر مغرب تک‘ موج میلے کی تہذیبی روایت سے جڑے ہیں۔ کوئی جتنی بھی جمع تفریق کی کوشش کرے‘ ثقافتی دھارے ایک جیسے ہی ہیں۔ اس لحاظ سے ہم ہر حال میں خوش رہنے والی قوم ہیں۔ ہماری سدا بہار فطری خوشی کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ ہم دن میں نہ جانے کتنی بار سنتے ہیں کہ جو ہونا ہے‘ وہ تو ہو کر رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ ہمیں کچھ نہیں کرنا‘ اور کریں بھی تو بھی ہو گا وہی جو ہماری قسمت میں لکھا ہے۔ آپ بے شک وعظ ونصیحت کرتے رہیں‘ علامہ اقبال کے اپنی تقدیر خود بدلنے کے اشعار کا ورد کریں‘ ہو گا تو وہی جو ہو کر رہنا ہے۔ البتہ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ پتا نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔
اجتماعی خوشی کی عادت گہری ہو جائے تو اس کے سیاسی طور پر بے پایاں فوائد ہوتے ہیں۔ حکمران طبقات جو بھی کرتے ہیں‘ یہاں کوئی طوفان پیدا نہیں ہوتا‘ اور اگر کوئی گمراہ اور سرپھرا الٹی سیدھی باتیں کر کے قوم کو جگانے‘ یا دوسرے معنوں میں لوگوں کی خوشیوں کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے کہ وہ قوم اور ملک کا دشمن ٹھہرے گا‘ اور اُسے ہر قیمت پر سزا دی جائے گی‘ تاکہ ملک میں پیدا ہونے والے فتنے اور فساد کی راہیں ہمیشہ کے لیے بند کر کے ملک کو اطمینان اور سکون کی زندگی کی پرانی روایت پر برقرار رکھا جائے۔ ایسی پھرتیلی کارروائیوں سے ہمارے لوگ خوش ہوتے ہیں۔ جس زمانے میں ملک میں فلمیں بنتی تھیں اور ہم ہر نئی فلم کے پہلے شو میں گھسنے کی ہمت رکھتے تھے‘ لوگوں کی ہمدردیاں ہیرو کے ساتھ کم اور وِلن کے ساتھ زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ سینما کی حد تک شاید اب وقت کے دھارے کی تبدیلی کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیوں میں کوئی فرق آیا ہو‘ تو اس کے بارے میں چونکہ راوی خاموش ہے‘ اس لیے ہم بھی کوئی بات نہیں کرتے۔ لوگوں کی خوشیوں کو دیکھ کر خود خوش رہنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ صبح سویرے قریبی پارک میں قدم رکھتے ہی کچھ فاصلے پر چوکڑی جمائے نصف درجن نشئی‘ درمیان میں ہلکی سے آگ جلائے‘ ایک دوسرے کے بالکل قریب اس طرح بیٹھے ہوتے ہیں جیسے رگبی کے میچ میں بڑے بڑے کھلاڑی بال پر قبضہ جمانے کے لیے ایک دوسرے کے اُوپر نیچے پڑے ہوں۔ خوشی خوشی‘ باری باری ایک ہی سگریٹ کے کش لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہاں آپ حقوقِ نسواں اور صنفی مساوات کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک دو خواتین بھی ''شریک معرکہ‘‘ ہوتی ہیں۔ چونکہ ایک طویل عرصہ سے انہیں خوش وخرم اور طلوعِ آفتاب کے ساتھ اس رونق بازی میں مصروف دیکھ رہا ہوں‘ تو اپنی ہمسائیگی کا حق ادا کرنے کے لیے چند دن پہلے ان سے شرفِ ملاقات بھی حاصل کیا ہے۔ خوش اس لیے بھی ہیں کہ سب کھلے دل کے اور کھل کر بات کرنے والے ہیں۔ گمان ہے کہ انہوں نے ہماری ٹیلی وژن پروگراموں‘ ان میں شامل ہونے والے مبصرین اور سیاست بازوں کی باتیں نہیں سنیں۔ انہوں نے خوش رہنے کے لیے مجھے بھی ایک نسخہ بتایا مگر میں نے معذرت کر لی کہ میں پہلے ہی بہت خوش رہتا ہوں۔
شام کے وقت آپ کسی بھی شہر‘ گائوں اور قصبے میں ہوں‘ بازار کی طرف نکل جائیں‘ آپ یہی رونق میلہ دیکھیں گے۔ ہر طرف سٹال لگے ہوئے ہیں‘ لوگ تازہ برگر‘ فرنچ فرائز‘ کڑاھی سے نکلتی گرما گرم جلیبیاں خرید رہے ہوں گے۔ ہر طرف ہوٹل ہی ہوٹل ہیں۔ قریب کے مرکز میں دیکھتا ہوں جہاں کڑاہی گوشت‘ ٹکاٹک اور نہ جانے لوگ کیا کچھ شوق اور کثرت سے کھا رہے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کل کا دن طلوع نہیں ہونا۔ اسلام آباد کی آبپارہ مارکیٹ‘ جب صرف یہی مارکیٹ ہوا کرتی تھی‘ ہم بھی ایسے ہی کہیں کامران ریستوران میں بیٹھا کرتے تھے۔ لوگ اتنے خوش ہیں کہ ساتھ بہتے ہوئے گٹروں اور فرش پر جمے کالے تیل کی بدبو سے بھی پریشان نہیں ہوتے۔ اگر ایسی صورت حال کے بارے میں وہ فکر مندی کا شکار ہو جائیں تو پھر خوش کیسے رہ سکیں گے؟ کبھی کبھار تو دور کہیں گنبدوں والے مزاروں پر بھی ہمیں جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ ادھر اُدھر اس طرح فضول گھومتے پھرتے رہنا ہم جیسے درویشوں کا شیوہ‘ بلکہ پیشہ ہے‘ کہ غالب کی پیروی میں ''تماشائے اہلِ کرم‘‘ دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔
مزاروں پر رونق میلوں کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ یقین جانیں‘ ملک کے طول وعرض میں جب اور جہاں بھی جانے کا موقع ملا ہے‘ لوگوں کو موج میلوں میں مست پایا ہے۔ اگر آپ بے خودی کے لفظ کی تعبیر اور تشریح جاننا چاہتے ہیں‘ جس کے لیے شاید آپ کے پاس فرصت نہ ہو‘ تو ملک میں کسی مزار پر چلے جائیں۔ دھمالیں‘ قوالیاں‘ مٹھائیاں اور دور دراز سے لوگ پورے خاندانوں سمیت ٹولیوں کی صورت زرق برق‘ رنگ برنگے لباس پہنے وہاں ہمہ وقت کسی میلے کا سماں باندھے رکھتے ہیں۔ سنا ہے کہ لوگ جو مرادیں لے کر آتے ہیں‘ وہ پوری بھی ہو جاتی ہیں اور وہ خوش خوش گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ ہمارا بھی جی تو یہی کرتا ہے کہ ساری زندگی اب مزاروں پر ہی گزار دیں‘ یا پھر کوئی حوصلہ اور ہمت کرکے کہیں مزار بنا کر ا س کی مجاوری شروع کر دیں۔ ہماری گناہگار آنکھوں نے کئی ایسے مزار بنتے اور لوگوں کو مجاوری کے پیشے میں دین اور دنیا کی بے پناہ فلاح پاتے دیکھا ہے۔ مزار بھی بچوں کی طرح غیر سیاسی نہیں ہوتے۔ اگر ہوتے ہیں تو ذرا بتائیں کہ کون سا ایسا مزار ہے جس کے مجاور سلطنت میں اپنا مقام نہیں رکھتے۔ مزار‘ بازار اور نشئی افراد کی ٹولیاں ملک کے کونے کونے میں خوشیاں بانٹ رہے ہیں تو غم کس بات کا۔
ہم یہ سب کچھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ملک میں امن ہے‘ سکون ہے‘ کوئی بھوکا نہیں رہتا۔ نشئیوں سے پوچھا کہ کھانا کہاں سے کھاتے ہو‘ تو کہا کہ مرکز میں وہ جگہ ہے جہاں دن اور رات کو دستر خوان لگتا ہے۔ پوچھا کہ سوتے کہاں ہیں تو کہا کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کب نیند آئی ہے اور ہم کہاں سو رہے ہیں۔ یہ آئس آپ کو کہاں سے مل جاتی ہے؟ ہر جگہ سے‘ کہیں بھی ہوں‘ وہ دے جاتے ہیں۔ خریدتے کیسے ہیں؟ کوڑا کرکٹ اکٹھا کرکے بیچتے ہیں۔ تھوڑی دور گیا تو ایک خاتون اٹھ کر میرے پیچھے آ گئی۔ مانگتی تو کسی سے نہیں‘ لیکن بابا دو سو روپے کی ضرورت ہے۔ وعدہ کیا کہ اُسے دوں گا‘ لیکن چند روز سے وہ نظر نہیں آئی۔ خوش رہنے کا نسخہ یہی ہے کہ خوش رہنے والوں کے ساتھ اگر رہ نہیں سکتے‘ تو انہیں دیکھتے رہیں۔ مگر ایک شرط ہے! ملک‘ ریاست اور سیاست کے بارے میں نہ کچھ دیکھیں‘ کچھ نہ سنیں۔ آنکھیں‘ کان اور ذہن بند رکھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved