ایک دو اور انتہائی اہم موضوعات تھے جن پر اظہارِ خیال ضروری تھا۔ ایک تو ججز کی باہمی رنجشیں منظر عام پر ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا‘ اس سے عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ دوسرا موضوع غزہ میں نسل کشی عروج پر ہے۔ تاہم حوّا کی بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنایا جائے تو اس پر ہمارے لیے کسی طرح بھی چپ رہنا ممکن نہیں۔ایک بار پھر چشمِ فلک نے 22 اور 23 ستمبر کی درمیانی شب پاکپتن‘ بہاولنگر روڈ پر ویسا ہی بھیانک منظر دیکھا جیسا 2020ء میں اسی ماہِ ستمبر کی ایک خوفناک رات کو لاہور‘ سیالکوٹ موٹروے پر دیکھا تھا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ اس شب کو اس موٹروے کے ذریعے ایک خاتون اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ خود ڈرائیو کرتی ہوئی گوجرانوالہ جا رہی تھی۔ خاتون نے اچانک محسوس کیا کہ اس کی گاڑی میں پٹرول ختم ہو چکا ہے‘ وہ گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے ہر ہیلپ لائن پر بار بار انتہائی گھبراہٹ میں کال کرتی رہی مگر کہیں سے کوئی رسپانس نہ ملا۔ اس دوران دو غنڈے آئے‘ وہ خاتون اور اس کے دو بچوں کو موٹروے سے نیچے جھاڑیوں میں لے گئے اور خاتون سے بچوں کے سامنے زیادتی کی اور جاتے ہوئے اس سے نقدی اور زیورات وغیرہ بھی چھین کر لے گئے۔
جب یہ خبر اگلے روز مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو ایک کہرام مچ گیا۔ آج چار برس بعد خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز کے پنجاب میں بنت حوّا اتنی ہی غیر محفوظ ہے جتنی کل تھی۔ بہاولنگر کی ایک فیملی اپنی گاڑی میں پاکپتن کے ایک نواحی گاؤں میں عزیزوں سے ملنے گئی۔ رات کے کھانے کے بعد کچھ تاخیر سے یہ لوگ گاڑی میں واپس بہاولنگر کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ کار خاندان کا سربراہ چلا رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا بیٹا اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ پچھلی نشست پر اس کی بیگم ایک چھوٹی بچی اور اس کی ایک ہمشیرہ اور ایک 17سالہ بھانجی موجود تھیں۔ یہ لوگ ابھی چند ہی کلو میٹر شہر سے باہر نکلے تھے کہ انہوں نے محسوس کیا کہ دو موٹر سائیکلوں پر چار مشتبہ افراد اُن کا پیچھا کر رہے ہیں۔
پہلے تو ان چاروں نے گاڑی کو زبردستی روکا اور ان سے موبائل‘ نقدی‘ زیورات چھین لیے اور گاڑی کی چابیاں اپنے قبضہ میں لے لیں اور پھر وہ سترہ سالہ بچی کو زبردستی گاڑی سے اتار کرکھیتوں میں لے گئے اور گینگ ریپ کیا۔ اُن میں سے دو نے اسلحہ کے زور پر گاڑی میں ساری فیملی کو یرغمال بنائے رکھا۔ادھر گاڑی میں سوار لوگ ان غنڈوں کے سامنے آہ و زاری کرتے رہے کہ وہ اس بچی کے ساتھ ایسا ظلم نہ کریں جس پر عرش بھی کانپ اٹھتا ہے۔ دوسری طرف اس بچی کی چیخیں بھی بلند ہو رہی تھیں وہ زار و قطار روئے جا رہی تھی مگر اس ویرانے میں بچی کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔ مریم نواز کے پنجاب میں نقاب پوش واردات کے بعد گاڑی کی چابیاں سڑک پر پھینک کر چلے گئے۔
اب ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ بچوں کے ساتھ خوفناک جنسی جرائم پھیلتے جا رہے ہیں۔ سارے ملک میں بچوں اور ٹین ایجرز کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کر دینے کی وارداتوں میں المناک اضافہ ہو گیا ہے۔ 2023ء سے جرائم کی شرح نہایت تشویشناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ سارے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 11 بچوں کے ساتھ زیادتی اور بعض صورتوں میں انہیں بے دردی سے قتل کیے جانے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
ہمارا خیال تھا کہ پنجاب کی بنتِ حوّا وزیراعلیٰ اپنے صوبے کی بچیوں کو ایسے خوفناک جرائم کا شکار نہ ہونے دیں گی مگر اُن کے تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود اس طرح کے جرائم میں کمی نہیں‘ بے حد اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم اس کا تجزیہ بھی کریں گے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور جرائم پر قابو کیوں نہیں پایا جا رہا‘ مگر پہلے ذرا پنجاب میں پھیلتے ہوئے جرائم پر ایک نظر ڈال لیں۔ دسمبر 2023ء تک پنجاب میں جرائم کی شرح میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ مریم بی بی کی پولیس ٹیم نگران حکومت کی ٹیم کا تسلسل ہے۔ 2022ء میں سات لاکھ 18 ہزار جبکہ 2023ء میں 10 لاکھ 33 ہزار مقدمات درج ہوئے۔2024ء کے ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادتی اور ڈکیتی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہاہے۔
جمعہ 27 ستمبر کو ہماری میڈ نے بتایا کہ خاتون وزیراعلیٰ کے لاہور میں آج صبح اس کا بھائی اور بھابھی ایک بینک سے دس لاکھ روپے قرض کی رقم نکلوا کر چوک یتیم خانہ کے علاقے سے نکلے تو ڈاکوؤں نے اُن سے ساری رقم‘ موٹر سائیکل اور سیل فون چھین لیے۔ اس طرح کی وارداتوں میں اب لاہور کراچی سے پیچھے نہیں۔ جب تک حکومت اور ریاست لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کو اپنی اوّلین ترجیح نہیں سمجھے گی اس وقت تک جرائم کی شرح میں کمی نہیں آ سکتی۔اس کے علاوہ اگر پولیس کے ذمے ان کے بنیادی فریضے کے بجائے ایکسٹرا سیاسی ڈیوٹیاں لگائی جائیں گی تو لوگوں کو چین نصیب نہیں ہو سکے گا۔
اب تو پنجاب حکومت کے پاس ہر طرح کے جدید ترین وسائل بھی ہیں۔ جب راتوں کو سڑکوں اور گلی کوچوں میں پولیس گشت پر نہیں نکلے گی اور جن راستوں پر رات کو سفر خطرناک سمجھا جاتا ہے وہاں گاڑیوں کے قافلے بنا کر پولیس کی قیادت میں آگے روانہ نہیں کیے جائیں گے تو اس وقت تک جرائم کا خاتمہ کیسے ہوسکتا ہے؟ سب سے اہم بات یہ کہ جب تک پولیس اپنے اپنے علاقوں میں بڑھتے جرائم کی جوابدہی محسوس نہیں کرتی اس وقت تک مطلوبہ نتائج نہیں حاصل کیے جا سکتے۔ اسی طرح جب تک پولیس سے سیاسی پکڑ دھکڑ کی اضافی ڈیوٹی لینا بند نہیں کی جاتی اس وقت تک ان وارداتوں میں کمی نہیں‘ اضافہ ہی ہوگا۔ سعودی عرب کی ایک پولیس صرف جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ اس پولیس کا سلوگن ہے ''العیون الساحرہ ...‘‘۔ ''جاگتی آنکھیں‘‘ یعنی ہم راتوں کو جاگتے ہیں تاکہ آپ لوگ سکون کی نیند سو سکیں۔ جس طرح ساری قوم اور حکومت اپنے فرائض پر فوکس کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر ہر وقت مصروف رہتی ہے۔اسی طرح پولیس کے اعلیٰ افسران سائلین کی وڈیوز بنا کر انہیں اَپ لوڈ کرتے رہتے ہیں جبکہ عام اہلکار بھی شب و روز ٹک ٹاک بناتے رہتے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پولیس کا محکمہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں اپنی کرپشن اور فرائض سے غفلت برتنے کی بنا پر پہلے نمبر پر ہے۔ جب تک ہمارے حکمران امن و امان کے قیام اور خلق خدا کو پولیس کی چیرہ دستیوں اور کرپشن سے نجات دلانے کا مصمم ارادہ نہیں کر لیتے اور حقیقی معنوں میں پولیس کے محکمے کو ایک پروفیشنل محکمہ نہیں بناتے‘ اس وقت تک خلقِ خدا کو چین اور سکون نصیب نہیں ہو سکتا۔ اب تک تو مریم نواز نے یہ تجزیہ کر لیا ہوگا کہ جب تک پنجاب میں کرائم کنٹرول اور سیاست کنٹرول پولیس کو الگ الگ نہیں کیا جاتا‘ اس وقت تک اسی طرح جرائم ہوتے رہیں گے۔اس وقت بالخصوص مریم بی بی کا اپنا شہر لاہور جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے۔
بہرحال پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ پاکپتن‘ بہاولنگر روڈ پر ہونے والی ٹریجڈی کے مجرموں کو گرفتار کرائیں اور انہیں قرار واقعی سزا دلائیں۔ سترہ سالہ مظلوم بچی کی خاموشی سے دلجوئی اور اسے ذہنی و جسمانی صدمے سے باہر لانے کے لیے ہر طرح کی طبی و نفسیاتی امداد فراہم کرنے کا بندوبست کریں۔ اسی طرح سانحہ سیالکوٹ موٹروے کے مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved