جس طرح کی بربادی کے مناظر آپ کو مڈل ایسٹ میں نظر آرہے ہیں جہاں جدید جنگی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے اس پریقینا ہم سب حیران اور پریشان ہیں۔ کیا واقعی انسان اتنی ترقی کر چکا ہے جس کا ہم کچھ عرصہ پہلے تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون یا پیجرز کے ذریعے ایک بندہ بٹن دبا کر تین سے پانچ ہزار لوگوں کو ایک لمحے میں زخمی یا ہلاک کرسکتا ہے؟ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ انسان نے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی کیا کیامہلک ٹیکنالوجی تلاش کر لی ہے۔
اسرائیل نے جس طرح لبنان میں پیجرز کے ذریعے حزب اللہ کے فائٹرز کو ٹارگٹ کیا اور دہشت پھیلائی ہے‘ ایسی مثال اگر آپ کو حالیہ انسانی تاریخ میں تلاش کرنی ہو تو مجھے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھنے والے ظہیر الدین بابر یاد آتے ہیں جو پانی پت کے مقام پر بارہ ہزار جنگجوئوں کے ساتھ کھڑے دلی سلطنت کے ابراہیم شاہ لودھی کا انتظار کررہے تھے جو سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کی فوج لے کر آ رہے تھے۔ گھڑ سواروں کے علاوہ ایک ہزار ہاتھیوں کی الگ فوج تھی جو اُس دور کے جنگی ٹینک سمجھے جاتے تھے۔ ہاتھیوں کی فوج کو شراب کے مٹکے پلا کر نیزے کی نوک اس کی پشت میں گھونپ کر دشمن کی فوج کی طرح ہانک دینا ہی دشمن کی بربادی ہوتی تھی۔ بقیہ کام بدمست ہاتھی کرتے اور پھر پیدل فوج جا کر دشمن کا سر کاٹ لاتی تھی۔ لہٰذا ابراہیم لودھی کا اعتماد بھی اپنی جگہ ٹھیک تھا کہ بھلا بارہ ہزار کی فوج کی لاکھ سوا لاکھ فوجیوں کے سامنے کیا اوقات تھی۔ ہاتھیوں کا غول الگ سے دشمن پر حملہ آور ہوگا اور یوں بابر اور اس کی فوج تہس نہس ہو جائے گی۔ آپ بھی ذرا تصور کریں کہ دلی سلطنت کا آخری بادشاہ لودھی رتھ پر سوار پانی پت کے میدان میں لاکھ سوا لاکھ فوج کو لیڈ کرتے خراماں خراماں چلتا آرہا ہے۔ اس کے اعتماد کے لیول بارے سوچیں کہ اسے بابر کی دس بارہ ہزار فوج تو کیڑے مکوڑے لگتی ہو گی جسے سوا لاکھ فوج تو چھوڑیں اس کے بدمست ہاتھی ہی کچل کر رکھ دیں گے۔ باقی فوج کی تو باری ہی نہیں آئے گی۔ اور پھر جنگ شروع ہونے لگی تو بابر نے عجیب کام کیا ‘جو اس سے پہلے ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہ ہوا تھا۔ پانی پت کی اس پہلی بڑی جنگ نے ہندوستان میں جنگوں کا نقشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ جونہی فوجیں آمنے سامنے آئیں تو بابر کی فوج نے اس خطے میں پہلی دفعہ بارود کا استعمال کیا۔ لودھی کی فوج پر آسمان سے آگ کی بارش برسنے لگی۔ یہ ان کے لیے قیامت کا منظر تھا کہ آسمان سے آگ کے گولے ان پر گر رہے تھے۔ ہاتھی الگ سے توپوں کی گھن گھرج سے ڈر کر اپنی فوج کو کچلنے لگے۔ لودھی کے فوجیوں کی دہشت کو ذہن میں لائیں جنہوں نے پہلے کبھی آسمان سے آگ کے گولے گرتے نہیں دیکھے تھے۔ دو تین گھنٹوں بعد لودھی کی سوا لاکھ فوج کو بارود کھا گیا۔ ہاتھیوں یا گھڑ سواروں کا کوئی پتہ نہ تھا۔ بابر نے صرف بارہ ہزار فوجیوں کے ساتھ سوا لاکھ فوج کو شکست دے دی تھی۔ اس فتح کی وجہ صرف بارود بنا تھا جو بابر ترکوں سے لیکر آیا تھا جبکہ ہندوستان میں اب بھی جنگ انہی پرانے طریقوں سے لڑی جاتی تھی کہ ہاتھی پالتے رہو اور جنگ لگ جائے تو انہیں شراب پلا کر دشمن پر چھوڑ دو۔ ہندوستانی یہ نہیں جانتے تھے کہ جنگی ٹیکنالوجی بدل گئی ہے۔ لودھی کی جنگی پسماندگی کا نتیجہ دلی پر تین سو سال سے جاری سلطانوں کے اقتدار کے خاتمہ کی صورت میں نکلا۔ غوری‘ خلجی‘ لودھی سب کی سلطنت اس گولہ بارود میں راکھ بن کر اُڑ گئی۔
یہ انسانی ارتقا کی طرف ایک نیا قدم تھا کہ اب جس قوم کے پاس بارود ہوگا وہی دوسری قوموں پر فتح حاصل کرے گی۔ اب ہاتھیوں یا گھوڑوں کا دور ختم ہو رہا تھا۔ بابر کے پاس بہتر وار ٹیکنالوجی تھی۔اب مزے کی بات سنیں کہ مغل بھی یہ سبق بھول گئے کہ اگر انہوں نے ابراہیم لودھی کی طرح اپنی جنگی مہارت کو اَپ ڈیٹ نہ کیا تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو لودھی سلطنت کا ہوا تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان کو ظہیر الدین بابر یا دوسرے حملہ آوررں کی طرح زمینی راستوں سے فتح نہیں کیا تھا‘ نہ ہی وہ گھوڑوں پر سوار تلواریں لہراتے آئے تھے۔ اُن کے نزدیک اب دوسری قوموں کو فتح کرنے کا ہتھیار زمین نہیں سمندر تھا۔ انہوں نے بحری جہازوں کے ذریعے دنیا کو فتح کرنے کی ٹیکنالوجی ایجاد کی اور سات سمندرپار سے کشتیوں یا چھوٹے بحری جہازوں پر سوار ہو کر تجارت کی آڑ میں بنگال کے ساحلوں پر اُترے اور ایک دن پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو پتہ چلا کہ مغل حکمران زوال پذیر ہورہے ہیں‘ بنگال اور دیگر علاقوں کے جاگیر دار اور نواب آپس کی جنگوں اور عیاشی میں غرق ہیں‘ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بدترین ہے تو انہوں نے اپنی جدید فوج اور اسلحہ کے ساتھ ایک ایک کر کے ان علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔اور پھر فلک نے وہ دن بھی دیکھا کہ بابر کی نسلیں دلی کے شاہی قلعے میں قید انگریزوں کی دی گئی پنشن کا انتظار کرتی تھیں تاکہ محل کا خرچہ چلا سکیں اور مغل بادشاہ انگریز سرکار کو عرضی لکھ رہا تھا کہ مشاہرہ بڑھا دیں ‘مہنگائی بڑھ گئی ہے اور ماہانہ خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ جیسے لودھی بادشاہ بھول گیا تھا کہ سلطنت کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانا ہے تو جدید جنگی ٹیکنالوجی سے خود کو تیار رکھنا چاہیے ایسے ہی بابر کی نسلیں بھی بھول گئیں کہ دنیا بدل گئی ہے اب گولہ بارود کا دور ختم ہو رہا تھا‘ نئی ٹیکنالوجی اب سمندر تھا۔ جو سمندر کا استعمال جانتا ہوگا وہی دنیا پر راج کرے گا۔ اور پھر بڑی تیزی سے سمندری فتوحات بھی چھوٹی پڑنے لگیں۔ اب وہی سکندر ٹھہرا جس کی آسمانوں پر برتری ہوگی اور یوں جنگی جہاز وجود میں آئے لیکن جنگی جہازوں کے ساتھ ٹینک بھی بڑا ہتھیار بن کر ابھرے۔ ابھی کچھ عرصہ تک مختلف قومیں سمندروں‘ فضائوں اور زمین پر برتری حاصل کر رہیں تھیں کہ جنگوں میں میزائل متعارف ہوئے۔ اب آپ کو دشمن کے ملک کے اندر فوجی اور سویلین ٹھکانوں تک تباہی پھیلانے کیلئے زمینی یا فضائی برتری کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی نہ ہی جانی نقصان کا خطرہ۔ اب سیدھا سیدھا میزائل ماریں اور دشمن کو تباہ کر دیں۔ میزائلوں کے اندر چھوٹے موٹے ایٹم بم بھی نصب کر دیں۔ ایٹم بم ایک اور خوفناک ایجاد تھی جس کے پیچھے ساری قومیں لگ گئیں۔ پھر ہائیڈروجن بم ‘ کلسٹراور نئے نئے خطرناک بم ایجاد ہوتے رہے جو انسانوں کی تباہی میں کام آتے رہے۔ انسان ایک دوسرے کو قتل کر کے مطمئن اور خوش ہوتے رہے۔
پھر کویت پر عراقی حملے کے بعد امریکی فوج نے جنگ کو نیا رُخ دے دیا جب فضائی حملوں سے ایک فوجی زمین پر اتارے بغیر بغداد کی تباہی پھیر دی گئی۔ پہلی دفعہ یہ جنگ براہِ راست ٹی وی پر دکھائی گئی۔ اربوں انسانوں نے اپنے گھروں میں بیٹھ کر لائیودیکھا کہ کیسے ایک قسم کے انسان دوسری قسم کے انسانوں کو لمحوں میں راکھ میں بدل رہے تھے۔پھر وقت بدلہ اور جب ڈرون جنگی ہتھیار کے طور پر سامنے آئے تو کوئی یقین نہیں کرسکتا تھا کہ ایک مشینی پرندہ کسی کو کسی جگہ بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ اب ٹینک‘ میزائل اور جہازوں کی ضرورت نہیں رہی تھی زمینی افواج کی تو بات ہی نہ کریں۔
کبھی انسان ڈنڈوں‘ سوٹوں اور تلواروں سے جنگیں لڑتے تھے‘ پھر گھڑ سوار تیار ہوئے‘ یونانیوں نے کشتیوں کے ذریعے ٹرائے پر حملہ کیا‘ پھر خندقیں بھی جنگی ہتھیار بنیں‘ قلعے بنے‘ منجنیقیں ایجاد ہوئیں تاکہ پتھروں کی بارش سے قلعوں کی دیواروں میں شگاف ڈال کر اندر داخل ہوا جائے‘ پھر پیدل فوجیں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے تک اپنے جیسے انسانوں کا لہو بہاتی رہیں اور آج تک بہا رہی ہیں اور آج پیجر‘فون کے ذریعے پلک جھپکنے میں آپ پوری دنیا اڑا دیں۔ بدلے صرف جنگی ہتھیار ہیں‘ انسان کے اندر ایک دوسرے کا لہو بہانے کی وحشیانہ جبلت وہی ہے جو ہزاروں سال سے تھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved