تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     29-09-2024

موٹر وے کا جہاز ڈوبنے سے پہلے

میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ ارضِ پاک کی خدمت کروں اور اپنے قلم کے ذریعے قوم کے مسائل کواجاگر کروں۔ ہمیں جی حضوری کے بجائے اداروں کے بگڑتے حالات کے بارے میں لکھنا چاہیے تاکہ ہم کسی ادارے کے ڈوبنے پر ماتم کرنے والوں میں نہیں بلکہ اس کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنے والوں میں شمار ہوں۔ دنیا میں مہذب و باشعور قوم کی پہچان اس سے ہوتی ہے کہ وہ قانون کی کس قدر پابند ہے۔ اگر ٹریفک قوانین کی بات کی جائے تو موٹرویز اور ہائی ویز پر جرمانے اس لیے کیے جاتے ہیں کہ لوگوں کی اصلاح ہو سکے۔ افسوس! ہمارے ہاں مہنگائی کے مارے عوام کو ٹریفک کے بھاری بھرکم جرمانوں کے مزید بوجھ تلے محض اس لیے دبا دیا گیا ہے کہ حکومت کو ریونیو میں اضافہ کرنا ہے۔ رواں سال کے آغاز پر وزارتِ مواصلات کی منظوری کے بعد نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس نے ملک کی تمام ہائی ویز اور موٹرویز پر ہر قسم کی ٹریفک کے لیے جرمانوں کی شرح میں بے تحاشا اضافہ کر دیا تھا‘ مثلاً حدِ رفتار کی خلاف ورزی پر کار ڈرائیور پر 750کی جگہ 2500 روپے‘ بس اور PSVڈرائیور پر دس ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا گیا۔ بغیر لائسنس موٹرسائیکل‘ کار اور LTV ڈرائیور پر پانچ ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ بغیر لائسنس مسافر بردار اور مال گاڑی چلانے پر دس ہزار روپے تک جرمانہ عائد کیا گیا۔ اوورلوڈنگ پرمال بردار گاڑی کے لیے جرمانہ ایک ہزار سے بڑھا کر دس ہزار کر دیا گیا۔ موٹر وے پولیس کی جانب سے جرمانوں میں اضافہ کی وجہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا بتائی گئی تھی۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا بھاری جرمانوں کے بعد ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں کوئی کمی واقع ہوئی؟
مجھے یاد ہے کہ جب جرمانوں میں اضافہ کیا گیا تو میڈیا کے کچھ دوستوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہ اضافہ غریب اورمہنگائی میں پسے ہوے عوام کی جیبیں کاٹنے کا ایک نیا بہانہ ہے اور موٹروے پولیس بھی روایتی ٹریفک پولیس جیسی بنتی جا رہی ہے۔راقم نے اس معاملے پر مختلف ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالکان سے لے کر حکومتی نمائندوں اور ماہرین سے بھی بات چیت کی ۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وفاقی حکومت سمیت موٹروے انتظامیہ غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالکان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ موٹروے پولیس کو بھی اب ماہانہ چالان کے ٹارگٹ ملتے ہیں۔ جب راقم نے اس بابت موٹروے پولیس کے افسران سے دریافت کیا تو انہوں نے محکمانہ دبائو کے پیش نظر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کچھ سینئر افسران نے لب کشائی تو کی مگر مصلحتاً زیادہ بات چیت سے گریز کیا۔ کچھ ذرائع کے توسط سے جو حقائق مجھ تک پہنچے ہیں‘ وہ قارئین کی خدمت میں حاضر ہیں۔
میری معلومات کے مطابق رواں سال کے آغاز میں جب جرمانوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں کافی حد تک کمی واقع ہوگئی تھی جس سے حکومت کی جرمانوں کی میں مد ہونے والی آمدن بھی کم ہو گئی تھی۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر فیلڈ افسران پر چالانوں کی تعداد میں اضافے کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا‘ جس کے بعد موٹر وے پولیس کی جانب سے بلاجواز چالانوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس روش کی وجہ سے عوام الناس کی نظر میں موٹروے پولیس کا امیج خاصا متاثر ہوا ہے۔ اس کے ذمہ داران فیلڈ فارمیشن یا جونیئر افسران نہیں بلکہ محکمے کی انتظامیہ اور حکومت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جرمانوں میں ہوشربا اضافے کے بعد موٹروے پرٹریفک قوانین کی پاسداری پر عملدرآمد یقینی بنوانے پر ہی فوکس کیا جاتا‘لیکن افسوس! عملاًمعاملات اس کے برعکس ہیں۔ موٹروے پولیس کے افسران بھی روایتی پولیس کی طرح جی حضوری میں مصروف ہو گئے ہیں جس کا خمیازہ غریب یا اُن شریف شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے جن کے پاس کوئی تگڑی سفارش نہیں ہوتی۔ موٹروے پولیس کے Evaluation کا طریقہ کار بھی بڑا غلط ہے ۔ پنجاب یا کسی بھی صوبے کی پولیس کی کارگردگی کا اندازہ اس سے لگایا جاتا ہے کہ اگر ایک سال میں دس ہزار ایف آئی آر درج ہوئیں تو اگلے سال بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے پندرہ ہزار ایف آئی درج کر لی گئیں‘ چاہے اس کے لیے بے گناہوں کے خلاف ہی کیوں نہ پرچے کاٹنا پڑے ہوں۔ موٹروے پولیس نے بھی اب یہی حربہ اختیار کر لیا ہے۔ بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے ہر آنے والے روز گزرے روز سے زیادہ چالان کیے جاتے ہیں جس سے نہ صرف غریب ڈرائیورز بلکہ ٹرانسپورٹ کمپنیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد تا پشاور موٹروے پر ایک فیلڈ افسر نے کچھ ٹرکوں اور ٹریلروں کو روک رکھا تھا۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ہماریAxle Load Control یا اوورلوڈنگ کے خلاف کمپین چل رہی ہے؛ چنانچہ ہمیں روزانہ پراگریس دینا ہوتی ہے‘ مطلب یہ کہ زیادہ سے زیادہ چالان کرنا ہوتے ہیں۔ موٹرویز اور ہائی ویز پر اوور لووڈنگ میں تھوڑا فرق ہے۔ موٹروے پر وزن کے کانٹے پر پہلے وزن ہوتا ہے پھر گاڑی کو موٹر وے پر داخلے کی اجازت ملتی ہے۔ اب قانون یہ ہے کہ جس گاڑی کا وزن پورا ہو اُسے موٹر وے پر سفر کی اجازت دے دی جائے اور جو گاڑی اوور لوڈ ہو اُسے موٹر وے پر سفر کی اجازت نہ دی جائے۔ اب یہاں یہ جھول ہو رہا ہے کہ جو گاڑی اوور لوڈ ہو اُسے موٹر وے پر سفر کی اجازت تو کسی صورت نہیں دی جاتی ساتھ 10ہزار روپیہ جرمانہ بھی کر دیا جاتا ہے۔ اب جب اوور لوڈ گاڑی کو سزا کے طور پر موٹر وے پر سفر نہیں کرنے دیا جا رہا تو گاڑی کے ڈرائیور کو 10 دس ہزار یا اس سے بھی زیادہ جرمانہ کرنے کا کیا جواز ہے؟ جب اوور لوڈ گاڑی واپس بھجوائی جا رہی ہے تو یہ بھی اچھی کارکردگی ہی ہے۔ اوور لوڈنگ کی کمپین چلانے والوں کو اس تصویر کا دوسرا رُخ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ حکام کے مطابق اوور لوڈنگ سے سڑکیں خراب ہوتی ہیں لیکن کیا کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ سڑکیں عالمی معیار یا اُس معیار کے مطابق بنائی جا رہی ہیں جس معیار کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے؟
ضروری ہے کہ موٹر وے سمیت شہروں کے اندر موجود ٹریفک پولیس محض چالانوں کا کوٹہ پورا کرنے کے بجائے ٹریفک کی بہتری کی طرف توجہ مرکوز کرے۔ موٹروے پولیس کی موجودہ پالیسیوں کی وجہ سے اس ادارے کی ماضی کی کارکردگی بھی گہنا کر رہ گئی ہے۔ اگر کسی فیلڈ افسر کی کارکردگی کا معیار محض چالانوں کی تعداد ہے‘ یہ نہیں کہ اُس کو تفویض کردہ علاقے میں ٹریفک کا بہاؤ کتنا بہترین ہے اور اُس کے علاقے میں ٹریفک کے قوانین کی کتنی پاسداری کی جاتی ہے تو اس سے وہ حوصلہ شکنی کا شکار ہو گا اور افسران کو خوش کرنے کے لیے ٹریفک قوانین کی پاسداری کرنے والوں کے بھی بلا جواز چالان کاٹے گا۔ یہ تو پتہ نہیں کہ ٹریفک چالانوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل کرنے کی پالیسی کس کی ہے لیکن اس پالیسی کی وجہ سے عوام حکومت سے متنفر تو ہو ہی چکے ہیں ساتھ ہی موٹر پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں۔ متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ کسی کمپین کے نام پر چالانوں کا ٹارگٹ پورا کرنے کی پالیسی ترک کی جائے۔آگاہی مہم چلانے کا یہ کوئی مؤثر طریقہ نہیں ہے کہ عوام الناس سے دھڑا دھڑ جرمانے وصول کیے جائیں۔کسی بھی خلاف ورزی کے بارے میں پہلے عوام کو آگا ہ کریں اور پھراس کی انفورسمنٹ کرائیں۔وزارتِ مواصلات اور موجودہ حکومت کو اس بارے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔شہریوں پر بھی لازم ہے کہ وہ ہر صورت ٹریفک قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved