ایف بی آر نان فائلر کی کیٹیگری ختم کرنے اور ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والوں پر مزید پابندیاں لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تقریباً 15 قسم کی سرگرمیوں پر مرحلہ وار پابندیاں لگائی جائیں گی جن میں سے پانچ کلیدی شعبوں پر پابندی فوری طور پر لگا دی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اقدامات سے عام آدمی کو فائدہ ہوگا یا اس کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا؟ نان فائلرز کی کیٹیگری فوراً ختم کرنے سے عام آدمی کی زندگی بُری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ حکومت پانچ کلیدی شعبوں پر فوری طور پر پابندی لگانے جا رہی ہے۔ باقی دس پابندیاں کچھ عرصے کے بعد لگائی جائیں گی۔ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے افراد پاکستان میں کوئی پراپرٹی نہیں خرید سکیں گے‘ وہ کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکیں گے‘ گاڑی نہیں خرید سکیں گے‘ میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری نہیں کر سکیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بیرونِ ملک سفر بھی نہیں کر سکیں گے۔ نان فائلر کی کیٹیگری ختم کرنے سے ممکن ہے حکومت کو کچھ فائدہ ہو جائے لیکن نقصان کے بھی خدشات ہیں۔ پچھلے مالی سال وِد ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں 1.33 ٹریلین روپے اکٹھے کیے گئے‘ جن میں سے 423 ارب روپے کلیم نہیں کیے گئے۔ جس کامطلب ہے کہ نان فائلرز نے 423 ارب روپے ٹیکس جمع کرایا۔ اگر ان نان فائلرز کو فائلرز بنا دیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 1500 ارب روپے ٹیکس بآسانی وصول کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اگر ان نان فائلرز کو فائلر نہ بنایا جا سکا تو ان سے وصول ہونے والے تقریباً 423 ارب روپے کے ٹیکس سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے بھی نان فائلرکیٹیگری ختم کی تھی لیکن حکومت دباؤ برداشت نہیں کر سکی اور دوبارہ اس ٹرم کو بحال کر دیا گیا۔ نان فائلرز کی کیٹیگری پہلے نہیں تھی‘ یہ 2013ء تا 2018ء میں اسحاق ڈار صاحب نے متعارف کرائی تھی کہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آ سکیں لیکن لوگوں نے زیادہ ٹیکسز دے دیے اور ٹیکس نیٹ میں نہیں آئے۔ پچھلے مالی سال میں ایف بی آر نے بینکوں سے کیش نکلوانے پر نان فائلرز سے جو ٹیکس اکٹھا کیا وہ 10 ارب روپے سے زائد ہے۔ اگر دیگر شعبوں کو بھی ملا لیا جائے تو یہ ٹیکس 150 ارب روپے سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ مگر ٹیکس وصول کرنے کا یہ طریقہ نامناسب ہے۔ اس سے کالے دھن کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ نان فائلرز کچھ فیصد زیادہ ٹیکس جمع کروا کر اربوں روپے کی پراپرٹی خرید سکتے ہیں اور ان سے یہ بھی نہیں پوچھا جاتا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ یہ ایک طرح کی ایمنسٹی سکیم ہے۔
آئی ایم ایف نے ٹیکس بیس بڑھانے کے لیے دباؤ بڑھایا ہے۔ جو لوگ پہلے سے ٹیکسز دے رہے ہیں ان سے مزید ٹیکس نکلوانا مشکل ہو گیا ہے۔ شاید اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ کسی بھی طرح ٹیکس بیس بڑھائی جائے۔ نئے اقدامات سے ٹیکس بیس بڑھنے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں مڈل انکم گروپس میں ٹیکس کمپلائنس 94 فیصد ہے جبکہ ایک فیصد امیر طبقے کی ٹیکس کمپلائنس صرف 29 فیصد ہے۔ اس لیے امیر طبقے پر ٹیکس لگانا زیادہ ضروری ہے۔ لیکن یہ معاملات جلد واضح کیے جانا ضروری ہیں۔ نان فائلرز پر سفری پابندی لگانا بہتر عمل ہے لیکن یہ کس طرح ہو گا‘ اس پالیسی کو واضح کرنا چاہیے۔ اگر شوہر فائلر ہے تو اس کی بیوی اور بچوں پر ٹریول پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ گھریلو خواتین اور بچے عمومی طور پر نان فائلر ہی ہوتے ہیں۔ لاکھوں بیرونِ ملک پاکستانیوں نے پاکستان میں میو چل فنڈز میں رقم جمع کرا رکھی ہے‘ ان کی اکثریت نان فائلر ہے۔ وہ منافع پر ماہانہ 30 فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ نئے قوانین کے بارے میں سن کر وہ پریشان ہیں کہ کہیں ان کے اکاؤنٹ بند نہ کر دیے جائیں اور رقم سرکار ضبط نہ کر لے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نان فائلر کیٹیگری ختم کرنے اور عوام کو سسٹم میں لانے کے لیے کچھ وقت دیا جائے۔ اس سے ٹیکس زیادہ اکٹھا ہو سکتا ہے اور ایف بی آر پر اعتماد بحال ہونے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
اس وقت ایف بی آر پورٹل کام نہیں کر رہا۔ لاکھوں افراد ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سسٹم سپورٹ نہیں کر رہا۔ عمومی طور پر ایف بی آر آخری دن کے آخری گھنٹے میں گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ کا اعلان کرتا ہے‘ جس سے سسٹم پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور وہ کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایک دن پہلے تاریخ میں توسیع کا اعلان کر دیا جائے تا کہ سسٹم نہ بیٹھے اور ٹیکس گوشوارے بروقت جمع ہو سکیں۔ ایف بی آر نے ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کیا کہ حال ہی میں متعارف کرائی گئی لیٹ فائلر ٹرم کا کیا بنے گا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نان فائلر ٹرم ختم ہو جائے گی لیکن لیٹ فائلر برقرار رہے گی اور حالیہ بجٹ میں جو نئے ٹیکسز لیٹ فائلرز پر لگے ہیں‘ وہ اسی طرح برقرار رہیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو لیٹ فائلرز کو فائلرز میں تبدیل کرنے کا راستہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر نے فیصلہ کیا ہے کہ مقررہ تاریخ سے ایک دن بھی تاخیر کرنے والوں کو فوراً نان فائلر کر دیا جائے گا۔ پہلے ایسا ہی تھا۔ اگر کوئی شخص پچھلے سال فائلر تھا اور موجودہ سال اس نے ریٹرن مقررہ وقت تک جمع نہیں کرایا تو تقریباً پانچ ماہ تک وہ فائلر ہی رہتا تھا‘ اس کے بعد وہ نان فائلر کیٹیگری میں جاتا تھا۔ اس سے ایف بی آر کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اگر یہ فیصلہ پچھلے سالوں میں ہی کر لیا جاتا تو اربوں روپے کا ٹیکس بآسانی حاصل کیا جا سکتا تھا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین سات ارب ڈالر کا معاہدہ طے پا چکا ہے جبکہ پہلی قسط کے طور پر تقریباً ایک ارب ڈالر بھی وصول ہو چکے ہیں۔ بقیہ رقم تین سالوں میں ملے گی۔ حکومت اس معاہدے پر بڑی خوش ہے اور اسے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے‘ لیکن عام آدمی اس معاہدے کے بعد بھی پریشان ہے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری سے نئے ٹیکسز لگ سکتے ہیں اور منی بجٹ بھی آ سکتا ہے۔ گو وزیراعظم نے منی بجٹ کے امکانات کو مسترد کیا ہے لیکن اگر ٹیکس اہداف حاصل نہ ہوئے تو منی بجٹ آنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ فی الحال مہنگائی کم ہو رہی ہے اور شرح سود بھی نیچے آئی ہے۔ جولائی اور اگست کے ٹیکس اہداف میں شارٹ فال ہے۔ اگر زیادہ لوگوں نے ٹیکس گوشوارے وقت پر جمع کرا دیے تو ستمبر میں ٹیکس ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو منی بجٹ نہیں لانا پڑے گا‘ مہنگائی مزید کم ہو سکتی ہے اور عام آدمی کے لیے روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری میں امریکہ اور چین کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ ایک سفارتی کامیابی ہے کہ ایک ہی وقت میں امریکہ اور چین کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنا آسان نہیں ہے۔ چین نے قرضوں کے رول اوور اور امریکہ نے 600 ملین ڈالر کا مہنگا قرض حاصل کرنے کی شرط ختم کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بدلے امریکہ کا کیا مطالبہ پورا کیا گیا‘ اس بارے میں ابھی معلومات نہیں ہیں۔ وزارتِ خزانہ نے تقریباً 11فیصد پر یہ قرض حاصل کرنے کے انتظامات کر لیے تھے اور وزیر خزانہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں اس کا اظہار بھی کیا تھا لیکن اب یہ قرض شاید نہ لیا جائے۔ آئی ایم ایف نے بھی واضح کیا ہے کہ اس مہنگے قرض کی ہماری طرف سے شرط نہیں ہے۔ اس سے پہلے تقریباً دو ارب ڈالر قرض حاصل کرنے کی یقین دہانی کرائے جانے کی اطلاعات تھیں۔ جس میں سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز کے لیے سعودی عرب سے درخواست کی گئی تھی۔ بہرحال ملکی معیشت کو درست سمت کی طرف لے جانا حکومت کی ایک کامیابی ہے اور اگر اس حکومت کو وقت دیا گیا تو معاشی استحکام کے امکانات بھی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved